یہ بات تو ہم روزمرہ زندگی میں سنتے ہیں کہ سبزیاں صحت کے
لیے اچھی ہوتی ہیں۔مگر ہمارے سننے اور عمل کرنے میں اچھا خاصا فرق ہے۔
ہمارا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب مرض لاعلاج ہو چکا ہو اور ڈاکٹرز کہہ دیں
بس دعا کریں۔ ہمارے ہاں ایک اور بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں یہ
شعور نہیں کہ وہ باقاعدہ بنیادوں پر ماہرین ِ غذائیت سے جا کر ملاقات کریں
اور اپنی عمر کے مطابق اپنی غذا کا چارٹ مرتب کروائیں ۔ یہ مضمون پایہء
تکمیل تک پہنچانے سے پہلے میں یہ بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میرا میڈیکل
فیلڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی میں پیشے کے اعتبار سے ماہر غذائیت
ہوں بلکہ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے یہ آرٹیکل عام لوگوں کی معلومات کے
لیے لکھا گیا ہے۔ کچھ مزاح کا رنگ دیتے ہوئے مجھے "میں "کی جگہ ــ"ہم"کا
صیغہ استعمال کرنے میں زیادہ راحت محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے اہل ِعلم و دانش
کو یہ بات زیادہ تعجب میں نہیں ڈالے گی۔سبزیوں کے بنیادی فوائد کو لے کر ہم
نے بہت تحقیق کی اور اپنی صحت کی ناگزیر وجوہات کی بناء پر ہمیں بھی بادل
ناخواستہ کئی طبی ماہرین کی رائے لینا پڑی ۔ سب کو ایک ہی بات پر متفق پایا
کہ روزمرہ زندگی میں سبزیوں کو پکانے کے علاوہ بطور سلاد بھی شامل کیا
جائے۔ اور ہمارے پاس ایک ہی پرتکلف سا جواب ہوتا جی کبھی کبھی سلاد کو بطور
ذائقہ تناول کر لیا جاتا ہے۔ مگر الحمد ﷲ ایک خصلت خدا نے اچھی بخشی کہ چیز
یا مقام کوئی بھی ہو جستجو کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے پھر تحقیقی مقالہ یا
تو نثر کی صورت وارد ہوتا ہے یا نظم کی صورت ۔ جب معاملہ اور سنجیدہ ہو
جائے تو اخباری کالم کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ تو اربابِ اختیار کا
شکریہ جو اس ناچیز کے کالم کو اپنے اخبارات کے صفحات میں جگہ دے دیتے ہیں
اور ہمارے دل سے نکلی بات سوچ کے آئینوں سے چھلکتی ہوئی عوام الناس کی
جھلکیوں میں آجاتی ہے۔ تو بات ہو رہی تھی سبزیوں کی۔ طبی ماہرین کے بعد
اپنی جستجو کی راحت کا سامان پیدا کرنے کے لیے گوگل کے دروازے پر دستک دی۔
نہ صرف صحت سے متعلق تمام بلاگز پڑھ ڈالے بلکہ یوٹیوب، فیس بک کے چینلز پر
اپ لوڈ ڈماہرین غذائیت کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر ان کی ماہانہ آمدن میں بھی
اضافے کا باعث بنے کیونکہ ہر ویڈیو دیکھنے کے بعد فلاح و بہود کے جذبے سے
تمام دوست احباب کو بھی بھیج دیتے تاکہ وہ بھی اپنی صحت کو لے کر فکر مند
ہو جائیں۔ خیر اس کارِ خیر کا آغاز ہمارے اپنے گھر سے ہوا اور جیسے سردی
گرمی کے لحاظ سے گاجر، مولی، چقندر ، پیاز، ٹماٹر، کھیرا، شملہ مرچ تو بطور
عقیدت ہمارے گھر میں آنا شروع ہو گئے۔ دستر خوان رنگ برنگ سبزیوں سے سج
