وہ مٹی جس پر ہم جنم لیتے ہیں ہمارے آباؤ اجداد کے خون کی
خوشبو سمیٹے ہوئے ہوتی ہے ۔اس سے ہماری محبت اور وابستگی ہر شک و شبہ سے
بالا تر ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی دھرتی کی حفاظت کی خاطر وطن کے جری
جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ،دشمن کے دانت کھٹے کئے اور اس کے
ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اقوامِ عالم کے سامنے اپنی جوانمردی اور بہادری کی
ایسی دلکش داستان رقم کی جس پر اقوامِ عالم بھی فخر محسوس کرتی ہیں۔جی داری
جہاں بھی ہوتی ہے باعثِ تکریم ہوتی ہے ۔اس کیلئے کسی مذہب اور عقیدہ کی قید
نہیں ہوتی بلکہ بہادری توہر فرد اور ہر قوم سے اپنی جراتوں کا خراج وصول
کرتی ہے۔ اپنی مٹی کی حرمت کی خاطر میں خود کسی بھی حد تک جانے کیلئے
تیارہوں کیونکہ اسی سے میرا وجود ہے۔میری دھرتی ہے تو میں ہوں اور اگر یہ
دھرتی نہیں ہے تو میں بھی نہیں ہوں۔میری تکمیل اپنی مٹی سے جڑے رہنے سے
ہے۔سچ تو یہ ہے کہ میری ساری یادیں میری ساری خوشیاں اور میرے سارے جذبے
اسی مٹی میں رچے بسے ہیں ۔ اگر میرے وجود نے اسی مٹی سے نمو پائی ہے تو اس
مٹی کی حفاظت میرے وجدان کا حصہ ہے ۔ اگر میرے ازلی دشمن نے کبھی میری
دھرتی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات کی تو میں اس کی آنکھیں نکال لوں
گا کیونکہ یہ دھرتی میری عزت میری غیرت اور میرے ایمان کا اظہاریہ ہے ۔
دھرتی بے زبان شہ کا نام نہیں ہوتی بلکہ اس میں ہمارے آباؤ اجد اد کی روحیں
ہم سے ہمکلام ہو تی ہیں اور ہمیں جینے کا انداز سکھاتی ہیں۔ہم اپنے آباؤ
اجداد سے اپنے اپنے رنگ میں ہمکلام ہوتے ہیں اور ان کے ادرشوں اور تربیت سے
جینے کے ڈھنگ سیکھتے ہیں ۔ پاکستان پر بڑے کڑھے وقت آئے لیکن اس وقت قوم جس
آزمائش سے گزر رہی ہے یہ اپنی نوعیت میں بالکل منفرد ہے۔۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو
ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کا مشر قی بازو کاٹا تو اس وقت پوری قوم آنسوؤں
میں ڈوبی ہوئی تھی۔یاسیت اور پژمردگی نے قوم کو اپنے حصار میں لے رکھا
تھا۔مایوسی کی اتھا گہرائیوں میں اس قوم کو ایک مردِ دانا کی آواز کے طلسم
نے مایوسیوں کے اندھیروں سے نکالااور اس کیلئے نئی منزل کی نشاندہی کی تو
قوم اس کی آواز پر یقین کرتے ہوئے اس کی ہمرکاب ہو گئی۔اس نے ایٹمی توانائی
کا خواب دکھایا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح علامہ اقبال نے ایک علیحدہ وطن کا
خواب دکھایا تھا۔دونوں میں گہری مماثلت ہے۔علامہ اقبال نے جب یہ خواب دیکھا
اس وقت انگریز ی راج کا پرچم پوری آب و تاب سے ساری دنیا پر سایہ فگن
تھا۔یہ بات کسی بھی انسان کے حیطہِ ادراک سے ماوراتھی کہ مسلمان مستقبل
قریب میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیا ب و کامران ہو جائیں
گے ۔عام انسان کی بات تو چھوڑیں بابائے قوم محمد علی جناح کو بھی اس بات کا
یقین نہیں تھا کہ حیات کا رازدان جو بات کہہ رہا ہے وہ جلد ہی سچ ثابت ہو
کر اپنی حقانیت کا لوہا منوا لے گی؟حیران کن امر یہ ہے کہ جب بابائے قوم کو
اپنے فلسفی دوست کی کہی ہوئی بات کا ا دراک ہواتو اس وقت فلسفی دوست دنیا
سے رخصت ہو چکا تھا۔دوست اپنا فریضہ یوں ہی نبھایا کرتے ہیں۔وہ اپنی فکر کی
شمع اپنے دوست کے ہاتھ میں تھما کر خود رختِ سفر باندھ لیتے ہیں ۔دوست کی
اما نت و دیانت کا ایمان اپنی جگہ ا تنا قوی ہوتا ہے کہ جانے والے کو اس
بات کا اندیشہ اور ملال نہیں ہوتا کہ وہ اپنی فکری میراث کو حقیقت کا جامہ
پہنے دیکھے بغیر دنیا کو چھوڑ رہا ہوا ہے۔علامہ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی
ہوا تھا ۔اس کا سب سے قریبی دوست اس کے خواب کی حقیقت جاننے سے معذور تھا
لیکن اس کے باوجود علامہ اقبال اپنے دوست کو آوازیں دے کر بلاتے رہے لیکن
وہ پھر بھی اس کی فکری گہرائی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ٹحََِٓ
دوست متحدہ ہندوستان کے رومانس میں اتنا مستغرق تھا کہ علامہ اقبال کو اسے
علیحدہ اسلامی ریاست کے تصور کا قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔تاریخ کا
جبر دیکھئے کہ عقل و دانش اور امانت دیانت کے دو پیکر دو مخالف سمتوں میں
