پاکستان میں رویت ہلال یعنی اسلامی ہجری کیلنڈر کے مہینوں
کے آغاز کے اعلانات ہمیشہ ہی سے تنازعات و فسادات کا شکار رہے ہیں ۔سرکاری
و نجی رویت کمیٹیوں کی جانب سے الگ الگ اعلانات دنیا بھر میں پاکستان کی جگ
ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔رویت ہلال کے تنازعات کے دائمی خاتمہ کے لئے31
مئی قومی اسمبلی نے رویت ہلال کے نظام کو منظم کرنے کے لئے پاکستان رویت
ہلال ایکٹ کی منظوری دے دی۔سینٹ اور صدر مملکت کی منظور ی بعد باقاعدہ
قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔
اغراض و مقاصد: اسلامی ہجری کیلنڈر کے مہینوں کے آغاز کے مقصد سے چاند
دیکھنے کے نظام کو منظم کرنے اوراور اس سے متعلقہ امور کے لیے مختلف مکاتب
فکر کے پیروکاروں میں اپنی مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ہم آہنگی
پیدا کرنے اور اتفاق رائے کے لیے قانون سازی کرنا وقت کی اشد ضرورت تھی۔
رویت کے حل طلب مسئلہ کے لئے چاروں صوبائی اسمبلیوں نے قراردادیں منظور کی
ہوئی ہیںتاکہ آئین کے آرٹیکل 144کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) رویت ہلال
کےلئے قانون سازی کرے۔
وفاقی رویت ہلال کمیٹی : وفاقی رویت ہلال کمیٹی جس میں چیئرپرسن کے علاوہ
15 ارکان ہونگے ۔ان 15ممبران کی تفصیل درج ذیل ہے۔ہر صوبے سے دو دو عالم
دین، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور اسلام سے ایک ایک عالم دین، محکمہ
موسمیات کا ایک رکن، سائنس و ٹیکنالوجی کا ایک رکن، سپارکو سے ایک رکن
اوررویت ہلال کے معاملات سے متعلق متعلقہ ڈویژن کا افسر ہوگا۔
صوبائی رویت کمیٹی: ہرصوبائی کمیٹی چیئرپرسن اور بارہ دیگر اراکین پر مشتمل
ہو گی جن میں تمام مکاتب فکر کے تسلیم شدہ علمائے کرام اور متعلقہ صوبائی
محکمہ کا ایک نمائندہ مقرر کیا جائے گا۔
اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری رویت کمیٹی: اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری رویت
ہلال کمیٹی اس کے چیئرپرسن سمیت سات ارکان سے زیادہ پر مشتمل نہیں ہو گی۔
ضلعی رویت کمیٹی: ہرصوبہ اس ایکٹ کے مقاصد کے حصول کے لئے ہر ضلع میں ایک
ضلعی رویت ہلال کمیٹی تشکیل دے گا جس میں (تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام
کے) چھ اراکین ہوں گے۔ضلعی کمیٹی کا انتظام متعلقہ ڈپٹی کمشنر /ضلعی سربراہ
کی نگرانی میںکیا جائے گا۔
نجی کمیٹیوں کی ممانعت: چاند دیکھنے کے لیے وفاقی، صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں
کے علاوہ کوئی بھی کمیٹی، ادارہ جس نام سے بھی پکارا جائے، پورے پاکستان یا
اس کے کسی حصے میں کام کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
کمیٹیوں کی مدت: وفاقی، صوبائی، اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری اور ضلعی رویت
ہلال کمیٹیوں کی مدت تین سال ہوگی۔
کمیٹی کا اجلاس: وفاقی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اس کا چیئرپرسن ہر مہینے
کی 29 تاریخ کو یا کسی بھی وقت اپنے طور پر یا متعلقہ ڈویژن کی ہدایت کے
مطابق بلائے گا۔وفاقی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس صوبائی ہیڈ کوارٹرز اور
آئی سی ٹی میں مقررہ روٹیشن کی بنیاد پر ہوں گے۔صوبائی، آئی سی ٹی اور
ضلعی رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس ان کے متعلقہ ہیڈ کوارٹرز اور اضلاع میں
بیک وقت ہوں گے۔کمیٹی کی کارروائی تحریری طور پر ریکارڈ کی جائے گی۔کمیٹی
زیر بحث کسی بھی معاملے پر مشورہ دینے کے مقصد سے کسی بھی شخص کو شریک کر
