برطانیہ کے بعد راہل گاندھی اب امریکہ کے دورے پر ہیں
لیکن اس دوران کرناٹک میں ملنے والی کامیابی کے اثرات کو ہر کوئی محسوس
کررہا ہے۔ راہل گاندھی کے دورے کی شروعات امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے
ہوئی ۔ ان کی پہلی ہی تقریر میں کہا جانے والا یہ جملہ اب تاریخ میں رقم
ہوچکا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم وہ نمونہ ہیں جو خود کو خدا سے بھی
زیادہ معلومات کا حامل سمجھتے ہیں۔ راہل نے چونکہ یہ جملہ انگریزی میں کہا
اس لیے دیکھتے دیکھتے جنگل کی آگ بن کر دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اب مودی کی
تقریر لکھنے والوں کے پاس بیس دن کا وقت ہے کہ اس کا توڑ کریں لیکن راہل نے
اس کے بعد کئی دھماکے کردیئے۔ اس سے قبل جب راہل برطانیہ کے دورے پر تھے تو
بی جے پی والے بار بار ان کے ایوان پارلیمان کی رکنیت کا حوالہ دیتے تھے کہ
ایک ذمہ دار کو یہ نہیں کہنا چاہیے اور اس سے بچنا چاہیے۔ اس دوران ایوان
پارلیمان میں اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا دفاع کرنے کے لیے راہل
گاندھی نے اسپیکر سے رجوع کیاتو انہیں رکنیت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ اس
کے بعد اچانک کئی سال پرانا ایک مقدمہ متحرک ہوا جس نے راہل گاندھی سے ان
کی رکنیت چھین لی۔
راہل گاندھی اب ایک عام شہری ہیں جو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ پارلیمانی
رکنیت کا حوالہ دے کر انہیں روکا نہیں جاسکتا اور نہ ان پر ایوان میں بحث
ہوسکتی ہے۔راہل گاندھی کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ بی جے پی چاہے
تو انہیں نظر انداز کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے نہ تو ایسا کرنا ممکن ہے اور
نہ ہی برداشت ہوتا ہے۔ اس لیے زعفرانی میڈیا اور جماعت عجیب مخمصے میں
گرفتار ہے۔ اس کو ممبئی کی زبان میں ’سہا بھی نہ جائے اور رہا بھی نہ جائے
‘ سنڈروم کہتے ہیں۔ یہ بی جے پی کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ راہل کی تقریر
کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پھیلانا صحافت نہیں شرارت ہے۔راہل گاندھی نے کہا
’’دنیا اتنی بڑی ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ سب کے بارے میں سب
کچھ جانتا ہے۔ یہ ایک بیماری کی طرح ہے کہ ہندوستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں
جو سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں‘‘۔ یہ کہنے کے بعد طنزیہ طور پر یہ
بات کہی گئی کہ:’’ میرے خیال میں وہ خدا سے زیادہ جانتے ہیں! وہ خدا کے
سامنے بھی بیٹھ کر اسے بھی سمجھا سکتے ہیں کہ کیا چل رہا ہے! پی ایم مودی
بھی ان لوگوں میں سے ایک نمونہ ہیں۔‘‘
اس بیان میں وزیر اعظم کو ذہنی مریض اور نمونہ کہہ دینا ان کے بھگتوں کی
نظر میں توہین ہوسکتا ہے لیکن ساری دنیا اس نرگسیت کی قائل ہے۔ اس کا اظہار
ابھی حال میں ایوان کے افتتاح پر ہوا جہاں کچھ نامعلوم پنڈوں کے درمیان
اکیلے مودی ہی مودی تھے۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں اسپیکر اوم بڑلا کے علاوہ
کوئی اور نہیں تھا۔ امیت شاہ، راجناتھ سنگھ، موہن بھاگوت کوئی بھی نہیں ۔
