1971 ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے ہمیں جو ذلت
اٹھانا پڑی اس سے ہر پاکستانی کا دل زخم خوردہ تھا۔ بھارت ٗ روس اور امریکہ
کی ملی بھگت سے پاکستان کا آدھاحصہ زبردستی علیحدہ کردیاگیا تھا اور وہاں
موجود پاکستانیوں اور پاکستان سے محبت کرنے والے بہاریوں کے ساتھ مکتی
باہنی اور متعصب بنگالیوں نے جو بہیمانہ سلوک کیا اس کا ذکر ہی دلوں کو
تڑپا دینے کے لیے کافی ہے - 90 ہزار فوجی اور سویلین افراد کو 23 مہینوں تک
بھارتی قید میں انسانیت سوز مظالم سہنے پڑے بلکہ 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ
سٹیڈیم میں ہتھیار ڈالنے کی جو ذلت آمیز تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستانی
فوج کے ایک جنرل۔ جنرل ایم کے نیازی نے اپنا پستو ل بھارتی جرنیل کے سپرد
کرکے تمام پاکستانیوں کے چہرے پر جو کالک لگائی تھی اس کی سیاہی آج تک ہم
اپنے چہروں پر محسوس کرتے ہیں - اس سے یہ تاثر ابھرنے لگا تھا کہ ہندو
برصغیر پاک و ہند میں اکھنڈ بھارت کا جو خواب دیکھتا چلاآیا تھا، اب اس کی
تعبیر زیادہ دور نہیں ہے کیونکہ اس وقت مغربی پاکستان کے لوگ نہ صرف اپنے
وطن کی بقا کے حوالے سے دل برداشتہ ہوچکے تھے بلکہ دفاع وطن کی ذمہ دار
مسلح افواج میں بھی تیزی سے مایوسی پھیل چکی ہے -اس صورت حال نے جہاں
پاکستان میں رہنے والوں کو پریشان کیا وہاں وطن سے دور رہنے والے پاکستانی
بھی خون کے آنسو روتے رہے۔اپنے وطن عزیز کی حالت زار پر آنسو بہانے والے ان
لاکھوں پاکستانیوں میں ایک نام ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا بھی تھا جو اس وقت
ہالینڈ میں مقیم تھے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر سقوط مشرقی پاکستان کی فلم
دیکھی تو اس المیے نے مادر وطن سے ان کی محبت اور بھی گہری کردی۔ انہوں نے
اسی لمحے اپنی تمام تر توانیاں وطن عزیز کے لیے وقف کردینے کا فیصلہ کرلیا
تھا لیکن وقت کی رفتار پر انہیں گرفت حاصل نہ تھی، اس لیے وہ دیار غیر میں
ہی رہنے پر مجبور تھے بلکہ 1972 ء اور 1973 ء میں جب وہ پاکستان تشریف لائے
تو انہوں نے دیکھا کہ پاکستانی قوم کا مورال بڑی حد تک گر چکا ہے اس صورت
حال کو دیکھتے ہوئے وہ ایک ایسا اقدام اٹھانا چاہتے تھے جس سے قوم میں ایک
بار پھر زندہ رہنے اور دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا عزم پیدا ہوسکے - اس
لیے جب بھی دیار غیر میں ان کی کسی پاکستانی سے ملاقات ہوتی تو وہ اپنا دل
چیر کر اس کے سامنے رکھ دیتے لیکن ان سے ملنے والا ہر پاکستانی انہیں یہ
کہہ کرمزید خوفزدہ کردیتا کہ وطن واپسی کی صورت میں انہیں روزگار کے حوالے
سے سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ڈاکٹر خان کو جو عزت اور
مالی مراعات ہالینڈ میں ان دنوں حاصل تھیں، پاکستان میں اس کا تصور بھی
نہیں کیاجاسکتا تھا - 18 مئی 1974 ء کو بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے یہ
ثابت کردیا کہ باقی ماندہ پاکستان کی سا لمیت بھی اب اس کے رحم و کرم پر ہے
- بھارت کی جانب سے یہ ایسی پیش رفت تھی کہ مادر وطن کے مستقبل کے بارے میں
سوچنے والا ہر شخص پریشان ہوگیا بلکہ اس ایٹمی دھماکے کے بعد خطے کی دفاعی
صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی ۔
