سول مارشل لاء یا عوامی بغاوت

سمیول فائنل نے 1995 میں ایک کتاب لکھی تھی
the man on the horseback
جس میں سیاست میں فوج کی مداخلت ،فوجی بغاوت اور تخت و تاج پہ فوج کےقبضے کے اسباب اور نتائج پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ان کے مطابق بوٹ سیاست میں اپنے عسکری عزائم اور معاشی فوائد کے لیے مداخلت کرتے ہیں یا اگر اس ادارے کی طاقت اور وقار پر انگلی اٹھائی جائے تو وہ انتہائی قدم ہم جسے coup detat کہتے ہیں کرنے سے گریز نہیں کرتی۔

پہلے درجے میں فوج حکومت کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے تمام عسکری فیصلے اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہیں۔ دوسرے درجے میں حکومت کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور اگر مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکی کی تو مائنس ون فارمولا یا رجیم چینج کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جیسے پچھلے 7 سالوں سے دیکھا جا رہا ہے ہے جو کہ تیسرا درجہ ہے اور اگر سیاستدانوں کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو معالج بن کر مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتی ہے اور پوری قوم کا آپریشن کیا جاتا ہے ہے جس میں نہ آئین بچتا ہے اور نہ ہی ریاست کا استحکام جوکہ چوتھا درجہ ہے۔

اگر پاکستان کے حالات اور تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو آج تک فوج ملک کی سلامتی کے اہم فیصلوں میں بلا واسطہ اور بلا شرکت غیر خودمختار رہی ہے ہے انیس سو پینسٹھ کی جنگ ہو ہو انیس سو اکتر کا آپریشن ہو کارگل کا محاذ ہو یا یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سب فیصلے آمروں نے کیے یا فوجیوں نے۔ یہاں تک کہ کارگل کے بعد بعد سول ملٹری تنازعات پر عمران خان نے یہ بھی کہا تھا تھا کہ فوج دفاعی معاملات میں سویلین کو فیصلے کا اختیار دیتی ہیں کیوں ہے؟ پھر وہی ہوا کہ بات نہ ماننے پر کئی سویلین حکومتوں کے تختے الٹے گئے۔

جنرل باجوہ پر پہلے نواز شریف اور پھر عمران خان نے رجیم چینج کا الزام لگایا۔ ووٹ کو عزت دو سے لے کر حقیقی آزادی کی تحریک تک سب نے خلائی مخلوق کے سیاسی کردار پر تنقید کی اور اسے محدود کرنے کا مطالبہ کیا۔ دونوں ایک ہی سوراخ سے ڈسے گئے لیکن اس سانپ کا سر کچلنے کے لیے تیار نہیں ہوئے کیونکہ اصل سانپ یہ خود ہیں ۔

پہلی ڈیڈی کی حمایت میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم کیا بعد میں نون لیگ نے بھی یہی پتہ کھیلا اور اپریل 2022 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر عمرانی تختہ الٹ دیا
یہ فوجی بغاوت کا تیسرا درجہ ہے جو سیول فائنل نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ یہ حالات کم ازکم چوتھے درجے سے بہتر ہے جو 1999 اور1977 میں در پیش تھے ۔ جب فوج باقاعدہ ملک کی مطلق العنان بادشاہ بن کر بیٹھ گئی اٹھارویں ترمیم کا شکریہ کہ نومئی کے دلخراش واقعے کے بعد بھی فوج نے یہ جرات یا غلطی نہیں کی ۔ عمران خان حکومت کھو دینے کے وقت سے ہی پارٹی کو یہی تربیت دے رہے ہیں کہ فوج پاکستان کے ہر مسئلے کی جڑ ہے۔ جنرل باجوہ غدار ہے اور جنرل عاصم منیر کو بھی بی بی سی کے انٹرویو میں انہوں نے نہیں بخشا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام خاص کر ان کے ٹائیگرز کا جتھا جی ایچ کیو پر حملہ آور ہو گیا۔ کورکمانڈر ہاؤس جلایا ،میٹرو اسٹیشن ریڈیو پاکستان موٹر وے نذر آتش کی گئیں۔ ہوا کیا تھا کہ تصادم کا نعرہ لگانے والے انصافی لیڈر کا احتساب کیا جا رہا ہے عمران خان خود احتساب کے سامنے پیش ہونے اور بڑے بڑے عہدے داروں کے ساتھ عام پاکستانی جیسا سلوک کا نظریہ تبدیلی پیش کرتے تھے۔ مگر بات جب اپنے گھر تک آئی تو عوام کو باہر نکل کر جہاد کرنے پر اکسایا۔ فوج کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم تو وہ پہلے ہی چلا رہے تھے لیکن بات کو عوامی بغاوت تک لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فواد چوہدری نے تو اپنے اصل مقاصد بھی بیان کر دیے یہ کہہ کر کہ موجودہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے فوج میدان میں آئے اور الیکشن کروا دے۔ اس طرح ملک کی بڑی جماعت فوج سے ٹکر لے رہی ہیں اور وہ وہ ملک کو مارشل لاء کے اندھیرے میں دھکیلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ادھر حکومت فوجی عدالت بنوا کر عوام کو فوج کی لونڈی بنا دینا چاہتی ہے۔ دونوں انتہاپسندی کو چھو رہے ہیں جس میں میں نقصان صرف عوام کا ہے، جمہوریت کا ہے۔

تاریخ سے ہم نے صرف اتنا سبق سیکھا ہے کہ تاریخ سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایوب خان نے بھی الیکشن ملتوی کئے تھے۔ نتیجہ ریاست کے دولخت ہونے پر پہنچ گیا۔ عمران خان اور دیگر اپوزیشن سن انیس سو ننانوے میں بھی بھی فوج کو بار بار تمام فیصلے ہاتھ میں لینے کے مشورہ دیا کرتے تھے آج بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ پولرائزیشن اور اداروں کا تصادم یوں ہی برقرار رہا تو عوام "میرے عزیز ہم وطنو! اسلام علیکم" سننے کے لئے تیار رہے۔
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.