صدر مملکت دروپدی مرمو اور نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کا بھی دور دور تک کہیں
اتا پتا نہیں تھا ۔ یہی تو نرگسیت نامی بیماری کی سب سے بڑی علامت ہے۔ عام
طور پر یہ احساسِ کمتری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد انسان سُپر
مین(مہا مانو) بننے لگتا ہے اور آگے چل کر خدائی کا دعویٰ بھی کربیٹھتا
ہے۔ مودی جی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ ایک بار انہوں نے اپنے کسی
قریبی سے پوچھا کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اس نادر موقع کا
استعمال کرکے اس بھگت نے تعریف و توصیف کے لمبے چوڑے پُل باندھ دیئے لیکن
جب وہ خاموش ہوئے تو مودی نے جواب دیا تمہاری بات درست نہیں ہے۔ ’لوگ مجھے
بھگوان سمجھتے ہیں‘۔ یہ نرگسیت کی ایک ایسی انتہائی چوٹی ہے جس سے ان کو
کراری شکست کے سوا کوئی اور نہیں اتار سکتا ۔
راہل نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ اگر
پی ایم مودی کو خدا کے سامنے بیٹھنے کو کہا جائے تو وہ اس کو بھی سمجھانا
شروع کر دیں گے کہ کائنات میں کیا چل رہا ہے! یہاں تک کہ خدا بھی اس بات
میں الجھ جائےگا کہ انہوں نے کیا بنایا ہے!‘‘ راہل کی اشارہ اس قدر لطیف
مگر واضح تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم کا ذکر نہ کرتے تب بھی اس کی ترسیل
ہوجاتی ۔ راہل گاندھی کی تقریر کا یہ اقتباس دیکھیں ’’ ہندوستان میں یہی
کچھ ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں کچھ لوگ ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں۔ جب وہ سائنس
دانوں کے پاس جاتے ہیں تو انھیں سائنس کے بارے میں بتاتے ہیں، جب وہ مورخین
سے روبرو ہوتے ہیں تو وہ انھیں تاریخ پڑھانے لگتے ہیں۔ وہ فوج کو جنگ کے
بارے میں، فضائیہ کو پرواز کرنے کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں لیکن سچ یہ
ہے کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کیونکہ اگر آپ کسی کی بات نہیں سننا چاہتے
تو آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے۔‘‘
مودی جی ناقدین نے راہل کی اس ویڈیو کے درمیان میں وزیر اعظم کے وہ سارے
انکشافات ڈال دئیے ہیں جو وقتاً فوقتاً ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہے ہیں۔
اس طرح تقریر کی اثر پذیری کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔فی الحال وہ ویڈیو زور و
شور سے گردش کررہی ہے۔ اس گہرے طنز نے مودی بھگتوں کے تن بدن میں آگ لگا
دی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بجرنگی اپنی دُم سےدوسروں کی لنکا جلاتے ہیں یا
خود ہی اپنی آگ میں جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔ نہایت کامیاب برطانوی دورے کے
بعد جب انڈین اوورسیز کانگریس نے اعلان کیا کہ وہ راہل گاندھی امریکہ کے چھ
روزہ دورے پر بلانا چاہتے ہیں بی جے پی کے خیمہ میں ہلچل مچ گئی حالانکہ یہ
خوشی کی بات تھی ہندوستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور جمہوری اداروں کی
ترقی سے متعلق مختلف امور پر بات چیت کرنے کے لیے کوئی بین الاقوامی دورہ
کرنے والا تھا ۔ وزیر خارجہ جے شیو شنکر کو تو اپنی صفائی پیش کرنے سے ہی
فرصت نہیں ملتی۔ وہ ساری بین الاقوامی رپورٹوں کو اپنے ملک کے خلاف سازش
