اٹھائیس مئی کو پاکستان میں یوم تکبیر کا دن منایا
جاتا ہے۔ کیونکہ پچیس سال قبل اسی روز پاکستان نے چاغی کے مقام پر بھارت کے
پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سات ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کے
توازن کو ایک بار پھر سے معتدل کیا تھا۔ اس دن کو نہ صرف پوری پاکستانی قوم
بڑے جوش و جذبے سے مناتی ہے بلکہ عالم اسلام بھی ان ایٹمی دھماکوں کو اپنا
سمجھ کر کفار کو اسی بھروسے میں للکارتا ہے۔ جس دن پاکستان میں دھماکے ہوئے
تھے اسی روز فلسطین کا ایک کم سن بچہ اسرائیلی فوجی کو مکا دکھا رہا تھا کہ
پاکستان میں یہ جو ایٹمی دھماکے کا تجربہ کیا گیا ہے وہ تمہاری استعماریت
کو لگام ڈالنے اور اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ڈاکٹر اسرار احمد
مرحوم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہر فرعون کیلئے ایک موسٰی ضرور پیدا
کرتا ہے۔ سنہ اڑھتالیس میں اگر اسرائیل وجود میں آیا تو سنہ سینتالیس میں
پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں ریلیاں اور جلوس نکالے
گئے کہ ہماری آزادی کیلئے عالمی دنیا میں سفارتکاری اور آواز بننے والا ملک
بھی اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ بھارت اور اس کے ساتھیوں کو للکار کر کہہ سکے
کشمیر کو آزادی دو، استصواب رائے پر آزادی دو! مگر یہ نوجوان نسلوں کے خواب
جنہیں وہ آنکھوں میں سجا کر جوان ہوئے تھے بکھر گئے! امید کی روشنی آنکھوں
میں مایوسی کے بادل بن کر برس رہی ہے۔ آج پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ،
معاشی بحران، ذہنی ہیجان ، اور جہاں دیکھو تقسیم ہی تقسیم ہے۔کوئی جماعت ،
اشرافیہ، ٹیکنو کریٹ، بیوروکریٹ یا ملک کا ذمہ دار اتحاد کی بات نہیں کر
رہا ! اور اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے ہمارا روایتی حریف۔ اس نے مقبوضہ کشمیر
میں جی - 20 سمٹ منعقد کروائی ہے اور کنٹرول لائن کا علاقہ مائننگ کیلئے
اسرائیلی کمپنی کو ٹھیکے پر دیا ہے۔ مگر سمٹ کے بارے میں تو ہمارے وزیر
خارجہ نے بہت شور مچایا ہے، جو ظاہری طور پر بے اثر رہا مگر اسرائیلی کمپنی
کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ کیا وطن عزیز کو چلانے والے حکمران اور
مقتدر طبقہ ابلاغ ، دانش اور صحیح فیصلوں کی قوت سے عاری ہے جو مستقبل پر
نظر نہیں رکھتا کہ کیسی مشکلات ہماری منتظر ہیں! یہ کیسے اسباب پیدا کئے جا
رہے ہیں جس میں صرف میں ، میرا اور میری کی فکر کی جا رہی ہے؟
گریٹر اقبال پارک کے دامن میں ملک پاکستان کے بننے سے موجودہ سنگین حالات
تک اور پھر یہاں سے آگے امید کی ایک نئی روشنی کے آغاز تک کی ساری تاریخ
دفن ہے۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں 1940 میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی جس
کے سات سال بعد بر صغیر کے مسلمان ایک الگ آزاد ریاست اسلامی و فلاحی
جمہوریہ پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔اس گریٹر پارک میں یادگار
پاکستان یعنی مینار پاکستان بھی قائم ہے جس کی آغوش میں پاکستان کی کئی
سیاسی پارٹیوں نے جنم لیا ہے۔ کئی بڑے جلسے ہوئے ، وقت کے ساتھ وہ اثر کن
بھی ہوئے مگر کبھی پاکستان کی تقدیر نہیں بدل سکے۔
پاکستان میں اخلاق، ایثار و جذبہ، اتحاد ملی، یگانگت باہمی، ایمان ، اتحاد
، تنظیم اور یقین و محکم کے علاوہ دانشمندی اور دور اندیشی جیسے عناصر کا
خلا کوئی سیاسی و مذہبی جماعت بھر نہ سکی۔28 مئی یوم تکبیر کے موقع پر ایک
اور سیاسی جماعت پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے اسی گریٹر اقبال پارک کی آغوش
