مہم اگر طویل ہوتو اس میں تنوع بہت اہم ہوجاتا ورنہ وہ بے
مزہ چیونگم کو لوگ تھوک دیتے ہیں۔ ساورکر سے گوڈسے تک کا سفر اس ضرورت کا
تقاضہ ہے۔ حکومتِ وقت کے ڈرانے دھمکانے کے خلاف احتجاج ضروری تھا۔ اس کا
گلہ شکوہ کرنے کے بجائے ڈٹ کے یہ اعلان کیا گیا کہ ’ہم ڈرنے والے نہیں ہیں
‘۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا چونکہ ہم ساورکر کے پیروکار نہیں ہیں اس لیے
’ہم نہیں ڈریں گے‘۔ اس جواب میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ ساورکر کو اپنا
رہنما ماننے والے لوگ خوفزدہ ہیں۔ ساورکر کے شیدائی ان کو بہادر مجاہدِ
آزادی مانتے ہیں ۔ اس لیے ان کو یہ بتایا گیا کہ کئی بار معافی مانگنا
ساورکر کے خوف کاثبوت تھا۔ اس طرح ایک بیانیہ تیار کیا گیا اور اس سے یہ
پیغام دیا کہ ’ہم ڈریں گے نہیں بلکہ جیتیں گے‘‘۔ عوام نے جب اس حقیقت کو
تسلیم کرلیا تو ساورکر کی ضرورت ختم ہوگئی اس لیے موضوع کو بدلنے کے لیے
گوڈسے کو لانا پڑا ۔ کسی مہم کی کامیابی کا سب سے اہم پہلو اس کے آخری
مرحلے میں نئی مہم کی داغ بیل ڈال دینا ہے ۔ امریکہ کی مہم کے آخر میں
گوڈسے کا وارد ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ آگے ساورکر کے نہیں گوڈسے کے
سہارے بات آگے بڑھائی جائے گی ۔
ساورکر اور گوڈسے دونوں ہندوتوا نواز تھے ۔ ان کےدرمیان استاد و شاگردی کا
بھی تعلق بھی تھا مگر ان میں دو فرق ہے۔ پہلا یہ کہ ونایک دامودر ساورکر کی
زندگی کے دو مراحل میں سے پہلا مجاہدآزادی کاہے۔ اس دور میں انہوں نے
بہادر شاہ ظفرکی قیادت میں لڑی جانے والی 1857کی پہلی جنگ آزادی پر بہت
اچھی کتاب لکھی ۔ اس وقت چونکہ وہ انگریزوں کے لیے خطرہ تھے اس لیے انہیں
انڈمان کی جیل میں ڈال دیا گیا ۔ان کے ہمنوا دوسرے مرحلے میں ساورکر کے
معافی ناموں اور انگریزوں کی وفاداری و خدمت گزاری کو پہلے مراحل کی خوبیوں
سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ ساورکر پر تنقید کو ان کے پیروکار پہلے دور کے قصے
کہانی سنا کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔ میڈیا کی مدد سے انہیں جزوی کامیابی
بھی مل جاتی ہے۔ گاندھی کے قتل کا الزام ساورکر پر بھی لگا مگر وہ تکنیکی
اعتبار سے ثبوتوں کی کمی کے سبب بری ہوگئے۔ اس لیے ان کے حامی انہیں ملوث
کرنے کو سیاسی رقابت کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔ گاندھی قتل کے اقراری مجرم
ناتھو رام گوڈسے نے پوری زندگی حب الوطنی کا کوئی کام نہیں کیا ۔ مودی ،
شاہ اور بی جے پی کے لیے چاہ کر بھی ناتھو رام گوڈسے کا دفاع کرنا نہایت
مشکل ہے ۔ اس لحاظ سے وہ نرم چارہ ہے۔
بیانیہ مرتب کرنا اور دوسروں پر ردعمل کا اظہار کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
امریکی دورے کے آخر میں نیویارک کے اندر ہندوستانی سماج کے کنونشن سے خطاب
کرتے ہوئے راہل گاندھی نےاسی لیے ساورکر کے بجائے گوڈسے کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں دو نظریات کے درمیان لڑائی ہے۔ ایک کی
نمائندگی کانگریس کرتی ہے اور دوسرا بی جے پی-آر ایس ایس کا نظریہ ہے۔یعنی
ایک طرف مہاتما گاندھی ہیں اور دوسری طرف ناتھورام گوڈسے۔ بات کو آسان