قراردے کر اپنا وقار اور اعتماد کھو چکے ہیں۔
وزیر اعظم نے بھی غیر ملکی دوروں کے لیے آٹھ ہزار کروڈ کا ایک جہاز خرید
رکھا ہے مگر وہ یاتو بند کمروں کی میٹنگ کرتے ہیں یا عام جلسوں میں ٹیلی
پرومپٹر کی مدد سے بھاشن دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر آئی او سی کے صدر سیم
پیٹروڈا نے راہل گاندھی کے امریکی دورے کی دعوت دی تاکہ وہ دنیا کی سب سے
بڑی جمہوریت کے حیثیت سے جمہوری گفت و شنید کے قیادت کی اخلاقی ذمہ داری
ادا کرسکیں اور یونیورسٹیوں، سینئررہنماوں ، این آر آئیز اور ماہرین سے
ملاقات کریں تو سرکار کو ان کا مشکور ہونا چاہیے تھا لیکن سیاسی رقابت کے
سبب الٹا ہوگیا۔ حکومت ہند ملک کے ارکان پارلیمان کو سفارتی پاسپورٹ دیتی
ہے۔ ایوان کی رکنیت کھونے کے بعد راہل گاندھی نے اپنا سفارتی پاسپورٹ واپس
کر کے نئے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو اس کے لیے انہیں این او سی کی
ضرورت تھی۔ یہ کسی بھی فرد کو بہ آسانی مل جاتی ہے۔
راہل گاندھی نے ایک عام شہری کی طرح 10 سال کے لیے این او سی کا مطالبہ کیا
تو بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی میدان میں کود پڑے۔ انہوں
نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ راہل کو صرف ایک سال کے لیے این او سی دی جائے۔
سوامی کی دلیل تھی کہ راہل گاندھی کے پاس 10 سال تک پاسپورٹ جاری کرنے کی
کوئی درست یا موثر وجہ نہیں ہے۔سبرامنیم سوامی نے یہ بھی کہا کہ دیگر تمام
بنیادی حقوق کی طرح پاسپورٹ رکھنے کا حق بھی مطلق حق نہیں ہے اور یہ قومی
سلامتی، امن عامہ، اخلاقیات اور جرائم کی روک تھام کے مفاد میں حکومت کی
طرف سے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس
چیز کو راہل سے خطرہ لاحق ہے جو انہیں دس سالہ پاسپورٹ نہ دیا جائے۔راہل
گاندھی سابق وزیر اعلیٰ گجرات کی مانند کوئی ایسی شخصیت تو ہیں نہیں کہ جن
کے داخلے پر کسی ملک نے پابندی لگارکھی ہو ۔ سبرامنیم سوامی نے اپنے ایک
پرانے مقدمہ کا حوالہ دیا جس میں راہل کی برطانوی شہریت پر سماعت ہوئی تھی
مگر وہ عمر کے سبب بھول گئے کہ عدالت نے اس کو خارج کردیا تھا ۔
یہ دراصل بی جے پی کی ایک چال تھی تاکہ ڈرا دھمکا کر حوصلہ پست کیا جاسکے
مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی ۔ مرکزی حکومت راہل گاندھی کو تو دور دہلی کی
راؤز ایونیو کورٹ کو بھی خوفزدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس نے’پاسباں
بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘ کی مصداق نہ ایک سال اور نہ دس سال بلکہ
تین سال کے لیے این او سی دینے کا حکم دے دیا ۔ یہ میعاد اگر پانچ سال ہوتی
تو عدل نہ سہی مساوات کا بھرم رہ جاتا لیکن آج کل اس کی پروا کسی کو نہیں
ہے۔ اس رکاوٹ کو عبور کرنے کے بعد 31 مئی کو وہ امریکہ روانہ ہوئے کڑی محنت
سے حاصل کیے گئے پاسپورٹ کا خوب استعمال کیا ۔ انہوں نے ہاوڑی مودی یا
نمستے ٹرمپ جیسا کوئی تماشا کرنے کے بجائے سنجیدہ موضوعات پر بے تکلف گفتگو
کرکے مودی کے غبارے کی ہوا نکال دی۔ سیاسی گلیارے میں اب سوال یہ نہیں ہے
کہ مودی کا مقابلہ کون کرے گا؟ بلکہ یہ ہے کہ اس راہل کا مقابلہ مودی کیسے
کریں گے؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری) |