ان حالات میں مایوس ہونے کی بجائے ڈاکٹر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم
پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو براہ راست خط لکھا اور بتایا کہ انہوں نے صرف
میٹالرجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہی نہیں کی بلکہ وہ اس شعبہ ( فلزیات )
کے ماہر اور لاتعداد تحقیقی مضامین کی ایک عالمی شہرت یافتہ کتاب کے مصنف
بھی ہیں ۔اس خط میں ڈاکٹر خان نے یہ بھی بتایا کہ وہ یورینم کی افزدگی جیسے
پیچیدہ اور مشکل ترین کام میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور ہالینڈ میں ایک ایسے
ہی منصوبے سے وابستہ ہیں جس کامقصد سینٹری فیوج سسٹم کے ذریعے یورینیم کی
افزدگی ہے کیونکہ اس طریقے سے کم خرچ میں ایٹمی توانائی کا حصول ممکن
ہوسکتاہے۔ اسی طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں بھی بہت کم عرصے
میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے -
خط پڑھنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ، ڈاکٹر خان کی علمی اور فنی مہارت سے
بہت متاثر ہوئے ٗڈاکٹر خاں کا خط پڑھ کر بھٹو کے ذہن میں ایک طوفان سا بپا
ہوگیا انہیں اپنے خواب کی تعبیر نظر آنے لگی انہوں نے ڈاکٹر خان کی المیلو
پلانٹ سے وابستگی اور یورینیم کی افزدگی میں مہارت سے فائدہ اٹھانے کا
فیصلہ کرلیا ۔انہوں نے ہالینڈ میں متعین پاکستانی سفیر کے ذریعے ڈاکٹر خان
کو پیغام بھجوایا کہ وہ جب پاکستان تشریف لائیں تو ان سے ضرور ملاقات کریں-
دسمبر 1974 ء میں جب ڈاکٹر خان پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے بھٹو سے
ملاقات کرکے بتایا کہ ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری مکمل طور پر ایک خسارے
کا سودا ہے جبکہ سنٹری فیوج پلانٹ کے ذریعے پاکستان بہت جلد ایٹمی طاقت بن
سکتا ہے تو بھٹو چونک پڑے لیکن بھٹو یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ جو سنٹری
فیوج پلانٹ برطانیہ ٗ جرمنی اور ہالینڈ کے اشتراک سے بیس سال سے زائد عرصہ
میں دو کھرب ڈالر سے پچیس ہزار سے زائد سائنس دانوں اور انجنیئروں نے قائم
کیاہے، اسے پاکستان جیسا غریب اور پسماندہ ملک کیسے قائم کرسکتا ہے لیکن
ڈاکٹر خان ، ذوالفقار علی بھٹو کا اعتماد حاصل کرنے اور انہیں یقین دلانے
میں کامیاب ہوگئے کہ پاکستان میں یہ کارنامہ کوڑیوں کے مو ل سات سال سے بھی
کم مدت میں انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس پر بھٹو اتنے پرجوش تھے کہ انہوں نے
ڈاکٹر خان کو فوری طور پر اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے کہہ دیا -جب ڈاکٹر
خان نے بھٹو کو فون پر یہ اطلاع دی کہ انہوں نے وزیر اعظم کی پیشکش قبول
کرلی ہے تو بھٹو خوشی سے چہک اٹھے اور انہوں نے میز پر مکا مار کر کہا I
will see Hindu Bastard now ڈاکٹر خان ہالینڈ میں اس وقت پاکستانی کرنسی کے
مطابق 30 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کررہے تھے لیکن پاکستان میں ان کی
تنخواہ صرف 3 ہزار روپے مقرر ہوئی - وطن دوستی اور وطن کے لیے ایثار کے نام
پر انہوں نے اس پر بھی اکتفا کرلیا اور اپنے پیشہ ورانہ کام میں مصروف