کرکے بتایا جائے تو وہ ذہن نشین ہوجاتی ہے۔ اس لیے جب آگے کہا گیا کہ ایک
طرف سب سے زیادہ بااثر این آر آئی ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی عدم تشدد اور
سچائی کی تلاش میں گزاری اور دوسری طرف تشدد اور غصے سے بھرا ناتھورام
گوڈسے ہے جو اپنی زندگی کی حقیقت سے منہ موڑ لیا کرتا تھا۔ وہ مستقبل کو
دیکھ کر ڈرجاتا تھا۔ اپنا مدعا واضح کرنے کے بعد راہل گاندھی نے سنگھ پر
حملہ بولتے ہوئے کہا گوڈسے نے ہمیشہ ماضی کی بات کی، مستقبل کی نہیں۔ وہ
بزدل تھا۔ اس کے برعکس مہاتما گاندھی نے انگریزوں سے جنگ کی، جو اس وقت
امریکہ سے بڑی طاقت تھے۔ آپ لوگ گاندھی، امبیڈکر، پٹیل، نہرو کے نقش قدم پر
چل رہے ہیں۔ اپنا بیانیہ اس طرح مرتب کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کو نشانہ بنانا راہل کی
سیاسی مجبوری ہےلیکن صرف یہ کہہ دینےسے ’ میں سب سے زیادہ لائق و فائق ہوں۔
میرا سینہ چھپن انچ کا ہے ، اس لیے لوگ میری حمایت کریں ‘ بات نہیں بنتی ۔
اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پرجو طاقتورنظریاتی جواز پیش کرنا پڑتا ہے وہ ہے
بی جے پی اور آر ایس ایس ملک میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے سارے
اداروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس میں بھی گوڈسے کی
مانند مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہےاورنہ ضروری دور اندیشی ہے۔راہل
نے کہا آپ ان سے کچھ پوچھیں تو وہ آگے دیکھنے کے بجائے پیچھے کی طرف
دیکھتے ہیں۔ اپنے اور حریف کے درمیان کا فرق واضح کرتے ہوئے راہل کہتے ہیں
’’ بی جے پی و آر ایس ایس کا کام نفرت پھیلانا ہے جبکہ ہمارا کام محبت
پھیلانا ہے۔ ہم بی جے پی وآر ایس ایس والا کام نہیں کریں گے، ہم اپنا کام
کریں گے ‘‘۔ راہل بولے ’’ یہاں (امریکہ )میں پیار اور محبت پر یقین رکھنے
والے گویا 24 گھنٹے محبت کے ہندوستان میں رہتے ہیں‘‘۔
اڑیشہ کے ریل حادثے کی مثال دے کر راہل نے کہا کہ گاڑی چلاتے ہوئے ہمیشہ
پیچھے نہیں دیکھ سکتے، ورنہ حادثہ ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم مودی، بی جے پی
اور آر ایس ایس کی یہی مشکل ہے کہ وہ ہمیشہ ماضی کی بات کرتے ہیں اور کسی
نہ کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ ان سے کچھ پوچھو
تو وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے ۔ آپ اگراڈیشہ ٹرین حادثے پر سوال پوچھیں تو
بتایا جائے گا کہ کانگریس نے 50 سال پہلے کیا کیا تھا۔ کانگریس نے اپنے دور
حکومت میں ٹرین حادثات کے لیے انگریزوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا، بلکہ
ریلوے کے وزراء نے ذمہ داری قبول کی اور استعفیٰ دیا۔ بی جے پی اور آر ایس
ایس عوام کا مستقبل دیکھنے سے قاصر ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ ارتقاء اور
پیریڈک ٹیبل کو کتابوں سے کیوں نکال دیا؟ تو وہ کہیں گے کہ کانگریس نے 60
سال پہلے ایسا کیا تھا۔ ان کا فوری رد عمل پیچھے مڑ کر دیکھنا ہے۔ بی جے پی
کو بھول چوک تسلیم کرنے کی عادت نہیں ہے۔ غلطیوں پر احتساب کے جواب میں
کانگریس پر الزام تراشی ان کا شعار ہے۔ سنگھ کی یہ ایک ایسی حقیقت پسندانہ
