اسوقت ملک میں اڑھائی سے تین کروڑ افراد کسی نہ کسی ذہنی
مر ض کا شکار ہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ
80فیصدذہنی امراض میں مبتلا افراد کیلئے علاج کی کسی تسلی بخش سہو لت کا
میسر نہ ہونا ہے۔ کسی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال یا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال
میں کسی سائیکیٹسرسٹ کی سہولت موجو د نہیں ہے اکثر لو گ خصوصاً جو دیہاتوں
میں مقیم ہیں و ہ ذہنی امراض کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو کسی نے
مریض پر کالا جا دو کر دیا ہے یا اس پر جنات کا سایہ ہے ۔اس طرح یہ جعلی
عاملوں اور پیروں کے پاس مریض کو لے جاتے ہیں جو نہ صرف مریض کے لواحقین کو
جی بھر کر لوٹتے ہیں بلکہ مریض پر جن نکالنے کیلئے بے رحمی سے تشدد بھی کر
تے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب مریض کو کسی سائیکیٹسرسٹ کے پاس لیکر جاتے
ہیں تو مریض کا مرض انتہائی زیا دہ شدت اختیارکرچکا ہو تا ہے بلکہ لا علا ج
ہوچکا ہوتا ہے۔ شعو ر کی کمی اور 80فیصد ذہنی امراض میں مبتلا افراد کیلئے
علاج کی کسی سہولت کا نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل
ہیلتھ لاہور ذہنی امراض میں مبتلا افراد کیلئے واحد علاج گا ہ ہے جہاں
مریضو ں کو علاج معالجہ اور ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن یہ بات رو ز
روشن کی طرح عیاں ہے کہ جتنا استحصال ذہنی امراض میں مبتلا افراد کا اس
ہسپتال میں ہوتا ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی یہاں مریضوں پر نت نئے تجر
بات کیے جاتے ہیں آئے روز ادویات تبدیل کی جاتی ہیں مثلاً ڈیپریشن جو ایک
خطرناک ذہنی مرض ہے اس میں مبتلا مریض ایک عذاب میں مبتلا ہو تا ہے مگر
ڈیپریشن کے مریضوں کے سا تھ جتنا ظلم اس ہسپتال میں ہو تا ہے اس کوئی مثال
نہیں ملتی ڈیپریشن کے مریضوں کو یہاں ایسٹالو پرام اور فلو کسی ٹین دیا جا
تا ہے ایسٹالو پرام میں پہلے یہاں ایک گولی نیکیسٹو کے نام سے آتی تھی اس
کو تبدیل کر دیا گیا اوراس کے متبادل چیئر اپ لائی گئی اچانک چیئر اپ بند
ہوئی تو اٹصال آگئی پھر اٹصال کو بند کر دیا گیا تو اب ڈیو پرام چل رہی ہے
میں یہاں پر ایک چیلنج دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ذہنی امراض کے
پروفیسر ڈاکٹر ز جن میں ڈاکٹر ترین ، ڈاکٹر شریف چوہدری ، ڈاکٹر حبیب اﷲ ان
سمیت کسی بھی ڈاکٹر سے یہ با ت پو چھی جائے کہ جس طرح یہ دوائیں آئے روز
تبدیل کی جاتیں ہیں کیا اس سے وہ مریض جو نیکیسٹو کھا رہا تھا او ر پھر اس
پر دوسری ادویات کے تجربے ہونے لگے تو کیا اسطرح مریض کا مرض واپس آنے کا
خدشہ ہے تو اگر یہ ڈاکٹر ز یہ نہ کہیں کہ مرض واپس آنے کا نہیں شد ت سے
واپس آنے کاخطرہ ہے تو مجھے الٹالٹکا دیں۔
پاکستان کے ایک مایہ ناز پروفیسر ڈاکٹر جن کا نام ڈاکٹر حسین مبشر تھا اور
یہ واحد ڈاکٹر تھے جنکو حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے
نوازا تھا ’’ا ب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں اﷲ انکو غر یق رحمت کر ے‘‘( آمین
)میں نے ان سے ادویات کی تبدیلی کی بات کی تو ا نہوں نے یہی کہا تھاکہ یہ
مریض کے لئے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے اب ان کی بیٹی داکٹر مریم مبشر جو