ہوگئے ۔راستے میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی ہوئیں لیکن وطن عزیز کی خدمت کا
جذبہ ہر بار ان رکاوٹوں پر حاوی ہوتا رہا - 31 جولائی 1976ء کو وزارت دفاع
میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی براہ راست نگرانی میں انجینئرنگ ریسرچ
لیبارٹریز کہوٹہ کو مکمل اختیارات کے ساتھ خود مختار منصوبے کی حیثیت دے دی
گئی جس کے بعد ڈاکٹر خان نے ایک نئے عزم اورولولے کے ساتھ کام شروع کردیا
تمام ترمشکلات کے باوجود ڈاکٹر خان ایسے باصلاحیت افراد کو اپنے زیر نگرانی
جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے جو واقعی پاکستان کے لیے تن من دھن قربان کرنے
کے لیے پرعزم تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز راولپنڈی میں
سنٹری فیوج بنانے کا کام جاری تھا۔ تجرباتی پلانٹ کی تفصیلات کے علاوہ
کہوٹہ پلانٹ کے تفصیلی نقشہ جات بھی ڈاکٹر خان اپنے ہاتھوں سے بنا رہے تھے
،ڈاکٹر خان اور ان کے رفقا اٹھارہ سے بیس گھنٹے رو زانہ کام کررہے تھے۔
1978 ء میں جب یورینیم افزدگی کا تجربہ کامیاب ہوگیا تو امریکہ سمیت بڑی
طاقتوں نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام پر بین
الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے کی نگرانی اور تحفظات کو تسلیم کرلے مگر جنرل
محمد ضیا الحق نے امریکی دباؤ کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا چنانچہ
امریکہ نے (پاکستان کو فوجی تعلیم و تربیت کے معاہدے کے تحت جو مراعات حاصل
تھیں) ان پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ چالیس ملین ڈالر کی اقتصادی امداد
بھی روک دی - حسن اتفاق سے 1979 ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار
کرکے قبضہ کرلیا۔ بحیرہ عرب ( گرم پانی والے سمندر ) تک پہنچنے کے لئے اب
سوویت یونین کے راستے میں صرف پاکستان ہی رکاوٹ تھا ۔یہ رکاوٹ سوویت یونین
اپنی دفاعی برتری کی بدولت کسی بھی وقت دور کرسکتی تھی لیکن اﷲ تعالی نے
جنرل محمد ضیاالحق کو مشکل کی اس گھڑی میں استقامت اور ہمت کی توفیق بخشی
جس کی بدولت وہ سوویت یونین کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اس کے باوجود کہ
امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت تھی پھر بھی
پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کو ہضم نہ ہوسکا اور اس کی جانب سے سازشوں
اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ نیویارک ٹائمز کی 11 اگست 1979 ء کی اشاعت
میں یہ خبر شائع ہوئی کہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے یورینیم انرچمنٹ
پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے تین متبادل صورتوں پرغور شروع کردیا ہے جن میں
اسے سبوتاژ کرنا یا کمانڈو ایکشن کے ذریعے اڑا دینا شامل ہے۔ یہ خدشہ بھی
ظاہر کیاگیا کہ پاکستان میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کو ہلاک بھی کیاجاسکتا ہے ۔ ہندوستان ٹائمز نے بھی امریکی دفتر خارجہ کے
ایک افسر کے حوالے سے یہ خبر شائع کی کہ اگر بھارت چودہ دن میں مشرقی
پاکستان کو فتح کر کے بنگلہ دیش بنا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کہوٹہ
پراجیکٹ کو چودہ منٹ میں تباہ نہ کرسکے - حالانکہ عالمی طاقتیں تیزی سے