میں ، اسی مینار پاکستان کے سائے میں تکبیر کانفرنس کروا کر اپنے وجود کا
اعلان کیا ہے۔ پہلے ہی جلسے کو پی ایم ایم ایل کی قیادت تاریخی بنانے میں
کامیاب ہوئی ہے۔ اور پہلی ہی کانفرنس سے پی ایم ایم ایل نے تمام مذہبی و
سیاسی عمائدین و قائدین کو ایک ہی سٹیج پر اکٹھا کر کے تمام تر تعصبات سے
پاک ہو کر مذکورہ بالا سیاسی خلا کو پر کرنے کا عملی ثبوت دیا ہے۔لاہور شہر
بھر میں تشہیری مہم، استقبالیہ مسافر خانے اور ان میں کھانوں اور مشروب کے
ساتھ ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔پورے پنڈال کی سیکیورٹی کیلئے جہاں
سرکاری طور پر سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی وہیں خود پی ایم ایم ایل کی جانب
سے سینکڑوں نوجوانوں نے نظم و ضبط کو قائم رکھنے اور شرکت کرنے والوں کو
محفوظ کرنے کیلئے بھی سیکیورٹی کے فرائض انجام دئے ہیں۔داخلی راستوں پر
میٹل ڈی ٹیکٹر گیٹ لگائے گئے تھے، اور ساتھ ہی مہانوں کیلئے پانی اور شربت
کے سٹالز لگائے گئے تھے جہاں سفر کر کے آنے والے جی بھر سیر ہو رہے تھے اور
پیاس بجھا رہے تھے۔
اسٹیج کے بائیں طرف میڈیا گیلری قائم کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں راقم
الحروف میڈیا گیلری میں موجود تھا۔ اس گیلری میں پندرہ سو کرسیاں لگائیں
گئیں جہاں پنجاب بھر کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے برقی، سماجی اور
اشاعتی ابلاغی اداروں کے نمائندگان کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ۔ انہیں
بجلی اور انٹرنیٹ کی بھرپور سہولت بھی فراہم کی گئی۔ اسٹیج کے بائیں طرف
کنٹینر لگا کر الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کو کوریج میں آسانی اور
سیکیورٹی دینے کیلئے انتظام کیا گیا تھا۔ مین اسٹریم میڈیا کے نمائندگان نے
اس کنٹینر پر کیمرے لگا رکھے تھے اور وقفے وقفے سے پی ایم ایم ایل کی قیادت
کا انٹرویو کر رہے تھے اور مختلف اوقات میں اپنے ٹی وی چینلز پر ہیڈ لائنز
اور سٹوری کوریج دے رہے تھے۔ اسٹیج کے درمیان میں کرسیوں پر اور کھڑے ہوئے
ایسے لوگ موجود تھے جو ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم اور پی ایم ایم ایل کا
پرچم تھامے ہوئے تھے۔ گریٹر اقبال پارک کی درمیانی سولنگی پٹی آخر تک سبز
ہلالی پرچموں میں ڈھکی ہوئی تھی اور تیز ٹھنڈی ہواؤں نے ان پرچموں کو لہرا
کر زندہ و جاوید کر دیا۔اسی مرکزی سولنگی پٹی اور پنڈال کے باہر بھی
پاکستان کے بانی ممبران کے علاوہ کشمیر حریت راہ نماؤں کے پوسٹرز بھی
آویزاں کئے گئے تھے۔ اسٹیج کی بائیں جانب مکمل اور دائیں طرف میڈیا گیلری
کے پیچھے پی ایم ایم ایل کے تمام ضلعی عہدیدار اور ان کے ساتھ آئے ساتھی
موجود تھے جو ضلعی قیادتوں کے ہمراہ پنجاب کے طول و عرض سے بنا کسی لالچ
اور بنا کسی بریانی کے شوق اپنے کرایے پر صرف اور صرف اپنی قیادت کے ساتھ
اظہار یکجہتی کیلئے آئے ہوئے تھے ۔ کانفرنس کا وقت پانچ بجے سہہ پہر مقرر
کیاگیا تھا ۔ لوگ مختلف اضلاع سے پہلے ہی آنا شروع ہو گئے تھے، دن کی روشنی
میں ہی پنڈال بھر چکا تھا۔ مغرب کی نماز سے قبل قریب ساڑھے چھ بجے کانفرنس
کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا ۔ اور مغرب کی اذان کے وقت علماء و
عمائدین نے بھرپور عوامی ہجوم کے ساتھ نماز مغرب اور عشاء ادا کی۔ گریٹر
اقبال پارک کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا ہو کہ کوئی سیاسی قیادت
اپنے کارکنان کی نماز کی فکر کر رہی ہو، اور ان کیلئے نماز کی ادائیگی
کیلئے اتنے بڑے ہجوم کیلئے وضو کے پانی، طہارت کیلئے بیت الخلاء اور نماز
