کرن رجیجو کا عبرتناک عروج و زوال

سابق وزیر قانون کرن رجیجو کی ابھی حال میں (29؍اپریل) کو وزیراعظم نریندر مودی نے، شہریوں کے درمیان بیداری پیدا کر کے قانونی خدمات کے کیمپ میں فعال کردار ادا کرنے پر تعریف کی تھی ۔ وزیراعظم نےٹوئیٹ کہا تھا کہ :’’اس طرح کی کوششیں قابل ستائش ہیں، کیونکہ اس سے لوگوں میں میں قانون اور قانونی حقوق سے متعلق پہلوؤں کے بارے میں بیداری بڑھتی ہے۔‘‘ کون جانتا تھا کہ بیس دن کے اندر یہ ستائش رنجش میں بدل جائے گی ۔ جولائی 2021 میں جب کابینہ کی توسیع ہوئی تو کرن رجیجو ان 30 لیڈروں میں سے ایک تھے جنہیں کابینہ میں شامل کیا گیا تھا ہےلیکن وداعی تنہا ہوئی ہے۔ وہ مئی 2019 سے جولائی 2021 تک نوجوانوں کے امور اور کھیلوں کے وزیر مملکت آزادانہ چارج تھے اور مئی 2014 سے مئی 2019 تک اقلیتی امور کے وزیر مملکت بھی تھے لیکن انہوں نے ان دونوں شعبوں میں مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ ان کو ترقی دی جاتی۔

قانون و انصاف کی وزیرکی حیثیت سے چارج سنبھالتے وقت کرن رجیجو نے کہا تھا کہ میں عوامی توقعات کو پورا کرنے کو ترجیح دوں گا اور ہمیشہ شفافیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کروں گا۔ عوام تو دور وہ وزیر اعظم کی توقعات پر بھی پورے نہیں اترے اسی لیے ان کو دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر کنارے کردیا گیا۔ اس طرح 31 سال کی عمر میں 2004 کے اندر 14 ویں لوک سبھا کے لئے منتخب ہونے والے کرن رجیجو کا سیاسی کیرئیر خاتمے کے قریب آگیا ہے ۔ایک سوال یہ ہے کہ آخر بھارتیہ جنتا پارٹی کا ابھرتا ہوا ستارہ اچانک کیوں غروب ہوگیا؟ اس کے لیے مودی سرکار ذمہ دار ہے جس نے پچھلے سال عدلیہ کے خلاف سرد جنگ چھیڑ دی اور کرن رجیجو کو اس کا سپہ سالار بنادیا ۔ موجودہ سرکار نے سارے اداروں میں سنگھ کے نااہل لوگوں کو بھردیا مگر عدلیہ میں کالیجیم کا نظام اس کے راہ کی رکاوٹ بن گیا ۔اس لیے ججوں کی تقرری کے معاملے میں سپریم کورٹ اور حکومت آمنے سامنے ہوگئے ۔

کالیجیم سسٹم پرسابق وزیر قانون کرن رجیجو نےتنقید کی تو اس پرسپریم کورٹ نے سخت برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ عدالتِ عظمیٰ نے الزام لگایا کہ کالیجیم کی سفارش کے باوجود حکومت اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں تساہلی اور آناکانی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ حکومت کالیجیم کے ذریعہ نامزد کیے جانے والے ججوں کی تقرری نہیں کررہی ہے۔ کچھ نام تو ڈیڑھ ڈیڑھ سال سے زیر التواء ہیں۔ جسٹس کول اور جسٹس اوکا کی بینچ نےاپنی برہمی کااظہار کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) نافذ نہیں کیے جانے کی وجہ سے ناراض ہے۔اس سنگین معاملے میں 2021ء کے اندر بنگلور ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن نے حکومت کے خلاف توہین عدالت کی پٹیشن داخل کرکے کالیجیم کی سفارش کردہ ۱۱؍ ججوں کے ناموں کو منظوری نہ دینے پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت کا یہ رویہ سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی خلاف ورزی تھا ۔ اس حکمنامہ میں کہا گیا تھا اگرکالیجیم نظر ثانی کے بعد دوبارہ نام بھیج دے تو انہیں 3؍ سے 4؍ ہفتوں میں منظورکرلیا جائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے اس بابت دوٹوک لہجے میں کہا تھا کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ آپ ناموں کو روک سکتے ہیں،اس کی وجہ سے پورا نظام متاثر ہوتا ہے... اور کبھی کبھی جب آپ تقرری کرتے بھی ہیں تو بھیجے گئے کچھ ناموں کو منظور کرلیتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ اس کے ذریعہ سینئرٹی کے نظام کو متاثر کررہے ہیں۔ ‘‘ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے نشاندہی کی تھی کہ کئی نام ۴؍ مہینوں سے حکومت کے ہاں التواء کا شکار ہیں۔کورٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایک وکیل کا تقرر سے قبل انتقال ہوگیا اور دوسرے نے جج بننے کیلئے دی گئی آمادگی ہی واپس لے لی۔ سوال یہ ہے کیا ایسا کرنا سرکار کے ذریعہ لکشمن ریکھا کو عبور کرنا نہیں تھا ۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ برہمی کی ایک وجہ وزیر قانون کرن رجیجو کا وہ انٹرویو تھا جس میں انہوں نے کالجیم سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ ان کے مطابق ججوں کی تقرری کے اس نظام کو ملک کے عوام کی بھی تائید حاصل نہیں ہے۔ رجیجو نے کہا تھا کہ حکومت کا اختیار کالیجیم کےتجویز کردہ ناموں کو منظور کرنے تک ہی محدود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ پرآپے سے باہر ہوتے ہوئے کرن رجیجو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’یہ کبھی مت کہنا کہ حکومت فائلوں کو دبا کر بیٹھی ہے، اگر ایسا ہے تو حکومت کے پاس فائل مت بھیجیے ، آپ خود تقرری کرلیجیے، خود سب کچھ کیجیے۔‘‘اس وقت وزیر قانون کے اندر اقتدار کی رعونت بول رہی تھی جس پرناراضی کااظہار کرتے ہوئے جسٹس کشن کول نے کہا تھاکہ ’’جب کوئی اعلیٰ عہدہ پر فائز اس طرح کی بات کرتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ان گمراہ کن باتوں پر لتاڑ لگاتے ہوئے جسٹس کشن کول نے کہا تھا کہ کالیجیم سسٹم پر کسی کو تحفظات ہوسکتے ہیں مگر جب تک یہ نافذ ہے، یہی ملک کا قانون ہے۔ کورٹ نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو تنبیہ کی تھی کہ ’’آپ دونوں ہی اتنے سینئر ہیں کہ بینچ کے جذبات سے حکومت کو آگاہ کر دیں۔ مہربانی کرکے مسئلے کو حل کریں، ہمیں اس پر کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔‘‘ اس بینچ نے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کرکے عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔اس ڈانٹ کے بعد حکومت عقل آئی ۔ یہ مردِ ناداں زبانِ نرم و نازک سے نہیں مانتے۔