پاکستان کے گرد سازشوں کا جال بن رہی تھیں اس کے باوجود جنر ل محمد ضیا
الحق نے حوصلہ نہ ہارا اور واضح الفاظ میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
امریکہ نے ہماری ہر قسم کی اقتصادی امداد روک دی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سے
ہمارے خلاف انتہائی شرانگیز پروپیگنڈہ مہم جاری ہے۔ ہم واضح کردینا چاہتے
ہیں کہ اس کے باوجود ہم پرامن ایٹمی صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوششیں ترک
نہیں کریں گے۔امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دباؤ کی بنا پر ڈاکٹر خان پر
ہالینڈ میں جعلی مقدمہ بھی قائم کیاگیا لیکن خدا کے فضل و کرم سے ڈاکٹر خان
پر چوری کا الزام ثابت نہ ہوسکا اور ڈاکٹر خان کو باعزت طور پر بری کردیا
گیا ۔ڈاکٹر خان کو بری کرنا نہ صرف ان کے وقار کی علامت بن گیا بلکہ یہ
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پرامن ہونے کا اعتراف بھی تھا۔ ایٹم بم کے
کولڈ ٹیسٹ 1983 میں کامیابی سے ہمکنار ہوچکے تھے ۔اب مرحلہ صرف عملی ایٹمی
دھماکوں کا منتظر تھا ،ڈاکٹر خان نے ایٹمی میدان میں زبردست کامیابیوں کے
بعد میزائل ٹیکنالوجی کی جانب توجہ مرکوز کی اور وطن عزیز کو غوری ٗ عنزہ ٗ
شاہین اور غزنوی جیسے مہلک اور جدید ترین میزائلوں کا تحفہ بھی دیا جس کی
وجہ سے دفاعی میدان میں بھارت کا مقابلہ کرنے کی ہمت پاکستان کو حاصل ہوئی
-
11مئی 1998 ء کو جب بھارت نے پوکھران کے صحرا میں یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی
دھماکے کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ایک بار پھر اپنے حق میں کرلیا
تو دیکھتے ہی دیکھتے بھارتی حکمرانوں کے رویے میں پہلے سے زیادہ سختی اور
تلخی آتی چلی گئی۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے واضح طور پر
پاکستان کو آزاد کشمیر سے دستبردار ہونے کی وارننگ دے دی کیونکہ اب بھارت
دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور بڑی طاقتوں کی اشیر باد بھی اسے
حاصل تھی-
پاکستان کے لیے یہ بھارتی رویہ ہرگز قابل قبول نہ تھا ،بھارتی ایٹمی
دھماکوں کے بعد پاکستانی عوام میں اضطراب اور بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی
ہر پلیٹ فارم پر بھارتی ایٹمی دھماکوں کا منہ توڑ جواب دینے کا مطالبہ
کیاجانے لگا ۔دوسری جانب امریکہ سمیت دنیا کی تما م سپر طاقتیں اس وقت کے
پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو صبر کی تلقین کرنے لگیں بلکہ وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ دھمکی آمیز ہوگیا کہ اگر پاکستان جوابا
ایٹمی دھماکے کرتا ہے تو اس کی تمام تر اقتصادی اور فوجی امداد بند کردی
جائے گی۔ گویا دوسرے لفظوں میں عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے پاکستان کو
بھارتی حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور کردیا - ان نازک
ترین لمحات میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف ایک ایسے دوراہے پر
آکھڑے ہوئے جہاں سے ایک راستہ بھارتی غلامی کی طرف جاتا تھا جبکہ دوسرا
راستہ معاشی تنگدستی اور کھلے عام عالمی طاقتوں کی مخالفت کی طرف ۔میں
