یوپی ایس سی میں مزدور کے بیٹے محمد حسین کی کامیابی مسلمانوں کیلئے" طمانچہ"

یوپی ایس سی میں ملک ۳۰،خوش قسمت مسلمان مختلف رینک حاصل کرسکیں ہیں ،جموں کشمیر کے نوجوان بھٹ نے بھی میرٹ میں آکر میدان میں مار لیاہے،ممبئی میں مقابلہ جاتی(یوپی ایس سی) امتحانات میں چار امیدوارں نے کامیابی حاصل کی ہے،ہر کسی نے سرخیاں بٹوریں ہیں، متعدد امیدواروں نے قابل ستائش اورکچھ نہ کچھ بہترکرنے کی کوشش اوربہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے،لیکن یوپی ایس سی میں امسال ممبئی کے مسلم محمد حسین سید کی کامیابی ایک قابل ستائش اورلائق تحسین ہے بلکہ میں بلاجھجک کہوں گاکہ یہ مسلمانوں کیلئے طمانچہ ہے،خصوصاً جنوبی ممبئی میں ڈونگری اور بھنڈی بازار کے مسلمانوں کے گال پر زناٹے طمانچہ ہے۔کیونکہ محمدحسین سیّد ان متمول،اعلی متوسط اور متوسط علاقوں سے متصل ایک جھوپڑابستی میں مقیم نوجوان ہے ،جس نے ہمت نہیں ہاری اور اتفاق سے بندرگاہ میں نقل وحمل کے شعبہ میں مزدوری کرتے ہیں اور ۲۷سالہ با ہمت حسین کو چو تھی مرتبہ میں یہ شاندار کامیابی نصیب ہوئی ہے۔اس نے واڑہ بند کے قریبی سیتا رام گارڈن اورفورٹ کی ایشیاٹک سوسائٹی کی سینٹرل لائبریری کی بلند عمارت کی کھلی سیڑھیوں پر بیٹھ کر مطالوہ کیا ،جہاں امتحانات کے دوران سینکڑوں بچے رات میں بیٹھ کر اسٹڈی کرتے ہیں۔

ڈونگری اور بھنڈی بازار کی امیج کو ایک حد تک محمدحسین سیّد نے درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان علاقوں کو عام طورپر اور خصوصی طور پرپولیس،انتظامیہ اور صحافتی حلقوں میں غلط انداز میں پیش کرنے کی ایک روایت چلی آرہی ہے۔گزشتہ نصف صدی سے ان علاقوں کو انڈر ورلڈ کا گڑھ، غیر قانونی تعمیرات کا آمجگاہ،منشیات مافیا کی پناہی گاہ یعنی بدنام زمانہ علاقے کہتے ہیں ،اس میں سچائی کا فیصد زیادہ ہے۔محمد حسین نے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کرکے جنوبی ممبئی میں بھنڈی بازار اور ڈونگری کی منفی خاکہ کو مٹانے کی طرف پہل کی ہے۔اس جو آگے بڑھانے کی خاصی ضروت پیڈا کردی ہے۔انہوں نے مخصوص طور پر ان لوگوں بلکہ صحافتی حلقوں میں غلط انداز میں پیش کرنے والوں کے گال پرطمانچہ رسید کیا ہے،ہاں۔محمد حسین نے مسلم اکثریتی علاقے کو بدنام کرنے والوں کو منہ توڑ جواب ضرور دیاہے،لیکن یہ طمانچہ اتنا زوردار ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو بھی اس کی دھمک محسوس کریں گے اور ان کے اٹھائے ہوئے سامنے بھی سوالات کے جواب بھی تلاش کرکے درپیش مسائل کو حل کرنے کے منصوبہ سازی کریں گے۔