سکتی ہے یا کسی ماہر کو اپنی مجالس یا بحث میں شرکت کے لیے مدعو کر سکتی ہے
تاہم ایسے شریک یا مدعو ممبر کو ووٹ دینے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
چیئرپرسن کی مدت اور کام: چیئرپرسن اس ایکٹ اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد
کے تحت فرائض اور دیگر اُمور کو انجام دے گا۔چیئرپرسن وفاقی کمیٹی اور آئی
سی ٹی کمیٹی کی صورت میں متعلقہ ڈویژن کے سیکرٹری کو خط لکھ کر اور صوبائی
کمیٹی کی صورت میں صوبائی محکمہ کو لکھ کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہے۔
صوبائی اور آئی سی ٹی کمیٹیوں کے ارکان کی تقرری: متعلقہ صوبائی محکمہ یا،
جیسا بھی معاملہ ہو، متعلقہ ڈویژن مقرر کردہ معیار پر اُترنے والے شخص کو
صوبائی، کمیٹی کا ممبرمقرر کرے گا۔
کمیٹی ممبران کی قابلیت: وفاقی، صوبائی، ICT اور ضلعی رویت کمیٹیوں کے
چیئرپرسن اور ممبران کے لئے مخصوص مقرر کردہ تعلیم اور تجربہ کا ہونا لازم
قرار دیا گیا ہے۔
چاند دیکھنے کے لیے گواہی کی قبولیت: وفاقی، صوبائی، آئی سی ٹی اور ضلعی
رویت ہلال کمیٹیاں چاند کی رویت سے متعلق شہادتیں صرف شریعت کے مطابق قبول
کریں گی: چاند دیکھنے کی شہادت، اعلان کے مقصد کے لیے ضلعی کمیٹیاں صوبائی
کمیٹی اور آئی سی ٹی کو براہ راست مطلع کریں گی۔ اور صوبائی کمیٹیاں اور
آئی سی ٹی کمیٹی وفاقی کمیٹی کو مطلع کرے گی۔ تمام متعلقہ سرکاری ادارے
رویت ہلال کمیٹیوں کی مدد میں کام کریں گے۔
چاند نظر آنے کے فیصلے کا اعلان: صرف وفاقی کمیٹی کا چیئرپرسن یا وفاقی
کمیٹی چیئرپرسن کی طرف سے اس سلسلے میں مجاز کمیٹی کا کوئی رکن ذمہ دار
چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کے فیصلوں کا اعلان کرسکے گا۔
سزائیں: جو شخص اس ایکٹ کی کسی شق کی خلاف ورزی کرے گا۔پانچ لاکھ روپے تک
جرمانہ ہو گا۔ جو الیکٹرانک میڈیا /چینل سیکشن چاند دیکھنے کے سرکاری اعلان
سے پہلے چاند نظر آنے کی خبریں نشر کرے گا تو ایسے میڈیا ہائوس پر 10 لاکھ
روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا یا پمرا کی جانب سے لائسنس معطل کردیا
جائے یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جائیں گی۔کوئی بھی شخص یا افراد جو چاند
کی رویت کے حوالے سے جھوٹی گواہی دیں گے اسے تین سال قید تک ہو سکتی ہے یا
پچاس ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائوں کے مستحق ہوں گے۔
جرائم کا ادراک: (1) اس ایکٹ کے سیکشن 16 کے تحت قابل سزا جرم قابلِ ادراک،
ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامہ ہوگا۔(2) سیشن عدالت کے علاوہ کوئی بھی
عدالت اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کا نوٹس نہیں لے گی سوائے وفاقی، آئی سی ٹی،
صوبائی یا ضلعی کمیٹیوں کی اس ایکٹ کے تحت ہونے والے جرم کی مکمل تفصیلات
کے ساتھ تحریری طور پرشکایت۔ضابطہ میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود، سیشن
عدالت شکایت کا فیصلہ ساٹھ دنوں کے اندر کرے گی۔
قواعد بنانے کا اختیار: ۔- (I) وفاقی حکومت، سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے
ذریعے اس ایکٹ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے قواعد بنا سکتی ہے ۔ یہ
قواعدممبران کی تقرری، اہلیت، تربیت ، چیئرپرسن، ممبران کی برطرفی اور
چیئرمین اور ممبران کے سفر اور رہائش کے اخراجات، چیئرپرسن، ممبران کے
اختیارات، کام اور ذمہ داریاں، کمیٹیوں کے درمیان ہم آہنگی کا طریقہ کے
حوالہ سے بنائے جائیں گے۔
|