کہ ذہنی امراض کی ڈاکٹر ہیں ان سے بھی رائے لے لی جائے وہ بھی یہی کہیں گی
جو ان کے باپ نے کہاتھامینٹل ہسپتال کی انتظامیہ کے سامنے میں کئی بار یہ
مسئلہ اٹھا چکا ہوں خصوصاً اس سلسلے میں ایڈیشنل ایم ایس ڈاکٹر طاہرہ ارشد
سے میری بات ہوئی تو ان کا یہ جواب ہوتاہے کہ مظہر صاحب نیکیسٹوہو ، چیئر
اپ ہویاکوئی بھی ٹیبلٹ جس میں ایسٹالو پرام ہو وہ سب برابر ہو تی ہیں تو
ڈاکٹر صاحبہ میں نے اوپر جتنے پروفیسر ڈاکٹرز کے نام لیے ہیں وہ آپ کی اس
بات کی تصدیق کر دیں تو ہم بھی مان جائیں گے ۔یہ کہنا کہ حکومت کی طرف سے
یہ آرڈر ہے کہ سستی ادویات خریدنی ہیں تو پھر آپ یا پیسے بچا لیں یا ان
مریضوں کو جو پہلے ہی مرے ہوئے ہو تے ہیں ان مرے ہوؤ ں کے سا تھ اسطرح کا
سلوک بھی ہسپتال میں ہوا کہ ایک چمچے نے سکیو رٹی گارڈ سے ایک مریض کو دھکے
دلوا کر ہسپتال سے باہر نکلوا دیا کیا علا ج میں یہ بھی شامل ہے کہ مریضوں
کوجھڑکواور ان کو دھکے دیکر ہسپتال سے نکال دو ان دھکوں سے ڈیپریشن میں
افاقہ ہو تا ہے شیزو فرینیا مرگی یا کسی اورذہنی مرض میں ؟ اگر اس سے کسی
مرض میں افاقہ ہوتا ہے تو بتا دیں؟ اب آپ کی طرف سے اس بات کی تر دید آئے
کہ کسی چمچے نے کسی ذہنی مریض کو دھکے دیکر ہسپتال سے نہیں نکالا تھا تو
پھر میں یہ ثابت کر ونگا کیا آپ نے مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001ء کو پڑھا کہ
وہ ان امراض میں مبتلا افراد کے لئے کیا تقاضا کر تا ہے میں وزیر اعلی پنجا
ب سے وزیر صحت اور سیکرٹری ہیلتھ پنجا ب یہ اپیل کر تا ہوں کہ پنجا ب
انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ ہسپتال میں ہر مرض چاہے وہ ڈیپریشن ہے ، شیزو
فرینیا ہے ،مر گی ہے، مریض کو ایک ہی میڈیسن دی جائے اور وہ میڈیسن کسی
ملٹی نیشنل کمپنی کی ہونی چاہیے اور جس گو لی سے مریض کے مرض میں افاقہ ہو
رہا ہے اس کو قطعاً بند نہ کیا جائے ایک اور بات جس کا ذکر یہاں کرنابہت
ضرور ی ہے کہ مرگی ، ڈیپریشن اور شیزو فرینیاکے مریضوں پر ان امراض کی
ادویات کی وجہ سے پٹھوں کا کھچاؤ اور معدے میں تیزابیت پیدا ہو تی ہے مگر
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ مینٹل ہیلتھ میں نہ کوئی ملٹی وٹامنز کی ٹیبلٹ
ملتی ہے اورنہ ہی کوئی معدے کا کیپسول یا ٹیبلٹ یہ انتہائی ضروری ہے کہ
پنجا ب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی انتظامیہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائے
اگر مینٹل ہسپتال کی انتظامیہ مریضوں پر تجر بات کر تی رہی اور آئے روز
میڈیسنز تبدیل ہوتی رہیں تو پھر اس ہسپتال میں اور کسی مذبحہ خانے میں کوئی
فرق نہیں اب ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے اندر اس بات کا شعور اجاگر ہو
رہا ہے کہ اگر ان کے سا تھ ایسا ہی مذا ق ہو تا رہا تو پھر وہ احتجاج کا
راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں اور چونکہ ان کی زندگی عذاب تو پہلے ہی بنی
ہوئی ہے وہ پنجا ب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے سامنے اجتماعی خود کشیوں
جیسے قبیح فعل کا ارتکاب بھی کر سکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو بہت بڑا ظلم ہوگا
اور اس کی ذمہ دار پنجا ب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی انتظامیہ ہو گی۔
|