کیلئے قالینوں کا اہتمام کیا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد گریٹر اقبال پارک
تکبیر کے نعروں، عمائدین و قائدین کے خطابات اور ملی نغموں سے گونجتا رہا۔
رات گئے تک لوگوں کی شرکت کا سلسلہ چلتا رہا۔ خطابات کی تفصیل تو پاکستان
مرکزی مسلم لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے ویڈیو کلپس اور تصاویری شکل
میں گزشتہ روز ٹویٹر ٹرینڈ میں شیئر کر دی گئی ہے ۔ لیکن میں یہاں مقررین
کے نام ضرور لکھتا چلوں گا۔
اسٹیج پر موجود مقررین میں پی ایم ایم ایل کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ شاہد
مسعود سندھو، جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، سابق گورنر پنجاب
چوہدری محمد سرور، خطیب بادشاہی مسجد عبد الخبیر آزاد، حریت راہ نما غلام
محمد صفی، سجادہ نشین میاں میر پیر سید ہارون علی گیلانی، خواجہ معین الدین
محبوب کوریجہ، چئیرمین قرآن و سنہ موومنٹ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، قصور سے
پی ایم ایم ایل کے امید وار سیف اﷲ خالد، خواتین کی نمائندگی جنرل حمید گل
مرحوم کی بیٹی عظمیٰ گل ، یعقوب شیخ ، مرکزی جمیعت اہلحدیث پاکستان کے راہ
نما ڈاکٹر عبد الغفور راشد، بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے قبائلی راہنما
نواب ظفرا ﷲ خان شہوانی ، نگران عروۃ الوثقیٰ علامہ آغا سید جواد احمد نقوی
، امیر جماعت اہلحدیث حافظ عبد الغفار روپڑی ، مہتمم جامعہ اشرفیہ مولانہ
فضل الرحیم اشرفی ، سکھ راہ نما سردار بشن سنگھ ، علامہ زاہد محمود قاسمی،
معروف عالم علامہ ناصر مدنی، انجینئیر حارث ڈار، قبائلی راہ نما میر شاہ
جہاں ، انور گل زئی ، رانا محمد اشفاق ، مقتدر اختر شبیر ایڈووکیٹ ، احسان
اﷲ منصور ، چئیرمین پیاف شیخ فہیم الرحمٰن ، متحدہ جمیعت اہلحدیث کے راہ
نما شیخ نعیم بادشاہ، رانا انتظار ، احسان چوہدری ، انجینئیر عادل خلیق ،
ڈاکٹر عبد المتین و دیگر نے خطاب کیا۔
اگر جائزہ لیا جائے تو پورا سٹیج واضح طور پر اتحاد و یگانگت کے مناظر پیش
کر رہا تھا۔ اور مقررین کے علاوہ مین اسٹریم کے میڈیا اور اینکرز نے بھی یہ
تسلیم کیا ہے کہ اس عدم استحکام، ہیجانی کیفیت اور معاشی بحران میں گریٹر
اقبال پارک میں لوگوں کا جم غفیر اکٹھا کرنا کسی بھی نومولود سیاسی جماعت
کیلئے نا ممکن ہے لیکن پی ایم ایم ایل نے یہ ممکن کر دکھایا ہے۔ مقررین نے
پی ایم ایم ایل کی قیادت کو کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے
ہوئے اتحاد کی اس فضا کو قائم کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلا
شبہ اندرونی و بیرونی سازشوں، بھارتی دہشتگردی اور ہرزہ سرائی، ملک میں
نفرت و انتقام کی سیاست ، ملک میں مہنگائی اور غربت کے خاتمے اور اتحاد
باہمی کیلئے ایک سیاسی خلا موجود تھا، جسے پی ایم ایم ایل نے آج اس اتنے
بڑے اجتماع کو منعقد کر کے اور تمام سیاسی و مذہبی عمائدین کو ایک اسٹیج پر
اکٹھا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کی جماعت اس سیاسی خلا کو پر کرنے کی
اہلیت رکھتی ہے۔ تمام مقررین نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پاک
فوج کے ساتھ کھڑے رہنے کے عزم کا اظہار کیا۔کانفرنس کے دوران پی ایم ایم
ایل کے مرکزی راہ نما مزمل ہاشمی نے اعلامیہ پیش کیا جو کچھ یوں ہے:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
*پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیر اہتمام تکبیر کانفرنس کا اعلامیہ*
٭ یوم تکبیر کے تاریخ ساز موقع پر پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیراہتمام آج
