مائنس عمران۔۔۔ شاہ محمود قریشی کیا آخری آپشن؟

یہ حقیقت ہے کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان اور اس کی جمہوریت کے ساتھ جو مذاق یا کھلواڑ ہوتا رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

جمہوریت کے دعویدارجمہوریت کے ثمرات اپنے عوام تک پہنچانے میں بری طرح ناکام رہے اور آج عوا م اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ عوام کی کثیر تعداد کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا انتہائی کٹھن ہوتا جارہا ہے۔12کروڑ نوجوانان ملت تیزی سے ناامید کی سمت بڑھتے جارہے ہیں۔

سانحہ 9 مئی کے ناقابل معافی واقعہ کے بعد تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پی ٹی آئی پر کڑا وقت ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما خزاں رسیدہ پتوں کی مانند پارٹی سے دور ہوتے جار ہے ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں وفاداریاں تبدیل کرنے کو وکٹیں گرانا کہتے ہیں، جس پر بقول شاعر یہ کہنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ:
یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

پاکستان کی سیاست میں یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ ہواؤں کا رخ دیکھ کر ہمیشہ کچھ سیاستدان اپنی وفاداریوں کے تقاضے بھی بدل لیتے ہیں۔ زیادہ دور نہیں، 2018ء میں جب پہلی بار پی ٹی آئی کو اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہوئی لیکن حکومت بنانے کیلئے قومی اسمبلی میں نمبرز پورے نہ ہونے کی وجہ سے درکار آزاد و دیگر جماعتوں کے منتخب اراکین پارلیمنٹ کو پی ٹی آئی کے جہاز میں جس میں نوٹوں کا بھی کافی وزن ہوتا تھا اس پرلاد لاد کر لایا گیا اور اس عمل کو وکٹ گرانے سے تشبیہ دی جاتی رہی۔

عمران خان نے برسوں اقتدار کیلئے زور لگانے کے باوجود ناکامی کی وجہ سے بالآخرآزمودہ سیاستدانوں (الیکٹ ایبلز) کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جو ان کے اپنے ہی نظرئیے کے خلاف تھااور جس سے پارٹی کے نظریاتی کارکنان میں بد دلی کی پہلی لہر پھیلی۔

شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، شیریں مزاری، اسد قیصر، شفقت محمود، جہانگیر ترین، خسرو بختیار، عمر ایوب، راجا ریاض، نور عالم خان، شکور شاد، اعظم سواتی، عثمان بزدار، پرویز خٹک اور ایسے درجنوں قائدین کو دیگر سیاسی جماعتوں سے توڑ کر پی ٹی آئی میں لایا گیا۔ آج اگر پی ٹی آئی کی وکٹیں گر رہی ہیں تو اس پر افسوس کیوں؟ جبکہ ماضی میں اس عمل سے خود عمران خان بھی خاطر خواہ استفادہ حاصل کرتے رہے ہیں۔

عمران خان کی مقبولیت کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید عمران خا ن نے اس وقت عوام کی توجہ حاصل کی جب عوام بار بار کی آزمائی ہوئی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوچکے تھے۔

یہ درست ہے کہ اب سے چند ہفتے پہلے تک عمران خان کو کچھ حلقوں کی نظر میں کرکٹ اورمسیحائی کی وجہ سے سیاسی میدان میں بھی ایک کرشماتی شخصیت سمجھا جاتا تھا لیکن اپنی مقبولیت کے زعم میں عمران خان نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔ چند ہفتے پہلے عمران خان کو یوں لگتاتھا کہ وہ الیکشن میں صرف دو تہائی اکثریت سے نہیں جیتیں گے بلکہ شاید کلین سویپ بھی کرجائیں گے۔

پنجاب میں 14 مئی کے الیکشن کیلئے سپریم کورٹ کی طرف سے حکم آیا تھا حالانکہ حالات اور حکومت کے روئیے سے صاف ظاہر تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے ٹکٹس تقسیم کیے اور یہ بھی اطلاعات تھیں کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹس کروڑوں روپے میں بھی دستیاب رہے جس سے مالی اعتبار سے فیضیاب ہونے والوں کی فہرست میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فرزندِ ارجمند کی بھی شمولیت سمجھی جاتی ہے۔

