وطن عزیز میں سیاسی طاقت کی حقیقت یہ ہے کہ حقیقت میں آج
تک کوئی اس کا ادراک نہیں کر پایا۔ بیساکھیوں کے زریعے ملنے والے سہارے کو
اپنی طاقت سمجھ کر جو لوگ آپے سے باہر ہوتے ہیں۔ وہ کھیل سے ہی باہر ہوجاتے
ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کے بجائے جب یہ سر پٹ دوڑنے کی کوشش کرتے
ہیں تو پھر نہ کوئی بیساکھیاں بچتی ہیں اور نہ ہی کوئی سہارا بچتا ہے۔
اعتراض کوشش پر نہیں بلکہ اس بیساکھی پر ہے جسے اپنی طاقت سمجھ لیا جاتا ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی۔ جب پچھلے چند روز کے دوران
روزانہ کوئی ایک یا دو سیاستدان پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کر
رہے ہیں۔ جواز جو بھی ہو وجہ جسے بھی قرار دیا جائے بیانات جیسے بھی دئے
جائیں مگر حقیقت یہی ہے کہ سارا کھیل كمبل چرانے کا ہے۔ اور كمبل چرانے کا
یہ کھیل نہ تو پہلی بار ہو رہا ہے۔ اور نہ ہی سیاسی بد قسمتی سے اسے آخری
سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ جب تک سیاسی مہرے ملتے رہیں گے بادشاہ کو چال
چلنے میں مشکل پیش نہیں آسکتی۔
ماضی میں اگر ہم زیادہ دور نہ بھی جائیں تو جنرل مشرف کو عدالتی آشیر باد
سے ملنے والے تین سالہ ریلیف کے بعد 2002 میں قومی انتخابات کرائے گئے۔ تو
ان کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ قائد اعظم سمیت
کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ایسی صورتحال میں اس
وقت پیپلز پارٹی کے صدر مخدوم آمین فہیم کو وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی گئی
مگر معاملات طے نہ ہوئے۔ تو پاکستان پیپلز پارٹی کے دس اراکین قومی اسمبلی
کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ بنا دیا گیا۔ جس میں راؤ سکندر ، فیصل
صالح حیات ، نوریز شکور سمیت دس ایم این اے شامل تھے۔ بعد ازاں نیاز جھکڑ
سمیت چار ایم این اے مزید شامل ہوے۔ جن کی حمایت سے مسلم لیگ ق نے حکومت
بنائی۔ اور ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بنے۔ اس سے قبل مسلم لیگ ق کس طرح
وجود میں آئی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے اور
میاں برادران کی ڈیل کے زریعے بیرون ملک روانگی کے بعد مسلم لیگ میں شامل
اکثر سیاستدان سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر مشرف کی حمایت یافتہ مسلم
لیگ ق میں شامل ہوتے رہے۔اس سے قبل مسلم لیگ ن نے کس طرح جنم لیا اور محمد
خان جونیجو کے ساتھ جو ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح ہر انتخابات سے
قبل جس طرح پارٹیاں بنائی اور بگاڑی جاتی رہیں ہیں ہماری سیاسی تاریخ کے ہر
ہر ورق پر اس کا نوحہ موجود ہے۔ اسی طرح جب جب ملک میں امریت نے پنجے
گاڑھے۔ اس کی سب سے پہلے حمایت ان سیاستدانوں نے کی جو سب سے بڑھ کر
جمہوریت کے حامی تھے۔ 2008 میں مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ ق
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو یہی سیاستدان دوبارہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان
پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹنے لگے۔
اسی دوران خاص حمایت سے عمران کے مینار پاکستان کے کامیاب جلسے ، سوشل
میڈیا پر نوجوانوں میں خاص مقبولیت اور سابقہ جماعتوں کے توڑ کی ضرورت
محسوس کی گئی تو خان پر دست شفقت رکھ دیا گیا۔ جس کے بعد سیاستدان آہستہ
آہستہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے لگے تا ہم اس میں تیزی اس وقت آئی جب پاناما
کیس کے دوران نواز شریف کا ایک پیج ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اور 2018 کے انتخابات
سے قبل سیاستدان تھوک کے حساب سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔
ایسی صورتحال میں کچھ اس طرح کہا جاتا تھا کہ آج کپتان نے مسلم لیگ کی اتنی
وکٹیں اڑا دیں اور آج پیپلز پارٹی کی اتنی وکٹیں اڑا لیں۔ یہاں تک کی
انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے درجن بھر ایم پی ایز اور
ایم این ایز نے صوبہ محاذ کے نام سے ایک گروپ بنا کر پاکستان تحریک انصاف
کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اور چار سال تک یہ تمام لوگ اقتدار کے مزے لوٹتے
رہے۔
مگر آج جب تحریک انصاف کے سر سے دست شفقت اٹھ چکا ہے۔ اور وہ زیر اعتاب آ
چکی ہے تو آج یہی لوگ دھیرے دھیرے کھسک رہے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ آج
پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے اگلے کچھ ہفتوں میں اس جماعت کے ساتھ کھڑے ہونگے
جسے اقتدار میں لانا مقصود ہوگا۔ اس لیے مجھے کوئی حیرت نہیں ہورہی کیونکہ
نہ تو یہ لوگ اپنی مرضی سے آتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ بلکہ
انہیں ضرورت کے وقت صرف استعمال کیا جاتا ہے کبھی حمایت دے کر اور کبھی
حمایت واپس لے کر۔ کہیں یہ لوگ طاقت بنتے ہیں اور کبھی یہ کمزور کر دیتے
ہیں۔
مگر مجھے اس بات پر حیرت ضرور ہوتی ہے۔ جب مانگے تانگے کی اس حمایت کو اپنی
طاقت اور مقبولیت سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔ اور یہی زعم انہیں تباہی کے
دھانے پر لے جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاستدان بیساكهیوں کے سہاروں پر
کھڑے ہو کر ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم مضبوط ہیں۔ مگر جیسے ہی
بیساكهییاں کھینچ لی جاتی ہیں تو وہ نیچے آگرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے
ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ حالانکہ دھوکہ تو اس قوم کے ساتھ ہورہا ہے وہ ان
سیاستدانوں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہے اور یہ کسی اور کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں
کاش یہ کسی اور کے پیچھے کھڑے ہونے کے بجائے صرف اس قوم کے آگے کھڑے ہوتے۔
جب تک یہ سیاستدان اس قوم کو اپنی طاقت سمجھنے کے بجائے بیساكهییوں کو اپنی
طاقت سمجھتے رہیں گے اس وقت تک ہر چند سال بعد اسی طرح گرتے ، پڑتے ، لڑ
کھڑاتے اور گڑگڑاتے رہیں گے۔
|