محوِ سفر تھے لیکن اس کے باوجود باہمی احترام میں کسی شہ کو مانع نہیں ہونے
دیتے تھے ۔وہ باہمی مشورہ پر یقین رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی رائے کو وزن
دینے میں عار نہیں سمجھتے تھے ۔ اپنے وقت کے دو عظیم انسان ایک ہی کشتی میں
سوار تھے لیکن ان کی منزل علیحدہ علیحدہ تھی۔زمانے کے تھپیڑوں نے وقت کے
دھارے کا رخ واضح کیا تو فلسفی دوست کاخوا ب ایک حقیقت بن کر بابائے قوم کی
نگا ہوں میں سما گیا ۔ فلسفی دوست کے عطا کردہ نظریہ کی گہرائی اور چمک نے
بابائے قوم کی نگاہوں کو ایسا روشن کیا کہ یہی خواب ان کی زندگی کا مقصد
قرار پایا اور اس کیلئے انھوں نے اپنے شب و روز وقف کر دئے۔ذولفقار علی
بھٹو بھی ایک ایسا ہی دیدہ ور تھا جو بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا
تھا۔قوم پرست لیڈر کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ قوم کی خاطر کسی شہ کو مانع
نہیں ہونے دیتا۔وہ عالمی دباؤ کو اپنی قوم کے مفاد کے درمیان حائل نہیں
ہونے دیتا۔اس کیلئے مال و دولت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ زندگی
کی خاطر نظریات کا سودا کرتا ہے ۔نظریہ قوم پرست لیڈر کی اصل متاع ہوتی ہے
اس لئے وہ اس کی خا طر سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے کیونکہ جان جانے کے باوجود
نظریہ زندہ رہتا ہے۔مصائب آتے ہیں،ابتلائیں راستہ روکتی ہیں ، مشکلات سدِ
راہ بننے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔وہ جس شہ پر
نگاہیں ٹکا لیتا ہے اس کی خاطر سب کچھ قربان کر دیتا ہے ۔ دشمن اس کی
مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں لیکن اپنے نظریہ کی قوت اسے تنِ تنہا سب سے
نپٹ لینے کی توانائی عطا کر دیتی ہے۔وہ ہر دباؤ کو جھٹک کر آگے بڑھتا جاتا
ہے۔وہ ایک ایسے صحرا میں محوِ سفر ہو جاتا ہے جس میں تکالیف اور مصائب منہ
کھولے اسے مٹانے کیلئے بے تاب ہو تے ہیں لیکن وہ کسی کو پرِ کاہ سے زیادہ
اہمیت نہیں دیتا بلکہ تنِ تنہا سب سے نپٹ لیتا ہے کیونکہ نظریہ کی قوت اس
کے جسم کو آتش فشاں بنادیتی ہے۔تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تپتی ریت پر
دشمنو ں کی سختیاں اور ظلم و جبر سہنے وانے انسان نے ہی ایک دنِ موذنِ رسول
کا اعزاز پایا تھا کیونکہ اس کا عشق اس کی بقا کا ضا من تھا۔عشق نہ ہوتا تو
بلال نہ ہوتا، اس کا احترام نہ ہوتا اور افقِ عالم پر اس کا نور نہ ہوتا ۔
(نماز ازل سے تیری دید کا بہانہ بنی۔اذان ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی۔)
۔، ۔
چشمِ تصور سے دیکھیں ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱کہ قوم شکست خوردہ ہے اس کا ایک بازو کٹ
گیا ہے،خزانہ خالی ہے،۶۰۰۰ ہزار مربع میل کا علاقہ دشمن کے قبضہ میں ہے،۹۳۰۰۰
فوجی دشمن کی قید میں ہیں لیکن وہ مردِ دانا ایٹمی توانائی کاخو اب پال
لیتا ہے۔وہ ایٹمی توانائی کے حصول کی خاطر گھاس کھانے کا عزم ظاہر کرتاہے
تا کہ اس پاک مٹی پر دشمن کے ناپاک قدم نہ پڑ سکیں۔راہِ وفا میں اس مردِ
دانا کی جان چلی جاتی ہے لیکن ایک دن اس کا خواب حقیقت کا روپ دھارن کر
لیتا ہے اورپاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن کر اپنی عظمت کی شمع روشن
کر لیتا ہے۔وہ شخص تو کب کا اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے لیکن اس ایٹمی
توانائی کے ساتھ اس کا نام یوں جڑاہو اہے جیسے جسم کے ساتھ روح۔ہم اس کی
بلائیں لیتے ہیں، اس کے تاریخی کارنامے پر اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں
اوروہ ہمارے اذہا ن کو اپنی قربانی سے جگمگ جگمگ کردیتا ہے ۔ حد تو یہ ہے
کہ اس کے ازلی دشمن بھی اب اس کا نام احترام سے لیتے ہیں کیونکہ اس کا یہ
محیر العقول کارنامہ اس مٹی کی حفاطت اور بقا کی خاطر تھا جس پر میں زندہ
ہوں ۔ وہ مٹی اسے آج پھر پکار رہی ہے کیونکہ قوم ایک دفعہ پھر کڑھی آزماش
سے گزر رہی ہے۔لیکن وہ تو لوٹ کر آنے والا نہیں ہے ۔ جانے والے لوٹ کر نہیں
آتے لیکن ان کے خیالات آنے والوں کیلئے مشعلِ راہ ہوتے ہیں۔کیا ہم قائدِ
اعظم، قائدِ عوام اور علامہ اقبال کے نظریات کی روشنی کی قوت سے آزمائش کی
اس گھڑی سے نجات پا سکتے ہیں ؟؟؟
|