مسئلہ فلسطین کا حل اور چین کی تین نکاتی تجویز
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چینی صدر شی جن پھنگ کی دعوت پر فلسطینی صدر محمود عباس
ان دنوں چین کا تین روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ یہ محمود عباس کا چین کا
پانچواں سرکاری دورہ ہے جو ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب رواں سال چین اور
فلسطین کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 35 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو اچھا دوست اور شراکت دار قرار دیا اور دونوں
رہنماؤں نے تمام شعبوں میں دوطرفہ دوستی اور تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا
اظہار کیا۔یہ امر قابل زکر ہے کہ چین اور فلسطین کے تعلقات نے حالیہ برسوں
میں ترقی کی مثبت رفتار برقرار رکھی ہے۔ 2019 میں ، چین اور فلسطین نے آزاد
تجارتی زون پر مذاکرات کا پہلا دور شروع کیا۔ گزشتہ دسمبر میں دونوں فریقوں
نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) تعاون سے متعلق مفاہمت کی ایک
یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ گزشتہ سال فریقین کے درمیان باہمی تجارت 158
ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس میں سال بہ سال 23.2 فیصد کا اضافہ ہے۔فلسطینی
عوام کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لیے چین نے 2016 میں اعلان کیا تھا
کہ وہ فلسطینی فریق کو 50 ملین یوآن (تقریبا 7.4 ملین ڈالر) کی گرانٹ فراہم
کرے گا۔ اسی طرح چین اب تک فلسطین میں 40 سے زائد منصوبوں کی تعمیر میں مدد
کر چکا ہے جن میں فلسطینی وزارت خارجہ کی عمارت بھی شامل ہے۔
اپنے تعمیری کردار کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے چین کے صدر شی جن پھنگ نے صدر
محمود عباس کے موجودہ دورہ چین کے موقع پر بیجنگ میں اُن سے ملاقات کے
دوران مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے تین نکاتی تجویز پیش کی جسے مختلف حلقوں
میں وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ
فلسطین کا مسئلہ نصف صدی سے زائد عرصے سے حل طلب ہے جس کی وجہ سے فلسطینی
عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فلسطین کے ساتھ جلد از جلد انصاف کیا
جائے۔انہوں نے کہا کہ اول تو، بنیادی حل فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام
میں مضمر ہے جو 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر مکمل خودمختاری حاصل کرے اور
مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہو۔ دوسرا، فلسطین کی اقتصادی اور معاش کی
ضروریات کو پورا کیا جانا چاہئے اور بین الاقوامی برادری کو فلسطین کے لئے
ترقیاتی امداد اور انسانی امداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔تیسرا ، امن
مذاکرات کی درست سمت میں چلنا ضروری ہے۔ یروشلم میں مقدس مقامات کی تاریخی
حیثیت کا احترام کیا جانا چاہئے ، اور اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات سے
گریز کیا جانا چاہئے۔ شی جن پھنگ نے کہا کہ ایک وسیع پیمانے پر، مزید مستند
اور مزید بااثر بین الاقوامی امن کانفرنس بلائی جائے تاکہ امن مذاکرات کی
بحالی کے لیے حالات پیدا کیے جا سکیں اور فلسطین اور اسرائیل کو امن کے
ساتھ رہنے میں مدد دینے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جا سکیں۔انہوں نے مزید کہا
کہ چین داخلی مصالحت اور امن مذاکرات کو فروغ دینے میں فلسطین کی مدد کے
لیے مثبت کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے ۔
اس اہم ملاقات کے موقع پر صدر شی جن پھنگ اور صدر عباس نے چین اور فلسطین
کے درمیان تزویراتی شراکت داری کے قیام کا اعلان کیا۔شی جن پھنگ نے صدر
محمود عباس کے دورہ چین پر ان کا خیرمقدم کیا۔ صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ
صدر عباس اس سال چین کا دورہ کرنے والے پہلے عرب سربراہ مملکت ہیں جو چین
فلسطین اعلیٰ سطحی تعلقات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ صدر شی نے اس بات پر زور
دیا کہ چین اور فلسطین اچھے دوست اور اچھے شراکت دار ہیں جو ایک دوسرے پر
بھروسہ اور حمایت کرتے ہیں۔ چینی صدر نے کہا کہ چین، فلسطین لبریشن
آرگنائزیشن اور ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک
تھا اور اس نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق کی بحالی کے لیے مضبوط
حمایت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ چین، مسئلہ فلسطین کے جلد، جامع، منصفانہ اور
دیرپا حل کے فروغ کے لیے فلسطین کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے تیار
ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین مختلف شعبوں میں فلسطین کے ساتھ دوستانہ تعاون
کو جامع طور پر فروغ دے گا۔
ملاقات کے موقع پر صدر محمود عباس نے فلسطینی عوام کے جائز قومی قانونی
حقوق کی بحالی اور منصفانہ مقصد میں چین کی مضبوط حمایت پر چین کا شکریہ
ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطین، چین کی اہم دلچسپی کے امور میں چین کے
ساتھ ہے اور ایک چین کے اصول پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین چین کے
ساتھ مل کر دی بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر کو آگے بڑھانا چاہتا ہے اور
مختلف شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے ہم نصیب
معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ فلسطینی صدر نے کہا کہ ان کا ملک
چینی صدر کے پیش کردہ گلوبل سکیورٹی انیشٹیو، گلوبل ڈیویلپمنٹ انیشیٹو اور
گلوبل سولائزیشن انیشٹیو کی حمایت کرتا ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ چین،
فلطسین کی داخلی مصالحت کے عمل اور مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مزید
کردار ادا کرے گا ۔ملاقات کے بعد دونوں رہنما ؤں کی موجودگی میں دوطرفہ
تعاون کی متعدد دستاویزات پر دستحط کیے گئے۔ فریقین نے عوامی جمہوریہ چین
اور فلسطین کے درمیان تزویراتی شراکت دارانہ تعلقات قائم کرنے کا مشترکہ
اعلامیہ بھی جاری کیا۔
تاریخی اعتبار سے چین نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین پر ایک جائز اور منصفانہ موقف
اپنایا ہے۔ 2021 میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تصادم شروع ہونے کے بعد
چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالتے ہوئے فلسطین کے
مسئلے پر پانچ اجلاس منعقد کروائے اور بالآخر ایک صدارتی بیان جاری کیا۔اس
کے علاوہ اب تک مشرق وسطیٰ کے لیے چین کے پانچ خصوصی ایلچی فلسطین،
اسرائیل، مصر، اردن اور خطے کے دیگر متعلقہ ممالک کا دورہ کر چکے ہیں تاکہ
فلسطین۔ اسرائیل تنازع میں ثالثی کی جا سکے ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین ایک
امن پسند ملک ہے اور یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے سبھی خطوں میں قیام امن کو
یقینی بناتے ہوئے انسانیت کی خدمت کی جا سکے۔
|
|