پاکستان جلے توسنجیدہ پاکستانیوں کا خون بھی جلتاہے تاہم
ہماری سیاست اورصحافت میں جلتی پرتیل چھڑکنے اوراس آگ پراپنی سیاست چمکانے
والے شرپسند بھی بہت ہیں،بیشتر یوٹیوبرز دن بھرافواہوں کوہوا دینے کے
سواکچھ نہیں کرتے۔میں آزادی اظہار کاحامی ہوں لیکن اگرا نہیں ضابطہ اخلاق
کاپابند نہ کیا گیا تو معاشرہ آزادی اظہار سے بیزارہوجائے گا ۔جب بھی وطن
میں بدامنی کی آگ بھڑکتی ہے تو ہم وطنوں کے دل بجھ جاتے ہیں ، ان کی دنیا
اندھیر ہو جاتی ہے کیونکہ پاکستان کوئی معمولی ریاست نہیں،ان شاء اﷲ اس نے
غزوہ ہند میں ان گھمنڈی ہندوؤں کاناطقہ بندکرناہے جو پاکستان میں ہونیوالے
حالیہ واقعات پربغلیں بجارہے ہیں۔پاکستانیوں کے درمیان پیچیدہ سیاسی
تنازعات سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن بھارت کیخلاف مزاحمت کی نیت سے یہ
فوری متحد اورمستعد ہوجاتے ہیں۔ بھارت اوراس کے اتحادی قیامت تک شہریان
پاکستان اورافواج پاکستان کے درمیان دراڑ پیدانہیں کرسکتے ۔تاریخ شاہد ہے
جس کسی نے پاکستان کودکھ دیا اس نے سکھ نہیں پایا،16دسمبر1971ء کوپاکستان
کے وجود پرکاری ضرب لگانیوالے جوتین مرکزی کردارتھے قدرت نے انہیں
کیفرکردارتک پہنچا دیا۔انتہاپسند نریندر مودی اوراس کے حواری یادرکھیں پاک
سرزمین کے عوام پاک فوج سے والہانہ عشق اوراس پررشک کرتے ہیں۔مادر وطن میں
کشت وخون دیکھنا آسان نہیں ، دلخراش واقعات اورسانحات کے نتیجہ میں فرزندان
پاکستان کے وجود شدت کرب سے تڑپ جاتے ہیں۔9مئی کوبہت کچھ جلتا ہوا دیکھا
لیکن بدامنی کی یہ آگ بجھانے کوئی آگے نہیں آیا ۔اس روز قوم کے دل" بوجھل
"لیکن پھربھی حکمران آنکھوں سے" اوجھلـ" تھے، شاید وہ اپنی مرضی کاماحول
تیار اور مداخلت کیلئے موزوں وقت کاانتظار کررہے تھے ۔ 9مئی کاسانحہ گزرگیا
لیکن اب حکمران لکیر پیٹ رہے ہیں،اب مشتعل مظاہرین کیخلاف کریک ڈاؤن
کیاجارہا ہے لیکن پرتشدد واقعات کے تدارک کیلئے بروقت کوئی اقدام نہیں
کیاگیا۔ہم نے 9مئی کو جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا وہ بہت براتھا اورکوئی باضمیر
وباشعور انسان ان دلخراش واقعات کادفاع نہیں کرسکتا لہٰذاء ارباب اقتدار
واختیار کوشش کریں اس سے مزیدبرا نہ ہو۔اس کیلئے کپتان سمیت ہرسیاستدان کو
سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور اس کاپائیدار حل تلاش کرنا ہوگا۔عمران خان
کوتولنا اورپھربولنا ہوگا ،پھر کہتا ہوں"مقبول "نہیں" معقول" ہونازیادہ اہم
ہے ۔میرے نزدیک سیاسی کارکنان کو دہشت گرد کہنا ہرگز مناسب نہیں کیونکہ
دہشت گرد یعنی درندہ بننا آسان نہیں اس کیلئے شیطان کی راہ پرچلناپڑتا
ہے۔حکومت اپنا بیانیہ بدلے ورنہ ماضی میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں
ملوث سیاسی اورمذہبی پارٹیوں کے ورکرز کوبھی دہشت گردقراردینا پڑے گا۔ میں
