راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی دورے سے
قبل وہاں جانے کا فیصلہ کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اس سے راہل کے دورے سے
پہلے کھیلے جانے والے آئی پی ایل کا فائنل میچ یاد آگیا۔ گجرات ٹائٹنس کا
فائنل میں آنا اور اس میچ کا احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں منعقد
ہونا اتفاق نہیں منصوبہ بند تھا ۔ اس میں آر ایس ایس کے سب سے بڑے نظریاتی
مخالف اسٹالن کی چنئی سپر کنگ کا فائنل میں آنا بھی اتفاق نہیں لگتا۔ میچ
کے فیصلے کا آخری گیند پر ہونا بھی کسی سازش کا حصہ لگتا ہے تاکہ مشتہرین
سے پوری قیمت وصول کی جاسکے اور جوا کھیلنے والوں کو روپیہ لٹانے اور
بٹورنے کا بیش از بیش موقع دیا جاسکے لیکن نتیجہ توقع کے خلاف ہوگیا کیونکہ
اگر وہ بھی منصوبے کے مطابق ہوتا تو اس سے قبل امیت شاہ کے نورِ نظر جئے
شاہ آئی پی ایل کے سیکریٹری کا عہدہ بھول کر ایک سڑک چھاپ گجراتی تماشائی
جیسی اشارہ بازی نہیں کرتے؟ جئے شاہ نے تو اپنی بدنما تربیت کا برملا اظہار
کرکے بھی نریندر مودی اسٹیڈیم میں گجرات کی ٹیم کو ہار سے بچا نہ سکے ۔اس
میچ کے انجام نے ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کی ہوا نکال دی۔
تمل ناڈو نظریاتی اعتبار سے گجرات کا کٹرّ مخالف تو ہے لیکن دونوں کے
درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اسٹالن کے پاس فی الحال ٹی وی ایس کا بنا
اسکوٹر والا انجن ہے جبکہ گجرات کے پاس وندے بھارت اور بولیٹ ٹرین کی ڈبل
انجن سرکار ہے۔ اس کے باوجودجھارکھنڈ کے مہندر سنگھ دھونی کی قیادت میں
چنئی سوپر کنگ بناڈرے گجرات ٹائٹنس کے سامنے ڈٹ گئی۔ اس میچ کا مہورت
نکالنے میں جئے شاہ سے غلطی ہوگئی۔ وہ اگر جواریوں کے بجائے محکمۂ موسمیات
سے مشورہ کرلیتے فائنل کی تاریخ کو بلا جاسکتا تھا لیکن فی الحال بی جے پی
والے اس خمار میں مبتلا ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر ایک قطرہ بھی آسمان سے
برس نہیں سکتا ہے۔ خیرسنگھ پریوار کے بھی ہر فردکو خوش فہمیوں کا شکار رہنے
کی مکمل آزادی ہے اور اس بھرپور استعمال ہورہا۔ اس حماقت کے سبب آئی پی
ایل 2023 کےتین گھنٹے دورانیہ کا کھیل تین دن بعداپنے انجام کو پہنچا ۔
اتوار 28 مئی کو شام 7 بجے میچ شروع ہونا تھا نریندر مودی اسٹیڈیم تالاب
بنا ہوا تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل کے نام لیواوں نے جب ان کا نام ہٹا کر اسے
نریندر مودی سے منسوب کرنے کی نمک حرامی کی تو اس وقت وزیر داخلہ امیت شاہ
نے دعویٰ کیا تھا کہ اس دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم میں پانی کی نکاسی کا
ایسا انتظام ہے کہ آدھے گھنٹے کے اندر سارا پانی نکل جائے گا اور کھیل پھر
سے شروع ہوجائے گالیکن پہلی ہی بارش میں شاہ جی کے اس جملے بازی کی ہوا
نکال دی اور پانی جانے کے بجائے ایسے ایسے کونوں کھدروں سے داخل ہوا جیسے
طوفان ِ نوح آنے والا ہے۔ شائقین کرکٹ دیواروں اور کھمبوں کے پیچھے چھپتے
پھرے ۔ شروع میں جو سینڈوچ ڈیڑھ سو روپیہ میں بک رہی تھی اس کو مودی بھگتوں