ڈونگری اور بھنڈی بازار میں حال میں بڑی تعداد میںفلک بوس عمارتوں نے اٹھایاجن۔میں ملت سے وابستہ ہزاروں خاندان عیش وآرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان بچے اردو ذریعہ تعلیم کو تیاگ چکے ہیں اور معیاری تعلیم کے لیے کنوینٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں ، اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لیے کوچنگ کلاسوں میں لاکھوں فیس ادا کررہے ہیں،لیکن اس کی وجہ سے اسکول اور ہائر سکنڈری کی حد تک امتیازی نمبرات حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں چلتا ہے،البتہ یہ کنوینٹ کے نوجوان بچے اور بچیاں دین سے دور نظرآتے ہیں ،حالانکہ جنوبی ممبئی کے اس مسلم اکثریتی علاقوں میں جوکہ ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے،گلی محلوں میں قدیم اور نصف صدی پرانی مساجد کے ساتھ ساتھ فلک بوس ٹاورز کے تہہ خانہ میں بنادی گئی ہیں۔ویسے ان عمارتوں میں سے زیادہ تر کے بارے میں بی ای سی اور پولیس کے ساتھ ہی میڈیا کا الزام ہے کہ غیر قانونی ہیں یا بلا اجازت زائد ایف آئی سی کا استعما کیا گیا ہے۔جس اسٹریٹ لائٹ کے نیچے یا میونسپل کارپوریشن کے گارڈن میں دوسرے بچوں کے ساتھ اسٹڈی کی جوکہ ممبئی کے کئی علاقوں کامعمول ہے۔ان۔مقامات پر غریب بچے پڑھائی کرتے ہیں ،کیونکہ یہ بچوں کی اکثریت دن میں مزدوری یا چھوٹا موٹا کام۔کرتی ہے،جیسے کورئیر بوائے ،ڈیلیوری بوائے ،ہوٹل میں ویٹر وغیرہ شامل ہے۔ان میں نائٹ اسکول کے بچے بھی ہوتے ہیں۔جوکہ بہتر کاکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ہمارے محلہ کے سوشل گروپس اردو نائٹ اسکول کے بچے کئی بار ممبئی اور ریاستی سطح پر میرٹ میں اول۔آئے ہیں۔

خیر ہم محمدحسین سیّد کی بات کر رہے تھے ، انہوں نے غریب بچوں کی اسٹڈی مراکز کی بات کہی ،جس کا ڈونگری ،بھنڈی بازار اور آس پاس کے علاقوں میں فقدان ہے۔ان علاقوں میں مطالعہ اور پڑھائی کے لیے ایک بھی ڈھنگ کی لائبریری یا اسٹڈی سینٹر بھی نہیں پایا جاتاہے۔البتہ سیاسی لیڈرشپ۔اپنے ووٹ بینک کے لیے اخبارات پڑھنے کے لیے جگہ جگہ فٹ پاتھ پر ایک چھوٹی نمامرکز بنادیتی ہے،جہاں ضعیف شہری اور چند بے کار لوگ بیٹھ کر اخبارات پڑھ لیتے ہیں۔مسلمان قیادت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ سوالات کا جوابات ہمیں تلاش کرنا ہوگا ،یہ سچ ہے کہ حج ہاؤس کوچنگ اینڈ گائیڈنس سنٹر سے کوچنگ حاصل کرنے وال چار نوجوانوں میں حسین اور عائشہ قاضی ( 586)تسکین خان ( 736) اور برہان زمان (768)شامل ہیں۔ محمد حسین کے والدین تعلیم یافتہ نہیں ہیں،لیکن اس کی خود اعتمادی نے انہیں اس کی حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رکھا۔ اس کامیابی نے انہیں راتوں رات ایک چھوٹی سیلیبریٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔خصوصی طورپر محمد حسین تو ہیرو بن چکا ہے ،حسین سید مقابلہ جاتی امتحان میں چوتھی بار کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا عزم اور محنت بالآخر رنگ لائی ، ممبئی کے غریب نوجوانوں ،خصوصاً مسلمان نوجوانوں کارول ماڈل بن جائے گا،وہ حج اے ایس بنے یا آئی پی ایس افسر محمد حسین نے جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے کو بدنام کرنے والوں کو منہ توڑ جواب بھی دیا اور اپنی ملت کے رہنماؤں کے سامنے سوالات کھڑے کئے ہیں وہ۔قابل غور ہیں ،ہم۔تو بس اب یہ جانتے ہیں کہ ایک جھوپڑابستی میں مقیم محمد حسین کی" محنت ولگن سے حاصل کی گئی کامیابی " ایک روشن مثال ہے۔"

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 39936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.