سمجھتا ہوں سیاسی انتہاپسندی سے نجات کیلئے اعتدال پسندی اورمکالمے کوفروغ
دیاجائے۔
میں زمانہ طالبعلمی اورمسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابقہ مرکزی صدر کی حیثیت
سے ریاستی اداروں اورسکیورٹی فورسز کی محبت میں گرفتارہوں،انہیں سراہنا
راقم سمیت ہر شہری کافرض اوراس پرقرض ہے۔ آج بھی راقم کی رگ رگ میں نظریہ
پاکستان خون بن کردوڑتااورکھولتا ہے کیونکہ ہمارے باپ دادا قیام پاکستان کے
وقت ہجرت کے دوران آگ اورخون کے دریا ؤں سے گزرے تھے۔پاکستان ایک نظریاتی
ریاست ہے لہٰذاء اس کی بقاء کیلئے نظریاتی سیاست اورنظریاتی صحافت کوفروغ
دیاجائے ،یادرکھیں مالیاتی سیاست اورمالیاتی صحافت ہماری نظریاتی ریاست
کیلئے زہرقاتل ہے ۔راقم کا قلم اور کالم ہماری ریاست اورہمارے ریاستی
اداروں کاوہ علم ہے جوان شاء اﷲ ہمیشہ لہراتا رہے گا۔راقم کی تحریروں کے
چند عنوان پیش خدمت ہیں، "ہماری موج ہماری فوج ہے "،" قمر نے کمر کس لی"،"
قمر نے کمرتوڑ دی" اور "جہاں ڈینجر وہاں رینجر" ۔ میں مادروطن کے ایک
جانثار کی حیثیت سے ارباب اقتدار کی خدمت میں عرض کرتا ہوں، "نفرت کے
ہنٹروں سے نفرت کوشکست نہیں دی جاسکتی۔تشدد کی شدت سے تشدد اورتعصب کونہیں
ہرایاجاسکتا۔ جس طرح مظاہرین کی انتہاپسندی ناقابل قبول اورناقابل برداشت
ہے ،اس طرح حالیہ احتجاجی مظاہروں میں شریک خواتین کے ساتھ مرداہلکاروں کی
بدسلوکی بھی ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ جوعزت چاہتا ہے وہ دوسروں کوعزت دے
،اسے مایوسی نہیں ہوگی۔سیاسی اسیران عادی مجرم نہیں ہیں لہٰذاء انہیں ایک
چانس دیاجائے، طلبہ وطالبات اورنوجوان ہمارا بیش قیمت اثاثہ اور ہمارے
مستقبل کے معمار ہیں انہیں دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونیوالے مقدمات
میں نامزدنہ کیاجائے ورنہ ان کامستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ماں جیسی ریاست
سیاسی اسیران کے ساتھ رحمدلی اورخاطرخواہ نرمی سے پیش آئے کیونکہ وہ وقتی
اشتعال کے نتیجہ میں پرتشدد سرگرمیوں کاحصہ بنے ہیں۔ جس طرح ماضی میں تحریک
نجات کے دوران درج ہونیوالے مقدمات کو خارج کردیاگیا تھااس طرح گرفتار طلبہ
وطالبات ،خواتین اورنوجوانوں کوبھی ریاست ایک بار معاف جبکہ ان کیخلاف درج
مقدمات خارج کردے۔معاشرے سے عدم برداشت کاصفایاکرنے کیلئے ریاستی ادارے بھی
قوت برداشت کامظاہرہ کریں۔ معاشرت اورسیاست کو عدم برداشت سے پاک کرنے
کیلئے ریاستی سطح پر وسعت قلبی سے کام لیاجائے۔ علماء،دانشور،صحافی
اوراساتذہ معاشرے کوعدم برداشت کے مضمرات سے آگاہ کرنے کیلئے اپنااپنا
کلیدی کرداراداکریں۔ انسانوں کی اجتماعی فلاح اوراصلاح کیلئے ریاست
اورسیاست دونوں ناگزیر ہیں تاہم ہماری قومی سیاست ایک متفقہ ضابطہ اخلاق کی