سمجھتا ہوں کسی بھی لیڈر کے لیے یہ بہت بڑا امتحان تھا پھر پاکستان جیسے
ملک کے لیے جہاں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتیں ہی امریکہ کے ایما پر ہیں۔ ایک
جانب یہودی اور بھارتی لابی عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے
میں مسلسل پروپیگنڈہ کررہی تھی تو دوسری جانب ان عالمی طاقتوں کے سیٹلائٹ
اور جدید ترین مواصلاتی نظام پاکستانی سرزمین کے چپے چپے کی سکیننگ کررہے
تھے کہ اگر کہیں غیر معمولی سرگرمیاں نظر آئیں تو انہیں فورا طاقت سے ختم
کردیا جائے۔ گویا بین الاقوامی امن کے ٹھیکیدار بھارتی ایٹمی دھماکوں کی
سنگینی کو فراموش کرکے اپنی تمام تر توجہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے روکنے پر
مرکوز کر چکے تھے ۔ 19 مئی 1998 ء کو امریکی ٹیلی ویژن این بی سی نے امریکہ
اور روس کے لیے جاسوسی کرنے والے سیاروں سے لی گئی فلمو ں کی بنیاد پر ایک
تفصیلی رپورٹ نشر کی جس کے مطابق " شام کے دھندلکے میں کئی ٹرکوں پر مشتمل
ایک قافلہ چک لالہ ائیر بیس پر پہنچا یہاں پر کئی ایف 16 جنگی طیارے اور
مال بردار جہاز بھی تیار کھڑے تھے ۔پائلٹ اپنے اپنے طیاروں کے کاک پٹ میں
بالکل مستعد تھے۔ لڑاکا طیارے بموں اور میزائلوں سے لیس تھے۔ قافلے کے
ائیربیس پر پہنچتے ہی دھواں چھوڑنے والے گولے چلا کر پورے ائیر پورٹ کو
دھوئیں سے بھردیاگیا ۔دھوئیں کے غلاف Smoke Screen کی بدولت یہ معلوم نہیں
ہوسکا کہ ٹرکوں میں سے کیا سامان نکال کر مال بردار جہازوں میں لاداگیا " ۔
اس رپورٹ سے یہ بات باآسانی اخذ کی جاسکتی ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی
طاقتیں کس طرح پاکستانی سرزمین کے چپے چپے کو انتہائی طاقتور مواصلاتی
سیٹلائٹ نظام کی بدولت دیکھ رہی تھیں۔ شاید ایساکرنے والے یہ بھول گئے تھے
کہ خدائے بزرگ و برتر جب کسی قوم کو سرفراز کرنا چاہتا ہے تو تمام تر
دنیاوی اور سائنسی ترقی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور رب العزت کی رضا اور
خوشنودی چاہنے والے لوگ آنکھوں میں دھول جھونک کر منزل مقصود پر پہنچ جایا
کرتے ہیں ۔
دوسری جانب 11 مئی 1998 ء بھارتی ایٹمی دھماکوں کی خبرملتے ہی وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کے حکم پر پاکستانی سائنس دانوں کی ٹیم ڈاکٹر ثمر
مبارک مند کی سربراہی میں چاغی کے مطلوبہ مقام پر پہنچ چکی تھی ۔ سائنس
دانو ں کی اس مختصر ٹیم میں خلیل قریشی ٗ طارق سلیجہ ٗ غلام نبی ٗ منصور
بیگ ٗ چوہدری اقبال اور غلام اکبر شامل تھے - چھتر ریسٹ ہاؤس میں عظیم ماہر
ارضیات محمد حسین چغتائی کی قیادت میں ماہرین ارضیات پہلے سے وہاں مقیم تھے
جنہوں نے نہ صرف ایٹمی دھماکوں کے لیے طویل ترین سرنگیں جانفشانی کے بعد
تیارکی تھیں بلکہ ان سرنگوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا فریضہ بھی انہی کے
سپرد تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت
53 درجے سنٹی گریڈ تک جا پہنچتا تھا ان حالات میں سنگلاخ چٹانوں کو تراش کر
ایک کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرنگ بنانا اور پہاڑ کے قلب میں پہنچانا انتہائی
مشکل کام تھا ۔اس مشکل ترین کام کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے
پاکستانی قوم کی سربلندی اور آبرو کے لیے یہ کارنامہ سرانجام دیا اور
انتہائی نامساعد حالات میں چار سال تک اس اہم اور مشکل ترین منصوبے پر کام
جاری رکھا ۔
ڈاکٹر ثمرمبارک مند کی سربراہی میں آنے والی سائنس دانوں کی ٹیم نے سرنگ کے
اندر اور باہر ضروری آلات اور کیمروں کی تنصیب کا کام شروع کردیا۔ دھماکوں
کی شدت اور تابکاری کے اثرات نوٹ کرنے والے آلات بھی نصب کردیے گئے۔ تمام
کیمروں کا براہ راست تعلق کئی کلومیٹر دور کنٹرول روم سے قائم تھا۔ ایٹم بم
رکھنے کے بعد سرنگ کے دھانے کو پلگ یعنی بند کردیاگیا اور ہائی کمان کو اس
کی اطلاع دے دی گئی اس مرحلے پر متعلقین کا اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہونا
قدرتی امر تھا۔ اول تو ایٹمی دھماکے کرنے کا پہلا تجربہ کوئی معمولی بات نہ
تھی۔ دوم اس تجربے کی کامیابی اور ناکامی نہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت
پاکستانی سائنس دانوں ٗ پاکستانی حکمرانوں اور ساری پاکستانی قوم کے لیے
زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا تھا ۔ایک لمحہ ناکامی کا احساس بھی بھارتی
جارحیت کے یقین کو تقویت میں بدلنے کے لیے کافی تھا ۔پاکستان نے قوموں کی
تاریخ میں اگر آزاد و خود مختار ملک کی حیثیت سے زندہ رہنا تھا تو اسے
بھارتی ایٹمی دھماکوں کا ہر حال میں جواب دینا تھا-
اسی دوران حکومت پاکستان کو مصدقہ ذرائع سے اطلاع ملی کہ اسرائیل کے چھ جیٹ
فائٹر طیارے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے مقبوضہ کشمیر
کے ایک فضائی اڈے پر تیار کھڑے ہیں ،یہ طیارے فضا سے زمین تک مارکرنے والے
خطرناک میزائلوں سے لیس ہیں۔ یہ اطلاع ملتے ہی وزیر اعظم میاں محمد
نوازشریف نے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو ٹیلی فون کیا اور دھمکی
آمیز لہجے میں کہا کہ اگر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش
کی گئی تو بھارت کو ایسا جواب دیا جائے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔
پاکستان نے ایسے ہی پیغامات امریکہ اور سلامتی کونسل کے دوسرے رکن ممالک کو
بھی پہنچا دیے - میاں محمدنوازشریف کی بروقت جرات مندی کا فائدہ یہ ہوا کہ
پاکستان کی ایٹمی تنصیبات محفوظ رہیں اور 27 اور 28 مئی کی درمیانی رات
بخیرو خوبی گزر گئی -
28 مئی کا سورج پاکستانی قوم کی بے پناہ امیدوں کو لیے طلوع ہوا تو ہوا کا
رخ اب بھی سازگار نہ تھا ،دوپہر گیارہ بجے ہوا کا رخ موافق ہونے پر ہائی
کمان کو اطلاع کردی گئی کہ اب فضا دھماکے کے لیے بالکل سازگار ہے۔ اسی اثنا
میں ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اپنے رفقا کے ساتھ راس کوہ
کنٹرول روم پہنچ چکے تھے اور سارے آپریشن کی براہ راست نگرانی کررہے تھے
۔وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جانب سے دھماکوں کے لیے گرین
سگنل ملتے ہی کنٹرول روم میں سنسناہٹ پھیل گئی ۔وہاں موجود سب کی نبضیں تیز
ہوگئیں، سانسیں رکنے لگیں۔ سہ پہر تین بجے میاں نوازشریف نے وزیر اعظم
پاکستان کی حیثیت سے کنٹرول روم میں موجود تمام سائنس دانوں سے براہ راست
خطاب کیا اور ا ن کی ہمت افزائی فرماتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی ۔