تصویر کشی ہے کہ اس سے انکارکرنے کے لیے انسان کا اندھ بھگت ہونا لازمی ہے۔
4 جون کو واپسی سے قبل نیویارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن(مین ہاتھن میں
جاویتس سنٹر) میں راہل گاندھی نے ہزاروں ہندوستانیو ں سے خطاب کیا۔ اس سے
پہلے انہوں نے واشنگٹن اور کیلی فورنیا میں فرینک اسلام سمیت کئی اہم سیاسی
رہنماوں کے ساتھ عشائیہ اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں ۔ اس سلسلے کی
ابتداء سلیکن ویلی میں اسٹارٹ اپ کاروباریوں سے ملاقات کے ساتھ ہوئی ۔ اس
دوران راہل گاندھی نے مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجیز کے میدان میں کام
کرنے والوں سے گفتگو کی ۔ انہوں نے بگ ڈیٹا اور مشین لرننگ کے بنی نوع
انسان پر اثرات اور انتظامی و سماجی بہبودکے عمل پر تبادلہ خیال کیا ۔
کیلیفورنیا میں پلے ٹیک سینٹر کے مالک سعید امیدی کے مطابق، اس شعبے میں 50
فیصد سے زیادہ اسٹارٹ اپ کے بانی ہندوستانی یا ہندوستانی امریکی ہیں۔ وہ
راہل کے آئی ٹی سیکٹر میں جدید ٹیکنالوجی کی بابت معلومات سے خاصے
متاثرہوئے۔راہل گاندھی نے کہا کہ اس تکنیک کے ذریعہ نوکرشاہی کی رکاوٹوں کو
دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عام آدمی سرکاری اسکیموں استفادہ کرسکے کیونکہ
ان کے خیال میں بی جے پی نے ملک کے اداروں پر قبضہ کررکھا ہے۔ اس پروگرام
کی نوعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محض تصویر کھنچوانے بھر کی مشق نہیں تھی۔
راہل گاندھی نے ڈیٹا کے تحفظ اور حفاظت کے حوالے سے ضوابط کی ضرورت پر زور
دیتے ہوے انکشاف کیاتھا کہ ان کی ساری سرگرمیوں سے حکومت واقف ہے۔ پیگاسس
اسپائی ویئر کے ذریعہ ان کا آئی فون ٹیپ ہو رہا ہےمگروہ اس سے پریشان نہیں
ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر کوئی بھی قوم یا ریاست آپ کا فون ٹیپ کرنا
چاہتی ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتالیکن فون ٹیپنگ میں دلچسپی رکھنے والے
لڑائی لڑنے کے قابل نہیں ر ہتے۔ یہ بہت پتہ کی بات ہے کیونکہ سازش کے ذریعہ
دشمن کو قابو میں کرنے والوں کے اندر دو بدو مقابلے کا حوصلہ نہیں
رہتا۔نیویارک میں کرناٹک کی فتح پر تبصرہ کرتے ہوئےراہل نے کہاکہ صرف
کانگریس پارٹی نے نہیں بلکہ ہندوستان کی عوام نے نفرت بھرےنظریہ کو شکست دی
ہے۔ یہ ہندوستانی عوام کا نفرت کی سیاست سے بیزار ی کا اظہار ہے۔ کانگریس
کا نظریہ پیار ومحبت کو فروغ دینا ہے۔ کرناٹک کی عوام نے اعلان کیاکہ
الیکشن قیمتوں‘ بے روزگاری اور بدعنوانی پر لڑا جائے۔یہ بی جے پی کی شکست
نہیں خاتمہ ہےتلنگانہ میں تو بی جے پی کوڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔اس کے
علاوہ‘ راجستھان‘ مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں بھی ہم وہیں کریں گے جو
کرناٹک میں کیاہے۔آخر میں ہندوستانیت کا مطلب سمجھاتے ہوئے وہ بولےیہ کسی
کو مارنا، کسی سے نفرت کرنا یا کسی کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ نفرتوں کے
بازار میں محبت کی دکان چلانا ہے۔ ہم نفرت کو نفرت سے نہیں ہٹاتے محبت
پھیلاتےہیں بقول جگر؎
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
|