متقاضی ہے۔ عوام سیاست نہیں ریاست کومقدم رکھیں اورمعاشرے کا ہرفرد اورطبقہ
اتحادویکجہتی کے ساتھ اس کی تعمیروترقی کیلئے اپنا اپنا کرداراداکرے۔
منتقم مزاج حکومت کوبتاتاچلوں ریاستی طاقت سے دشمن کو ڈرایا اور ہرایا
جاسکتا ہے ،جواپنے ہوں اور کوئی غلطی یازیادتی بھی کربیٹھیں توان کے ساتھ
بات چیت کادروازہ کسی صورت بندنہیں کیاجاتا۔جس کوآگے بڑھنا ہووہ بار بار
پیچھے مڑ کرنہیں دیکھتا۔ہم اپنوں کوان کی غلطیوں سمیت قبول کرتے ہیں،جس
معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کی غلطیاں اورزیادتیاں معاف نہیں کرتے وہاں نفرت
کی اونچی فصلیں کئی فصلیں اور نسلیں نگل جاتی ہیں۔اگربلوچستان کے پہاڑوں سے
مسلح افراد کونیچے اتارا اورانہیں سینے سے لگایاجاسکتا ہے توان نہتے سیاسی
کارکنان کے ساتھ نرمی کیوں نہیں ہوسکتی ۔اگرمسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے
والے مودی کوبار بار مذاکرات کی دعوت دی جاسکتی ہے توکپتان کے ساتھ ڈائیلاگ
کااہتمام کیوں نہیں کیاجاسکتا ۔ ہم بھی زندگی بھر غلطیاں کرتے ہیں لہٰذاء
اگر ہمارا کوئی اپنا جانے انجانے میں کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس سے تعلق
توڑااورمنہ نہیں موڑا جاتا کیونکہ ہم خوشی غمی میں اپنوں کو سینوں سے لگاتے
ہیں۔ ماں جیسی ریاست اپنے مشتعل اور مضطرب بچوں کی غلطی کو درگزر کرے
کیونکہ انہوں نے بھی ماضی میں ریاست اوراپنے ریاستی اداروں کی کئی بڑی
غلطیاں معاف کی ہیں۔جس ملک میں محمدعلی جناحؒ کو دوران علالت زیارت تک
محدود کردیا گیاتھا، جس جناحؒ کو شہرقائد میں واپسی پر ایمبولینس نہیں ملی
تھی، جس جناحؒ کی ہمشیر اور مشیر فاطمہ جناحؒ کودھونس دھاندلی سے ہرایا
گیا، ان کیخلاف انتہائی گھٹیا سیاسی مہم کا مجرمانہ ارتکاب کیا گیا، جس شہر
قائد میں جناحؒ کے رشتہ دار دربدر خوار ہوتے رہے وہاں ہم جناح ہاؤس پر حملے
کوکیوں اچھال رہے ہیں۔صرف ایک جناح ہاؤس نہیں ہمارے آس پاس ہروہ گھر جناح
ہاؤس ہے جہاں قائداعظم محمدعلی جناحؒ سے محبت کرنیوالے مقیم ہیں۔ایک طرف
مقروض ملک کے حکمران مبینہ ملزمان کی نشاندہی کیلئے کروڑوں روپے کے
اشتہارات دے رہے ہیں، یہ کس قسم کی گورننس ہے دوسری طرف پی ٹی آئی کو شجر
ممنوعہ بناکرپیش کیاجارہا ہے۔ فوجی آمر اپنے اپنے دور میں سیاسی پارٹیوں کو
نابود کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکامی اور بدنامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں
آیا۔ماضی میں بھی فوجی آمر سیاسی پارٹیوں میں نقب لگا تے رہے ہیں ،منتخب
ارکان کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا لیکن پارٹیاں
ختم نہ ہوئیں کیونکہ یہ اختیار صرف ووٹر کے پاس ہے لہٰذاء پی ٹی آئی کو
