اور پنچھی اُڑ گئے

یوں تو گھُس بیٹھیے ہر سیاسی جماعت میں ہوتے ہیں لیکن تحریکِ انصاف تو جماعت ہی گھُس بیٹھیوں کی تھی۔ تحریکِ انصاف میں وہ کون سا ایسا پنچھی ہے جس نے ٹھکانے نہیں بدلے۔ ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ کے مصداق پیپلز پارٹی، نوازلیگ، قاف لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور ڈال ڈال پھدکنے والے سبھی تحریکِ انصاف میں شامل ہوگئے۔ جب بھی عمران خاں بڑے فخر سے کسی کے گلے میں ’’پٹا‘‘ ڈالتا تو میڈیا چیخ اُٹھتا کہ ایک اور جیتنے والا گھوڑا داغِ مفارقت دے گیا۔ ہمیں تب بھی یقین تھا کہ جوں ہی عمران خاں گرفتارِبلا ہوگا یہ سبھی ’’پھُر‘‘ ہو جائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ پھُر ہو جانے والوں کی ’’ہاف سینچری‘‘ مکمل ہوچکی اور
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے ، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

یہ صورتِ حال دیکھ کرپریشان حال عمران خاں نے اُسی امریکہ سے مدد کی بھیک مانگنا شروع کر دی جس کا سائفر لہرا لہرا کر وہ کہتے تھے ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘۔ اُنہوں نے امریکی رُکنِ کانگرس سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُن کے لیے آواز اُٹھائیں۔ عمران خاں نے حکومت چھِن جانے کاسارا ملبہ سابق آرمی چیف پر ڈالتے ہوئے امریکی خاتون رُکنِ کانگرس سے زوم میٹنگ میں کہا ’’99 فیصد پاکستانی ہمارے ساتھ ہیں اور پاکستان کی کسی بھی جمہوری جماعت کے خلاف تاریخ میں اتنا بڑا کریک ڈاؤن نہیں ہوا جس کا اُن کو سامنا ہے۔ اگر امریکہ سے ہمارے لیے آواز اُٹھے گی تو اُس کے اثرات ہوں گے‘‘۔ یہ وہی شخص ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کا ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے وزیرِاعظم بنایا۔ شاید تاریخِ پاکستان میں کسی بھی وزیرِاعظم نے کسی دوسرے ملک سے اپنے لیے یوں مدد کی بھیک نہیں مانگی ہوگی۔

یہ بجا کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہو جانے کے بعد عدلیہ نے عمران خاں کو ’’گود‘‘ لے لیاہے پھر بھی ہمیں یقین کہ اگر پاکستان کی ساری عدلیہ بھی اُسے گود لے لے توبھی 9 مئی کے سانحے کے بعد وہ پاکستانی سیاست سے مائنس ہوچکاکیونکہ یہ احتجاج نہیں، ریاست کے خلاف بغاوت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب زمان پارک میں تنہائیوں کے ڈیرے ہیں اِس لیے ہمارا عمران خاں کو مشورہ ہے کہ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا قانون بن ہی نہیں سکتاجو عقلِ انسانی سے ماورا ہو۔ اِسی لیے آئین وقانون سے نابلد لوگ بھی قانون کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں۔ اب اگر ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کا کوئی ایسا فیصلہ سامنے آئے کہ جسے سُن کر ایک عامی بھی پُکار اُٹھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تو پھر چیف جسٹس صاحب کو بھی سوچنا ہوگا۔ یوں تو محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال اپنے ہر فیصلے کو آئین وقانون کے عین مطابق قرار دیتے رہتے ہیں لیکن اگر کسی نے اُن سے یہ سوال کر دیا کہ کیا آٹیکل63-A کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ بھی آئین وقانون کے عین مطابق تھا؟۔ اگر عمران خاں پر 26 مئی 2022ء کو دائر ہونے والا توہینِ عدالت کا کیس ایک سال گزرنے کے باوجود بھی فیصلے کا منتظر ہے تو کیا یہ نظریٔہ ضرورت نہیں؟۔ اگر ریمانڈ کے باوجود سپریم کورٹ میں عمران خاں کو ویلکم اور وِش یو گُڈ لَک کہا جاتا ہے تو کیا پاکستان کی تاریخ ِ عدل میں کسی اور ملزم کے لیے بھی یہ الفاظ کہے گئے؟۔ کیا بین الاقوامی تاریخ ِ عدل میں کسی ملزم کو اُن کیسز میں بھی ضمانت ملی جو ابھی تک دائر ہی نہیں ہوئے؟۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ جہاں تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں کا نام آتا ہے ہماری عدلیہ ماں کے جیسی ہو جاتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئرترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا۔ اِس کمیشن نے 9 آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ بھی جاری کر دیئے لیکن توقعات کے عین مطابق چیف جسٹس عمرعطابندیال صاحب نے اِس تحقیقاتی کمیشن کو مزید کام سے روک دیا۔ تحقیقاتی کمیشن پر قائم 5 رُکنی بنچ کی سربراہی پر اٹارنی جنرل پاکستان نے اعتراض بھی اٹھایا لیکن چیف جسٹس صاحب نے یہ اعتراض مسترد کر تے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس وفاقی حکومت کی چوائس کے پابند نہیں۔پھر اُنہوں نے فرمایا کہ کوئی تحقیقاتی کمیشن چیف جسٹس کی منظوری کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتا۔ اِس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ جس پرفرمایا گیا کہ روایت یہی ہے۔ بالکل بجا! لیکن روایت تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کیس جج صاحبان کے قریبی رشتے داروں یا متعلقین کے بارے میں ہو تو جج صاحب اُس کیس کا حصّہ نہیں بنتے۔ 5 رُکنی بنچ کے سربراہ محترم چیف جسٹس کی خوشدامن صاحبہ کی آڈیو لیک بھی اسی تحقیقاتی کمیشن میں تھی تو پھر چیف صاحب نے اِس بنچ کی سربراہی سے انکار کیوں نہیں کیا؟۔

