کچھ عرصہ سے پے در پےمنظر عام پر آنی والی آڈیو لیکس نے
پاکستانی سیاسی، سماجی ،عدالتی حلقوں میں بھونچال پیدا کردیا ۔ آڈیو لیکس
سے ملنے والے مواد نے بہت سی اعلی سیاسی و عدالتی شخصیات کے کردار پر
سوالیہ نشانات چھوڑ دئیے ہیں۔ کچھ حلقے ان آڈیو لیکس کو حقیقت پر مبنی
تصور کرتے رہے تو کچھ حلقے ان آڈیوز کی صداقت پر سوالیہ نشان اُٹھاتے رہے۔
بالآخر وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے اعلی سطحی
عدالتی کمیشن تعیناتی کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ہے۔ عدالتی کمیشن کی سربراہی
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسی کریں گے جبکہ عدالتی کمیشن کے
دیگر ممبران میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور بلوچستان
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل، وفاقی اور
صوبائی انتظامیہ کمیشن کی معاونت کریں گی۔ عدالتی کمیشن کو تحقیقات کے لیے
30 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ تاہم کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہوا
تو وفاقی حکومت توسیع کر سکتی ہے ۔کمیشن کو یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ ایسے
افراد کے خلاف مجرمانہ اور انضباطی کارروائی کی بھی تجویز دے جن کی مبینہ
آڈیو لیکس سچی ثابت ہوتی ہیں۔ کمیشن کو کہا گیا ہے کہ اگر یہ پتا چلے کہ
آڈیو لیکس محض جعلسازی تھی تو ذمہ دار افراد کا پتا چلا کر انھیں قرار
واقعی سزا دی جائے۔اس کمیشن کے ٹی او آرز میں ان آڈیو لیکس کی نشان دہی
بھی کی گئی ہے جن کی تحقیقات اس کمیشن کو کرنا ہیں۔ان میں سابق وزیراعلیٰ
پنجاب اور حاضر سروس جج سپریم کورٹ کی آڈیو لیک ،سابق وزیر اعلیٰ پنجاب
اور وکیل کی سپریم کورٹ کے مخصوص بینچ کے سامنے مقدمہ مقرر کرنے کی آڈیو
لیک،سابق چیف جسٹس اور ایک وکیل کی مبینہ آڈیو لیک،کمیشن پی ٹی آئی
چیئرمین کی اپنے پارٹی رہنما سے سپریم کورٹ میں تعلقات سے متعلق مبینہ
آڈیو، چیف جسٹس کی ساس اورایک وکیل کی اہلیہ کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت
مقدمات سے متعلق مبینہ آڈیو اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے اور دوست کے درمیان
ہونے والی بات چیت کی بھی تحقیقات کرے گا۔اسکے علاوہ کمیشن اس بات کی
انکوائی بھی کرے گا کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی جانب سے
عدالتی کاروائیوں میں اثر انداز ہونے کی میڈیا پر جاری خبروں میں کہاں تک
صداقت ہے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے
ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ادارے کی ساکھ کو آڈیو لیکس نے متاثر کیا ہے
اور کمیشن قائم کرنا حکومت کا اختیار ہے۔انہوں نے مزید کہا کیونکہ چیف جسٹس
سے متعلق بھی مبینہ آڈیو لیکس سامنے آئیں ہیںاوریہ معاملہ چیف جسٹس کی
ذات کے گرد گھوم رہا ہے اس لیے ان سے مشاورت نہیں کی گئی اسی لیے سپریم
کورٹ کے سینئرترین جسٹس قاضی فائز عیسی کو یہ سربراہی سونپی گئی ہے۔ دوسری
طرف سابق وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کئے گئے
عدالتی کمیشن پر اپنے ٹویٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے
آڈیو لیکس کے معاملے پر 2017 کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے سیکشن 3 کے
تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے ترتیب دیے
گئے ٹرمز آف ریفرنس میں ایک سوچا سمجھا نقص/خلاء موجود ہے یا جان بوجھ کر
چھوڑا گیا ہے۔ یہ (ٹی او آرز) اس پہلو کا ہرگز احاطہ نہیں کرتے کہ
وزیراعظم کے دفتر اور سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کی غیرقانونی و
غیرآئینی نگرانی کے پیچھے کون ہے؟ کمیشن کو اس تحقیق کا اختیار دیا جائے
کہ عوام اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو کی
ٹیپنگ اور ریکارڈنگ میں کون سے طاقتور اور نامعلوم عناصر ملوث ہیں۔ یہ
آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت پرائیویسی کے حق کی سنگین خلاف ورزی کے۔ فون
ٹیپنگ کے ذریعے (عوام اور اعلیٰ شخصیات کی) نگرانی اور ان کے مابین کی جانے
والی بات چیت تک غیرقانونی رسائی حاصل کرنے والوں کا ہی محاسبہ نہ کیا جائے
بلکہ اس ڈیٹا کو کانٹ چھانٹ کر اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ مروڑ کر سوشل
میڈیا کو جاری کرنے والوں سے بھی باز پرُس کی جائے۔ جب بھی ریاست یوں
غیرقانونی طور پر فرد پر پہرے بٹھاتی/اس کی نگرانی کرتی ہے تو آرٹیکل 14
کے تحت اسے میسّر پرائیویسی اور شخصی وقار کے حق پر زد پڑتی ہے۔ حال ہی میں
خفیہ طور پر جاری (Leak) کی جانے والی بعض کالز ایسی تھیں جو اصولاً
وزیراعظم کے دفتر کی محفوظ ٹیلی فون لائن پر کی جانے والی گفتگو کے زمرے
میں آتی تھی۔ اس کے باوجود انہیں غیرقانونی پر ٹیپ اور کانٹ چھانٹ/رد و
بدل کرکے جاری کیا گیا۔ اس ٹیپنگ میں کارفرما یہ دیدہ دلیر عناصر بظاہر
وزیراعظم کی دسترس سے باہر دکھائی دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں
ان کا علم تک نہیں۔ یہ کردار ہیں کون جو قانون سے بالاتر ہیں، ملک کے
وزیراعظم کے بھی ماتحت نہیں اور پوری ڈھٹائی سے (شہریوں، اعلیٰ شخصیات کی)
خلافِ قانون نگرانی کرتے ہیں۔ کمیشن کی جانب سے ان عناصر کی نشاندہی ناگزیر
ہے۔عمران خان کی جانب سےعدالتی کمیشن تعیناتی پر شدید ردعمل نے چور کی
داڑھی میں تنکا والی مثال کو پھر زندہ کردیا ہے ۔ حالانکہ موصوف بطور
وزیراعظم فون ٹیپ عمل اورفون ٹیپ کرنے والوں کے فضائل بیان کیا کرتے
تھے۔اور بطور وزیراعظم فون ٹیپ کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے
تھے۔اوریہ عمرانی فضائل اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس بات کو عمران
خان صاحب کی کرامت کہا جا سکتا ہے کہ موصوف نے مستقبل میں پوچھے جانے والے
سوالات کے جوابات ماضی میں ایڈوانس ہی دے دیئے ہوتے ہیں۔ اور عمران خان
صاحب کی طرف سے کمیشن کے TORs پر اعتراضات نے عدالتی کمیشن کاروائی شروع
ہونے سے پہلے ہی ثابت کردیا کہ گویا تمام تر آڈیو لیکس حقیقت پر مبنی
ہیں۔اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس عدالتی کمیشن کو مکمل اور آزادانہ
تحقیقات کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ وگرنہ معروضی حالات تو یہی بتاتے ہیں
کہ کہیں چیف جسٹس سوموٹو لیکر کمیشن کا خاتمہ نہ کروادیں یاکسی دباو کی
صورت میں عدالتی کمیشن ٹوٹ نہ جائے۔ |