زندہ زمین میں گاڑنے کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
نگران حکمرانوں کی حیثیت گیسٹ ایکٹر جیسی ہوتی ہے کیونکہ یہ ناتجربہ
کارہوتے ہیں بدقسمتی سے پنجاب اورخیبرپختونخوا میں ہونیوالے حالیہ فسادات
کے نتیجہ میں نگرانوں اورنامہربانوں کی بدنیتی اوربدانتظامی کا بھانڈا پھوٹ
گیاہے ۔ نگران حکمران تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کے انعقاد کے بعد رخصت
ہو جایاکرتے ہیں، ان کا سیاسی تنازعات میں الجھنا اورہرچندروز بعد صوبائی
محکموں میں اکھاڑ پچھاڑ کرنا نہیں بنتا۔ اس بار پنجاب اور خیبرپختونخوا کے
ناتجربہ کار نگران حکمرانوں کو حلف اٹھانے سے قبل معلوم تھا کہ ان کی آئینی
مدت تین ماہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہوگی اور انہیں اس بات کا بھی علم تھا
کہ انہوں نے انتخابات کا راستہ ہموار نہیں بلکہ مسدود جبکہ پی ٹی آئی
کوسیاسی طورپرمحدود کرنا ہے۔ پنجاب میں نگران حکومت نے اپنی محدود اننگز کا
آغاز صوبہ بھر میں ٹرانسفر پوسٹنگ سے کیا، ان کے اقدامات پر سوال اٹھائے
جاتے رہے لیکن انہوں نے تنقید کی ہرگز پرواہ نہیں کی کیونکہ انہیں مقتدر
قوتوں کا آشیرباد حاصل ہے اور وہ ایک مخصوص جماعت کیلئے آسانیاں پیداکر رہے
ہیں۔ ماضی شاہد ہے نگران حکمران کسی جماعت کے حامیوں کو سیاسی انتقام کا
نشانہ نہیں بناتے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں ۔ پچھلے دنوں پنجاب کے نگران
وزیراعلیٰ ،آئی جی پی اورسی سی پی او لاہوراچانک ایک ساتھ عمرہ کی سعادت
کیلئے سعودیہ چلے گئے جبکہ انہوں نے جاتے جاتے لاہور کے سابق پروفیشنل
اورانتھک ڈی آئی جی آپریشنز افضال احمدکوثر کو چوہدری پرویزالٰہی کی
گرفتاری کاٹاسک دے دیا تاہم دوران آپریشن وہاں کسی اہلکار سے انجانے میں
ہونیوالی غلطی کی پاداش میں انہیں تبدیل کردیا گیا ۔افضال احمدکوثر
شہرلاہورمیں پولیس فورس کومنظم اوراہلکاروں کامورال بلند کررہے تھے
،لاہورپولیس کی سطح پران کی دوررس اصلاحات کے ثمرات کا ہر کوئی شاہد
ہے۔افضال احمدکوثر کو پیشہ ورانہ مہارت ،کمٹمنٹ اوربہترین خدمات کے
باوجودناحق ہٹایاگیا ۔حکومت کے اس انتقامی اقدام سے لاہورپولیس کامورال بری
طرح متاثر ہوا جبکہ شہرلاہورکو اس کانتیجہ سانحہ 9مئی کی صورت میں بھگتنا
پڑا۔لاہورپولیس کی حالیہ بدترین ناکامی اوربدنامی یقینا کمانڈ کی قائدانہ
صلاحیت اورقابلیت پربڑا سوالیہ نشان ہے ۔مجھے تعجب ہے افضال احمدکوثر کوان
کے ماتحت اہلکار کی غلطی کاخمیازہ بھگتنا پڑا لیکن 9مئی کولاہورسمیت پنجاب
بھر میں جس طرح ریاستی رِٹ کی واٹ لگائی گئی اس نااہلی،ناکامی اوربدانتظامی
پرنگران وزیراعلیٰ سمیت کوئی وزیرتک مستعفی نہیں ہوا ۔میں سمجھتا ہوں جو
حکمران اپنی غلطی پراپنااحتساب نہ کرے وہ اچھا منصف اور محتسب نہیں ہوسکتا۔
|