کالیجیم تنازع پر پھٹکار کھانے کے بعد بھی کرن رجیجو کا دماغ ٹھکانے نہیں آیا ۔ موصوف غداری قانون کے قانون پر سپریم کورٹ کے حکم سے اس قدر ناراض ہوئے کہ کھلے عام حد سے تجاوز نہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ ہوا یہ کہ گزشتہ سال مئی میں عدالتِ عظمیٰ انگریزوں کے زمانے کا وضع کردہ غداری قانون کے تحت تمام کارروائیوں پر روک لگا دی۔ اس کے بعد مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے انتظامیہ اور عدلیہ سمیت مختلف اداروں کی رہنمائی کرنے والی ’لکشمن ریکھا‘ کا حوالہ دے کر کہا کہ کسی کو بھی اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوکر رجیجو بولے ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ عدالت کو حکومت اور مقننہ کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ بات غلط تھی وہ اگر احترام کرنے والے ہوتے تو سرِ عام اعلان نہ کرتے ۔ بیچارے کرن رجیجو کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ احترام بھیک میں مانگنے والی شئے نہیں ہے۔ یہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی بنچ کا فیصلہ تھا جنہیں سبکدوشی سے قبل بے عزت کیا گیا۔

کرن رجیجو نے اس موقع پر غداری کے قوانین سے متعلق راہل گاندھی کے تبصرے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس آزادی،جمہوریت اور اداروں کے تئیں احترام کی مخالفت کرتی ہے ۔ انہوں نےالزام لگایا تھا کانگریس ہمیشہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ کھڑی رہتی ہے اور ملک کو تقسیم کرنے کاکوئی موقع ضائع نہیں کرتی۔انہوں نے سابق وزیراعظم اندراگاندھی کی حکومت کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس نے دفعہ 124اے کو ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قابل ادراک جرم بنایا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی پہلی ترمیم کا ذکر کرکے بتایا کہ شیاما پرساد مکھرجی اور جن سنگھ نے اظہار رائے کی آزادی کو ختم کرنے والے قانون کی مخالفت کی تھی۔سوال یہ نہیں ہے کہ جن سنگھ اور شیاماپرساد مکرجی نے کیا کیا تھا بلکہ یہ ہے موجودہ مودی سرکار کیا کررہی ہے؟وہ خود تعزیرات ہند کی دفعہ 124-A کے تحت 152 سال پرانے غداری قانون کو کو کیوں ختم نہیں کرتی؟ اس کا بے دریغ استعمال کیوں نہیں کرتی؟ اوراگر عدالت اس پر روک لگائے تو اسے کیوں روک اور ٹوک کرتی ہے۔

موجودہ حکومت نے اظہار رائے کی آزادی کو جس طرح کچلا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت عالمی اظہار رائے کی فہرست میں وطن عزیز کی خراب پوزیشن اور صحافیوں کے عدم تحفظ کو لے کر ملک کی دگر گوں صورتحال ہے۔ کرناٹک شکست کے بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ایک ساتھ کئی محاذوں پر جنگ کرنے کی اس کے اندر سکت نہیں ہے۔ اڈانی جیسے نازک معاملات عدالت میں زیر سماعت ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی ناموافق فیصلہ آجائے تو حزب اختلاف کی بلےّ بلےّ ہوجائے گی اور سرکار کے لیے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا ۔ اس لیے عدلیہ کو راضی کرنے کے مودی جی نے وزیر قانون کرن رجیجو کو بلی چڑھا کر خیر سگالی کا پیغام دیا ہے۔ یہ حکومت کی ایک مجبوری ہے۔ مہابلی وزیر اعظم اور کٹاپا وزیر داخلہ اتنی آسانی سے سپر ڈال دیں گے اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا لیکن اس معاملے نے یہ ثابت کردیا کہ زعفرانی جماعت اقتدار میں رہنے کی خاطر اورانتخاب جیتنے کے لیے کسی بھی حدتک گرسکتی ہے۔ ویسے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اس طرح کی مخاصمت ملک و قوم کے اچھا شگون نہیں ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223309 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.