مینار پاکستان کے سائے تلے عظیم الشان تکبیر کانفرنس کے انعقاد پر ہم اﷲ
تعالٰی کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم
میں نظریہ پاکستان کاشعور بیدار کر کے وطن عزیز کو ناقابل تسخیر قوت بنائیں
گے۔ ان شاء اﷲ
٭ آئی ایم ایف یا کسی بھی عالمی قوت کے دباؤ پر ایٹمی پروگرام سے دستبرداری
نامنظور ہے۔ پوری قوم ایسی کسی بھی کوشش کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت
ہوگی۔
٭ شہدا پاکستان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اس بات کا عزم
کرتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
٭ ملک میں دفاعی اداروں و تنصیبات پر حملوں اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی شدید
مذمت کرتے ہیں۔ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے، البتہ جن
لوگوں پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ نہ
بنایا جائے۔
٭ وطن عزیز میں شدید مہنگائی، بجلی و پٹرول کی بے انتہا قیمتوں اور ٹیکسوں
کی بھرمار سے کاروبار تباہ اور انڈسٹری کا چلنا مشکل ہو چکا ہے۔ حکومت
بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتیں کم کرے، عوام کی معاشی مشکلات کم کرنے اور
روزگار کے مواقع میسر کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔
٭ شدید مہنگائی سے بچوں کو تعلیم کے حصول میں سخت دشواری کا سامنا ہے۔حکومت
نوجوانوں کی تعلیم کا بوجھ خود اٹھائے،یکساں نظام تعلیم کی طرح تعلیمی
اداروں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جائے۔
٭ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں اورسالہا سال گزرنے پر بھی
لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ اتفاق رائے سے ایسا نظام انصاف ترتیب دیا جائے
جس سے مختصر وقت میں لوگوں کو انصاف میسر آ سکے۔
٭ صحت کی ناکافی سہولیات اور مہنگی ترین ادویات عوام کا بنیادی مسئلہ ہے۔
حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت کو
درست کیا جائے۔ دور دراز دیہاتی علاقوں تک بھی لوگوں کو صحت کی بنیادی
سہولیات فراہم کی جائیں۔
٭ اگر حکومت وقت عوام کو بنیادی حقوق اور ضروریات فراہم کرنے میں ناکام
رہتی ہے تو پاکستان مرکزی مسلم لیگ مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت فی الفور
مستعفی ہو۔
٭ مرکزی مسلم لیگ اس بات کا عہد کرتی ہے کہ خدمت خلق کی سیاست کو جاری
رکھتے ہوئے حکومتی وسائل کے بغیر ہی عوام پاکستان کی مشکلات حل کرنے کیلئے
بھر پور کوشش کرتے رہیں گے۔
٭ مقبوضہ کشمیر میں جی 20کے اجلاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی
ہے اور بھارت کو شہ دینے کے مترادف ہے۔چین، سعودی عرب، ترکی اور مصر کی طرف
سے جی 20اجلاس کا بائیکاٹ خوش آئند اقدام ہے۔
٭ پاکستان مرکزی مسلم لیگ اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ مظلوم کشمیری عوام کی
تحریک آزادی کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔
٭ عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی
امنگوں کے مطابق، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فی الفور حل کیا
جائے۔
٭ پاکستان مرکزی مسلم لیگ اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ تحریک آزادی
کشمیر کے قائدین جو بھارتی جیلوں میں ناحق قید ہیں، ان کو فی الفور رہا کیا
جائے۔ قائدین تحریک آزادی کشمیر کو عمر قید اور پھانسی کی سزائیں دینے کی
منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ان سزاؤں کو فی الفور ختم کیا جائے۔ |