وزیر اعظم کے بعد آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے بھی مختصر تقریر کی اور
راس کوہ کنٹرول روم میں موجود پاکستانی سائنس دانوں کا حوصلہ بڑھایا ۔اس کے
ساتھ ہی ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے ( جو سائنس دانوں کی ٹیم کے انچارج تھے)
ایٹمی دھماکے کے لیے بٹن دبانے کا فریضہ انجام دیا ۔ بٹن دبانے کے بعد 31
سیکنڈ تک جب پہاڑ کو کچھ نہ ہوا تو سب کے دل بیٹھ گئے لیکن اگلے چار سیکنڈ
بعد زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے ،اس طرح تین بج کر سولہ منٹ پر راس کوہ پہاڑ
ایک خوفناک زلزلے سے لرز اٹھا ۔یہ ایک ہیبت ناک گرج تھی دل ہلا دینے والا
زلزلہ تھا۔ ایٹم کی قوتوں کا سویا ہوا جن ایک خوفنا ک چنگھاڑ کے ساتھ بیدار
ہوچکا تھا جن کی قوت چار کروڑ کلوگرام بارود کے برابر تھی۔ اس سنگلاخ پہاڑ
کو تراشنے اور سرنگ بنانے کے لیے جدید ترین مشینوں اور ہتھیاروں سے لیس
ماہرین کو چار سال تک سخت مشقت کرنی پڑی تھی وہ ایٹم کی طاقت سے پگھلے ہوئے
موم کی طرح ہوگیا ۔اس پہاڑ کی چوٹی کئی میٹر بلند ہوکر رنگ تبدیل کرنے لگی
پہلے سرخ پھر نارنجی اور پھر پہاڑ سفید ہوگیا آخر چند لمحوں بعد جب ایٹمی
دھماکے کا زور ٹوٹا تو درجہ حرارت کروڑوں سے گر کر ہزاروں کی سطح پر آگیا۔
ٹوٹی پھوٹی چٹانیں جو دھماکے کی بے پناہ قوت کے زیر اثر اپنی جگہ سے بلند
ہوگئی تھیں ایک ہیبت ناک شور کے ساتھ نیچے بیٹھنا شروع ہوگئیں۔ صدیوں سے
آسمان کی بلندی کو چھونے والا یہ مغرور اور خشک پہاڑ نڈھال ہوکر بیٹھ چکا
تھا ۔دھماکے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کے اثرات اب پہاڑ سے باہر نکل کر
زمین کے اندر ہی اندر تیزی سے کرہ ارض کی سطح پر پھیلتے جارہے تھے ۔یہ
اثرات جہاں سے بھی گزرتے ۔ چاغی کی راس کوہ پہاڑوں پر گزرنے والی داستان
سناتے جاتے جونہی یہ اثرات دنیا بھر میں نصب ارتعاش پیما آلات پر نظر آئے
تو ہمارے دشمنوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی اور دنیا کی آٹھ بڑی طاقتوں
کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوگیا -
سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت وطن
عزیز کو بھارتی یلغار سے محفوظ بنانے کا جو عزم کیا تھا یکے بعد دیگرے چھ
کامیاب ایٹمی دھماکوں کی بدولت اس عزم کو عملی صورت مل چکی تھی ۔ اس لمحے
نہ صرف ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو رہاتھا بلکہ دنیا بھر میں بسنے
والے تمام مسلمان اپنے اس عظیم سائنس دان کے کارنامے پر ہدیہ تبریک پیش
کررہے تھے -
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جب سارے ہندوستان میں
مسلمان بہنوں ٗ بیٹیوں اور ماؤں کو ہندو بیدردی سے قتل کرتے اور ان کی بے
حرمتی کرتے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا دل خون کے آنسو روتا۔حالانکہ اس وقت
آپ ابھی کمسن تھے لیکن وہ ایک حریت پسند مجاہد بن کر اپنی مسلمان ماؤں کا
بیٹا ٗ بہنوں کا بھائی اور بیٹیوں کا باپ بن کر غلیظ ہندووں اور سکھوں کا
مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن آپ کے والد نے یہ کہہ کر آپ کو دنگا فساد سے
روک دیا کہ پہلے خاموشی سے تعلیم حاصل کرو پھر اپنی قوم کو ملنے والے زخموں
کا بدلہ چکاؤ ۔ قوم بہت کمزور ہوچکی ہے ،اسے تم نے اپنے علم کے ذریعے مضبوط
