پاکستان کی سیاسی تاریخ جس طرح کے نشیب و فراز کا مرقع بن
چکی ہے اِس سے یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ جس میں
ملٹری و سول اسٹیبلشمنٹ ، سیاست دان وغیرہ شامل ہیں کی کارکردگی اِس لحاظ
سے قابل سائش نہیں ہے لیکن اِس کامطلب یہ نہ ہے کہ پاکستان کی فوج کے خلاف
مہم چلائی جائے ۔ پاک فوج کے خلاف محاذ آرائی کسی طور پر بھی قابل قبول نہ
ہے پاکستان کے سیاسی سماجی معاشی حالات کا گراف پون صدی سے زوال پذیر ہی
ہے۔ ادارئے تباہ برباد کر دیئے گئے ہیں سول و ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ
ماسوائے کچھ کو چھوڑ کر ملک سے دولت اکھٹی کرکے بلکہ لُوٹ کر امریکہ یورپ
کے پاسپورٹ لیے ہوئی ہے یہ ہی حال ہمارئے سیاستدانوں کا ہے۔ جب وطن سے محبت
کی بجائے انا پرستی عروج پر پہنچ جائے تو پھر عوام الناس کا جو حشر ہونا
تھا وہ ہو چکا ہے۔ افراط زر کے عفریت نے قوم کو نڈھال کرکھا ہے۔ ایسا لگتا
ہے کہ گورنس ہے ہی نہیں۔جس طرح سے عوام مہنگائی چکی میں پس رہے ہیں اس سے
یہ بات عیاں ہے کہ حکمران اشرافیہ نے ماضی سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھا۔اِس
میں کوئی شک نہیں کہ پوری دُنیا بدترین کساد بازاری کی زد میں ہے امریکہ
یورپ میں بہت سی کمپنیوں اور بینکوں نے لاکھوں ملازمین کو نوکری سے برخاست
کردیا ہے۔ لیکن پاکستان ایک زرعی ملک ہے کم ازکم عوام کو روٹی کھانے کے لیے
آٹا تو میسر ہونا چاہیے ۔ جس طرح سے عوام کو رمضان المبارک کے مہینے میں
قطاروں میں لگا کر آٹا فراہم کیا گیا ، عورتیں اور بزرگ جس طرح کبھی پاؤں
تلے کچلے گئے اور کبھی انہیں دل کا جان لیوا دورہ لے بیٹھا یہ گورنس کی
بدتریں مشال ہے کہ کس طرح غریب عوام کی عزت نفس مجروح کی گئی۔ انصاف کے
ایوانوں میں انصاف کہاں ہے؟تھانہ کلچر جب تک تبدیل نہیں ہوگا اُس وقت تک
جرائم میں کمی نہیں ہو سکتی۔پولیس بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو بے
گناہ بنا دیتی ہے ۔ امیر کے لیے کوئی قانون نہیں وہ پولیس کو رشوت دئے کر
تفتیش میں بے گناہ لکھوا لیتا ہے اور غریب بے گناہ ہونے کے باوجود سزا وار
ہوتا ہے۔ جب غریب کو جرم نہ کرکے بھی سزا ملنی ہے تو وہ پھر جُرم کرکے سزا
قبول کر لیتا ہے یا پھر غریب بھی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو کر روپیہ پیسہ بنا
کر خود بھی پولیس کو خرید لیتا ہے دونوں صورتوں میں برباد نظام ہو رہا ہے
سکون معاشرئے کا چھن رہا ہے حکمران اونچی فصیلوں والے محلوں میں خوابِ
خرگوش کے مزئے لے رہے ہیں اور غریب عوام چوروں ، ڈاکوؤں،لٹیروں، قبضہ مافیا
کے ہاتھوں یرغمال ہے۔
گراں فروشی کے خلاف مجسٹریٹی نظام کو فعال کردیں تو یقین کریں سبزیوں
دالوں، گوشت دیگر روزمرہ کی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اتنی کمی واقع
ہوسکتی ہے کہ عوام سُکھ کا سانس لے لیں۔ مجسٹریٹوں کی جانب سے چھاپے مارنے
کا عمل ایک مستقل عمل ہونا چاہیے اور گراں فروشوں کو قرار واقعی سزا ملنی
چاہیے۔ غریب مجبور ،محکوم عوام کی دعائیں آپ کو اِس ایکشن کی وجہ سے ملیں
گئی۔ہماری عدلیہ کی صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ عوام کے نزدیک اِس کی
کسی قسم کی کوئی بھی کریڈ بیلٹی نہ ہے ۔
آڈیو لیکس تحقیقات کے لیے حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی
کمیشن تشکیل دیدیا۔کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے، جب کہ
بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کمیشن کے ممبرہوں گے۔اس کے علاوہ اسلام آباد
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بھی کمیشن کے ممبرہوں گے۔ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو
لیک کی تحقیقات کیلئے خصوصی کمیٹی قائم۔چیف جسٹس کی ساس کی مبینہ آڈیو
منظرعام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر میمزکا طوفان ہے
کابینہ ڈویژن نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا
ہے۔کمیشن جوڈیشری کے حوالے سے لیک ہونے والی آڈیوز پر تحقیقات کریگا، یہ
آڈیو لیکس درست ہیں یا من گھرٹ کمیشن تحقیقات کریگا۔کمیشن اپنی رپورٹ 30 دن
کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کرے گا، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی
آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک کی بھی
تحقیقات ہوگی، کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے داماد
کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی تحقیقات
کریگا،کمیشن چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات
کرے گا۔
وطن عزیر کو اِس حکمران اشرافیہ نے جس طرح ادھ موا کردیا ہے ضرورت اِس امر
کی ہے کہ عوام الناس وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر رکنے کے لیے اپنے طور پر
جو کرسکتے کریں۔
جہاں تک بات ہے آدیو لیکس کمیشن کی تو اِس ھوالے سے عرض ہے کہ جس تس قاضی
فائز عیسیٰ جیسی محترم ترین شخصیت کا نام اِس کی سربراہی کے طور پر جو
سامنے آیا ہے یقینی طور پر فائز یسی احب جو تحقیقات کریں گے اُس کی روشنی
میں پھر ذمہ داراں سزا بھی دی جائے گی یہ نہ ہو کہ جس طرھ کے کمیشن ماضی
مین بنتے رہے ہیں اِسی کمیشن کا بھی وہی حال ہو کہ کمیشن تو بن گیا لیکن
اِس کی فائنڈنگز پر عمل نہ ہو۔کیا اِس کمیشن کو واقعی کھل کر کام کرنے کا
موقع دیا جائے گا۔ پاکستانی عدالتوں میں انصاف کی جو صورتحال ہے وہ بیان
نہین کی جاسکتی ہے۔ اﷲ پاک پاکستان پر اپنا رحم و کرم فرمائے۔
|