نے اپنے بھائی بندوں کو آگے چل کر ڈھائی سو روپیہ میں میں بیچا۔ دنیا کے
سب سے اسٹیڈیم سے دنیا کے سب سے امیر کرکٹ بورڈ کے پاس اس پانی کی نکاسی کے
لیے اسپنج اور بالٹیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ساری دنیا ان مناظر کو دیکھ کر
قہقہہ لگا رہی تھی۔ وہ پاکستانی جنھیں آئی پی ایل سے دور رکھا جاتا ہے ہنس
ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے ۔ عالمی سطح پر اس بے مثال جگ ہنسائی کا سہرا باپ
بیٹے کے سر ہے۔ اسٹیڈیم کے دونوں کناروں یعنی امبانی اور اور اڈانی کو پانی
نے ایک دوسرے سے جوڑ دیا تھا۔ جئے شاہ اگر بخیلی اور بدانتظامی میں اپنے
والد سے دو قدم آگے نہ ہوتے تو اس رسوائی سے بچ جاتے ۔
اس صورتحال میں امپائرز کویہ میچ ریزرو ڈے تک ملتوی کرنا پڑا۔ آدھے کے
بجائے پورے چوبیس گھنٹے کے بعد 29 مئی کی شام 7 بجے کھیل شروع ہواتو چنئی
نے ٹاس جیت لیا ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ قسمت اس کا ساتھ دے رہی ہے اور
گجرات کے ستارے ہنوز گردش میں چل رہے ہیں ۔ ہلکی بارش کے دوران گجرات
ٹائٹنز نے مقررہ 20 اوورز میں 4 وکٹوں پر 214 رنز بنائے۔ یہ کوئی بہت اچھا
ہدف نہیں تھا لیکن اس کے بعد پھر سے بارش کا قہر نازل ہوگیا۔ میچ کو روکنا
پڑا اور ساڑھے تین گھنٹے تک کھیل رکا رہا ۔ نصف شب میں جب بارش رکی تو
تیسرا دن یعنی منگل آچکا تھا۔ ہندو روایات میں تین کے عدد کو منحوس سمجھا
جاتا ہے چنئی والے تو ویسے ہی اس کرم کانڈ میں یقین نہیں کرتے اس لیے ان کو
کوئی فرق نہیں پڑا مگر گجرات کے تین تیرہ ہوگئے۔ رات 12:10 پر دوبارہ کھیل
شروع کرنے سے قبل جئے شاہ نے ایک چال چلی اور چنئی کی اننگز کو 15 اوورز تک
محدود کر دیا اور اس کے سامنے 171 رنز کا ہدف مقرر کیا گیا ۔
یہ دلچسپ کھیل جب آخری اوور میں پہنچا تو چنئی کو جیتنے کے لیے 13 رنز
درکار تھے ۔ آخری اوور میں موہت شرما نے پہلی گیند پر کوئی رن نہیں دیا تو
جئے شاہ آپے سے باہر ہوگئے ۔ اس کے بعد انہوں نے تین گیندوں پر تین رنز
دئیے یعنی اب آخری 2 گیندوں میں 10 رنز بنانے تھے ۔اس وقت چنئی سپر کنگز
کی جانب گجرات کے رہنے والے رویندر جدیجا میدان میں تھے۔ جئے شاہ کو امید
رہی ہوگی کہ وہ حق نمک ادا کریں گے انتخابی سال میں گجرات کو آئی پی ایل
کی رسوائی سے بچا لیں گے مگر جدیجا نے پانچویں گیند پر چھکا لگا کر احمد
آباد سے دہلی تک سارے گجراتیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ گجرات کے ٹائٹنز
کی پریشانی بڑھ چکی تھی کیونکہ آخری گیند کھیل کا نتیجہ الٹ سکتی تھی اور
وہی ہوا۔ رویندر جدیجا نے عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ٹیم سے وفاداری
نبھائی اور گیند کو باؤنڈری پار کردیا ۔ اس طرح چنئی سوپر کنگز پانچویں
مرتبہ فاتح قرار پائی۔ جس طرح رویندرا جدیجا نے اپنے چھکے اور چوکے کی مدد
سے گجرات ٹائٹنز کے جبڑوں سے کامیابی چھین لی اسی طرح راہل گاندھی نےامریکہ
کے سان فرانسسکو میں وزیر اعظم کو نرگسیت نامی بیماری کا مریض کہہ کر پہلا
چوکا لگایا اور پھر نمونہ کے خطاب سے نواز کر چھکا لگا دیا ۔ اس طرح گویا