9مئی کا دلخراش حادثہ اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ اس تربیت اور ذہن سازی کا نتیجہ ہے جو عمران خان نے برسوں سے اپنے کارکنان کو دی۔ عمران خان نے تواتر کے ساتھ نوجوانوں کے ذہنوں میں ابھرنے والی بتدریج غیر اخلاقی زبان ، گالم گلوچ، اور شدت پسندی کا زہر جب لبریز ہورہا تھا تو اس پر کوئی اعتراض نہ کیا ۔

اب تو حکومتی حلقوں سے یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ یہ تمام کا تمام معاملہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت تھا جس کے تانے بانے ابھی مزید کھلنے باقی ہیں جو کہ بہت سنسنی خیز بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے قبل یہ حالات تھے کہ عمران خان حکومت کو خاطر میں نہیں لارہے تھے اور آج یہ صورتحال ہے کہ حکومت عمران خان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔

سانحہ 9 مئی کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں جہاں پی ٹی آئی کے سرکردہ اور نمایاں نام پی ٹی آئی سے الگ ہوتے جارہے ہیں، وہاں شاہ محمود قریشی کی کافی عرصے تک تک میانہ روی ، خاموشی اور نیٹ ورکنگ رنگ لے ہی آئی اور گزشتہ شب عمران خان نے خود یہ اعلان کردیا کہ شاہ محمود قریشی ان کے جانشین ہوں گے۔

سیاسی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں عام ہیں کہ شاید اب مائنس عمران خان کا وقت آچکا ہے اور شاہ محمود قریشی کی دیرینہ خواہش کے مطابق اب وہ متبادل کے طور پر حکمتِ عملی اختیار کرتےہوئےایوان کے سب سے بڑے درجے تک پہنچنے کی تگ و دو کرسکیں گے کیونکہ عمران خان کی جگہ شاہ محمود قریشی متبادل کے طور پر اپنے تمام تر سیاسی تجربات کے پیش نظر بھرپور طریقے سے متحرک ہوتے نظر آئینگے جس سے عمران خان کی اپنی شخصیت آہستہ آہستہ مدہم ہونی شروع ہوجائیگی۔

شاہ محمود قریشی کے بارے میں پہلے بھی یہ اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ شاہ محمود قریشی خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اب عمران خان کو سائیڈ لائن کرنے کی صورت میں شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی قائد کے طو ر پر سامنے آچکے ہیں لیکن اب یہاں دلچسپ کھیل شروع ہوچکا ہے یعنی وکٹم کارڈ۔

عوام کے پاس موجودہ جمہوری نظام میں زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ اگر جمہوری نظام میں چلتے چلتے نیا ڈوبنے لگے تو پھر عوام کو اپنی مرضی سے انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ وہ کس طرف جائیں گے، تاہم ہمارے ملک کے عوام کافی معصوم ہیں اور جو بھی شخص وکٹم کارڈ لے کر نکل آئے اور جلسے جلوس تک پہنچنے کی سہولیات اور کئی اشکال ومالی معاوضہ اداکرے تو عوام کی بڑی تعداد اس کے پیچھے چل پڑتی ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے وکٹم کارڈ کون کھیلے گا، یہ واضح نہیں ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر قانون کا شکنجہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو موقع نہ ملے، دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کا جانشین کتنا اہم ہوسکتا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی کارکردگی سے ہمیشہ عوام کو مایوس کیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب بھی پی ٹی آئی کیلئے کسی نہ کسی حد تک آس اور امید لگاسکتی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی حکومت یا جماعت عوام کیلئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہی کیوں نہ رہے لیکن وکٹم کارڈ کے ذریعے ہمیشہ بازی مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کھیل کے آغاز میں ہی حکومت نے اپنی آخری چال چل دی ہے، یعنی وقت اور حالات کو دیکھ کر حکومت نے اپنے سارے پتے کھول کر رکھ دئیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مائنس عمران خان کی صورت میں شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کے متبادل قائد ہوں گے یا کوئی اور ٹرمپ کارڈ نمودار ہوگا۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 38490 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More