شاید اِسی دُکھ کی بنا پر میاں نوازشریف نے ٹویٹ کیا ’’عدلیہ نے نظریۂ ضرورت ایجاد کیا، ڈکٹیٹروں کو کو خوش آمدید کہا، آمریت کو قانونی جواز فراہم کیا، لاڈلے کو صادق وامین کا سرٹیفیکیٹ دیا جبکہ منتخب وزیرِاعظموں کو پھانسی دی، جھوٹے مقدموں میں جیلوں میں ڈالا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا اور اب بنچ فکسنگ کرکے آئین کو RE-WRITE کیا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف دنیا میں 140 میں سے 129 نمبر پر ہے مگر ہمارے چند معزز، عزت مآب جج صاحبان بضد ہیں کہ ہم نے ہر صورت 140 نمبر پر ہی پہنچانا ہے‘‘۔ 3 بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کے اِس ٹویٹ کا آج نہیں تو کل عدلیہ کو جواب دینا ہی ہوگا۔ 24 مئی کو عمران خاں کے بارے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے فرمایا ’’یہ ہیرا پھیری اور فراڈیا تو پہلے ہی تھالیکن یہ دہشت گرد بھی تھا اِس کا کسی کو علم نہیں تھا‘‘۔یہ اُس شخص کا بیان ہے جو بلاشبہ ’’میڈ ان پاکستان‘‘ ہے اور جس کی کارکردگی کا ہر کہ ومہ معترف۔ اب تو عمران خاں نے بھی کہہ دیا ’’نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے نکالا‘‘۔ اِس ایک جملے نے عیاں کر دیا کہ یہ ایک سازش تھی جس میں نہ صرف قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید شامل تھے بلکہ ثاقب نثار، آصف کھوسہ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال، اعجاز افضل، اعجاز الاحسن اور عظمت سعید بھی برابر کے شریک تھے۔ اگر 2018ء کے عام انتخابات میں نوازلیگ کو ایک سازش کے تحت شکست سے دوچار نہ کیا جاتا تو عمران خاں کا ’’شیروانی‘‘ کا خواب ادھورا ہی رہتا۔ نوازلیگ کے تعمیر وترقی کے کارنامے تو سب پر عیاں ہیں لیکن ساڑھے 3 سالوں میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لینے والے عمران خاں کے نامۂ اعمال میں کیا ہے سوائے جھوٹ، ضد اور نرگسیت کے؟۔ اُنہی کے دَور میں تحریکِ طالبان پاکستان جیسے ناسور کو ایک دفعہ پھر پاکستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا گیا جس سے آپریشن ضربِ عضب اور رَد الفساد میں جری جوانوں کی ساری قربانیاں رائیگاں کرنے کی کوشش کی گئی اور آج ایک دفعہ پھر پاک فوج کے جری جوان اِس ناسور کے خاتمے کے لئے قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لیے دِل میں نرم گوشہ رکھنے والے لاڈلے کو ماضی قریب میں ازراہِ تفنن ’’طالبان خاں‘‘ کہا جاتا تھا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اُن کی سوچ اور اپروچ واقعی طالبان جیسی ہی ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق 9 مئی کے سانحے کی تیاری نہ صرف پہلے ہی کی جا چکی تھی بلکہ دہشت گردوں کو باقاعدہ ٹرینگ بھی دی گئی۔ اِن دہشت گردوں کے لیے ٹارگٹ پہلے ہی طے کیے جا چکے تھے۔ افواجِ پاکستان کی تنصیبات کو جس انداز سے ’’عمرانی دہشت گردوں‘‘ نے ٹارگٹ کیا وہی انداز 2014-15 میں ٹی ٹی پی کا تھا۔ وحشت وبربریت کا ننگا ناچ یہ قوم 80 ہزار پاکستانیوں کی قربانیاں دے کر بھگت چکی مگر اب نہیں۔

 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642531 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More