بی جے پی کے چھکے چھوٹ گئے اور وفادار گودی میڈیا بلبلا اٹھا۔ اپنی بدزبانی
کے لیے معافی مانگنے والا اور جرمانے بھرنے والا میڈیا راہل کی زبان درازی
کا شکوہ کرنے لگا۔
کیلیفورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں طلبہ سے گفتگو کے دوران راہل
گاندھی نے اپنی ایوانِ پارلیمان کی رکنیت کے منسوخی پراظہار خیال کیا۔ وہ
بولے میں شاید ہندوستان میں ہتک عزت کے معاملے میں سب سے زیادہ سزا پانے
والا شخص ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتاہے لیکن اب
یہ دشواری ایک موقع میں بدل چکی ہےجوایوان میں بیٹھنے سے بہتر ہے۔راہل نے
بتایا کہ وہ ڈرامہ چھ مہینے پہلے بھارت جوڑو یاترا سے شروع ہوا کیونکہ اس
وقت بی جے پی نے سارے اداروں پر قبضہ کرکے حزب اختلاف کو سڑک پر اترنے کے
لیے مجبور کردیا تھا۔ سینٹا کلیرا یونیورسٹی میں راہل نے پارلیمنٹ ہاؤس کو
دھیان بھٹکانے کا حربہ بتایا اور کہا ملک میں حقیقی مسئلہ بے روزگاری،
مہنگائی، غصہ اور نفرت کا پھیلاؤ، چرمراتا تعلیمی نظام، مہنگی طبی سہولیات
ہیں۔ بی جے پی چونکہ ان مسائل کو حل نہیں کر سکتی اس لیے ’راج دنڈ‘ جیسے
کام(نوٹنکی) کرتی ہے جبکہ اس کو سمجھانے کا سب سے اچھا طریقہ ’نفرت کے
بازار میں محبت کی دوکان‘ ہے۔برطانیہ کے برعکس اس دورے میں مسلمان خوب زیر
بحث رہے ممکن ہے یہ کرناٹک انتخاب کا اثر ہو۔ ایک سوال کے جواب میں وہ بولے
مسلم طبقہ بی جے پی کے ظلم کا سیدھے طور پر شکار ہے اس لیےسب سے زیادہ
گہرائی سے محسوس کرتا ہےلیکن حقیقی معنوں میں سبھی اقلیتیں اس سے متاثر ہیں
اور سکھوں ، عیسائیوں ، دلتوں اور غریبوں کے جذبات پر حملہ کیا جاتا ہےاور
وہ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔
اس حقیقت کا ایک ثبوت ابھی حال میں آدرش گجرات کے اندر پیش آنے والا وہ
شرمناک واقعہ ہے جہاں ایک دلت کو محض چشمہ پہننے کے سبب مارا پیٹا گیا۔
پہلے ان کا مونچھیں رکھنا یا گھوڑا چڑھنا لوگوں کو کھلتا تھالیکن اب بات
عینک تک پہنچ گئی ہے۔ راہل کے مطابق لوگ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ صرف 5
لوگ(ہم دو ہمارے دو اور ایک پپو شاہ) کس طرح لاکھوں کروڑوں کی آمدنی کر رہے
ہیں جبکہ ان کے پاس کھانے کو بھی نہیں ہے۔ ان سارے مسائل کا راہل گاندھی کے
پاس گھوم پھر کر یہی ایک نسخۂ کیمیا ہے کہ نفرت کو نفرت نہیں کاٹ سکتی
بلکہ نفرت کو محبت سے کاٹا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق ملک کے بیشتر لوگ پیار
اور محبت میں یقین رکھتے ہیں۔ جو آج مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کبھی
دلتوں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ ہم اسے چیلنج کریں گے، اس کے خلاف جنگ لڑیں
گے اور نفرت کے ساتھ نہیں بلکہ محبت کے ساتھ لڑیں گے۔بی جے پی اس دورے کی
عیب چینی کررہی ہےلیکن تادمِ تحریر اس کو کوئی مضبوط نقطہ نہیں ملاہے۔دورہ
جاری ہے، بعید نہیں کہ خاتمہ تک وہ کوئی بونڈر کھڑا کرکے راہل کی گرفتاری
کا بندو بست کردے یا شہریت ہی منسوخ کردے لیکن اگر اس نے ایسی حماقت کی تو
اسے ایک جلاوطن وزیر اعظم کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
|