بنانا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے علم ہنر ٗ فنی مہارت
اور گراں قدر تجربے کی بدولت پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنا کر اپنے والد
کے سونپے ہوئے مشن کو حقیقت کا روپ دے کر یہ بات ثابت کردی کہ ظلم کے خلاف
جہاد صرف تلوار سے ہی نہیں ہوتا بلکہ علم اس سے بھی بڑا ہتھیار ہے ۔ آنے
والی نسلیں نہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تحسین کی نظر سے دیکھیں گی بلکہ
ڈاکٹر ثمرمبارک مند ٗ ڈاکٹر احسن مبارک ٗ ڈاکٹر اشفاق احمد خاں ٗ بریگیڈئر
سرفراز علی ٗ بریگیڈئر زاہد علی اکبر ٗ ذوالفقار علی بھٹو ٗ جنرل محمد ضیا
الحق ٗ غلام اسحاق خاں ٗ جنرل جہانگیر کرامت اور میاں محمد نواز شریف کی
معاونت اور تحفظاتی کردار کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گی۔ میاں محمد
نوازشریف جو اس وقت بھی پاکستانی سیاست میں سب سے نمایاں مقام رکھتے تھے
اپنی حب الوطنی کی بدولت قوم کی امیدوں کا ایک بار پھر مرکز بن چکے تھے
کیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں غیروں سے مل کر اپنوں نے بھی پورے ملک
کو عدم تحفظ کا شکا ر کررکھا ہے بلکہ عدلیہ سمیت تمام اداروں کی عزت و وقار
کو خاک میں ملا دیا ہے۔
سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جس عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر
خان نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس لیے قربان کردیا کہ بھارت کے سامنے
تھر تھر کانپنے والے اپنے وطن کو تاقیامت استحکام بخشا جائے لیکن اسی وطن
کے نام نہاد حکمرانوں( جنرل پرویز مشرف) نے پہلے 2004 ء میں الزام لگا کر
انہیں قید تنہائی میں مقید کیے رکھا کہ انہوں نے ایٹمی راز دوسرے ملکوں کو
فروخت کیے ہیں اور اس کا زبردستی اعتراف بھی کروا لیا گیا۔کئی سال تک وہ
اپنے ہی گھر میں نظر بند رہے۔پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی بے حسی عروج پر
تھی جس نے انکی رہائی کے لیے قومی سطح پر کوئی تحریک شروع نہیں کی -
10اکتوبر 2021ء کو وہ منحوس گھڑی بھی آ پہنچی جب اپنوں کے ستائے ہوئے محسن
پاکستان اور عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اس دنیا فانی سے
نہایت خاموشی سے رخصت ہوگئے ۔ان کی موت پر تعزیتی پیغامات نشر کرانے والوں
کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ اسلام آباد میں موجودگی کے باوجود پاکستانی
قوم کے اس عظیم محسن اور ہیرو کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے ۔بہرکیف جانے
والوں کو تو کوئی روک نہیں سکتا لیکن موجودہ اتحادی حکومت کے وزیراعظم میاں
محمد شہباز شریف سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ڈاکٹر عبد القدیر
خاں کا جسد خاکی ایچ 8کے قبرستان سے نکال کر عزت و احترام کے ساتھ فیصل
مسجد کے اس وسیع وعریض احاطے میں شایان شان مقبرہ بناکر دفن کیا جائے جہاں
اس سے پہلے جنرل محمد ضیاالحق دفن ہیں ۔ہمیں ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ
ڈاکٹر خان نے پاکستانی قوم کو سر اٹھا کر جینا سکھایا ،جس نے بھارتی جارحیت
کے سامنے ایسا مضبوط بند باندھ دیا کہ بھارت اسے کبھی عبورنہیں کرسکے گا ۔ |