گیا۔ بات صرف سلاد تک محدود نہ تھی بلکہ پالک، مٹر، آلو، پھول گوبھی، بند
گوبھی، بھنڈی، توری، کدو، بینگن اور ہر طرح کی سبزی گھر کی زینت بن گئی۔ یہ
تبدیلی ہم نے خوشی خوشی قبول کی مگر سلاد والی تبدیلی والدہ محترمہ کو کچھ
زیادہ راس نہ آئی۔ راس تو شاید ہمیں بھی نہ آتی کیونکہ یہ عادت بچپن سے تو
ہمیں نہ تھی مگر ڈاکٹری رپورٹس پڑھنے کے بعد کھٹکا سا لگ گیا اور جان بچانے
کے لیے سبزیوں کا سہارا لیا۔ دریں اثنا ء والدہ محترمہ کو بھی ذیابیطس کا
خدشہ لاحق ہوا تو ہم نے ان پر بھی سلاد واجب کر دیا۔ ہمارے سامنے تو وہ
ہمارے اصرار پر کچھ تناول فرما لیتیں مگر جیسے ہی ان کو موقع ملتا وہ سلاد
کو بھولی بسری کہانیوں کی طرح برتاؤ کرتیں۔ خیر گزشتہ دو سال سے ہمارے
خاندان کے سبزیوں سے تعلقات کسی حد تک بہتر ہو چکے ہیں اور اس کاوش کا سہرا
اسی ناچیز کے سر جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے معاشرے پر بھی نظر رکھنا
شروع کر دی ۔ کبھی آنکھیں ملتے ہوئے یہ انکشاف ہوا کہ شاید ہماری نظر کمزور
ہو گئی ہے جو لوگوں کے چہرے زرد نظر آتے ہیں مگر کچھ ملاقاتوں کے بعد پتہ
چلا کہ یا تو ان کے پیٹ میں کیڑے ہیں یا وہ غذائی کمی کا شکار ہیں۔اور جہاں
انھیں اچھی غذا کھانے کی تجویز دی جاتی تو ملک کی معاشی حالت آڑے آ جاتی
اور غربت کی تسبیحات جاری ہو جاتیں مگر ہمارا ایک ہی معقول سا جواب ہوتا کہ
سبزیاں تو بہت شریف نباتات ہیں انھیں آپ کچن گارڈن میں بھی اگائیں گے تو اُ
گ آئیں گی، آپ احباب تھوڑی سی کوشش تو کر کہ دیکھیے۔ اپنے ادارے میں آنے
والی ہر خاتون کو ہم نے کراہتے ہوئے دیکھا مگر غذائی معاملات کو لے کر غفلت
کا شکار پایا۔ اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شاید مہنگی مہنگی ادویات اور مہنگے
پھلوں کو ہی ان لوگوں نے صحت کا ضامن سمجھ لیا ہے اور ہر بیماری کو غربت کی
آفت سمجھ کر انھوں نے اپنی تقدیر سمجھ لیا۔ اگر بھولے سے پوٹاسئیم، میگنیز
یا آئرن اور وٹامن بی کی اقسام ہمارے منہ سے پھسل پڑتیں تو لوگ تعجب سے
دیکھنے لگتے جیسے ہم کسی اسلحے کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور شاید یہ اسی
کے فارمولے ہیں۔ خیر ہمارے فلاحی جذبے کو بھی تشفی نہیں ملتی جب تک کہ اپنی
تمام تر توانائیاں بھلائی کے کاموں میں نہ صرف کر دیں۔ اسی اثناء میں ہم نے
اخیر قدم اٹھایا اور ۵۲ مئی ۳۲۰۲ تا ۳ جون ۳۲۰۲ ء کے دوران اپنے مکتب میں
جس کی سربراہی کا شرف اسی ناچیز کو حاصل ہے وہاں سلاد کا ہفتہ منانے کا
اہتمام کیا کہ جیسے کو تیسا ہی سہی۔ اگر سماج کے بڑے لوگ ہماری بات نہیں
سنتے تو ہم اپنی چھوٹی نسلوں کو سلاد کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ لہٰذا ہم نے اپنے ادارے کے فلاحی کارکنوں (اساتذہ) کے ساتھ مل کر
باہمی گفت و شنید کے بعد ۵۲ مئی کو یہ دن منایا او ر اس کا اہتما م ہفتہ
بھر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ بچوں کو سبزیوں کی اہمیت راسخ کروانے میں
روزانہ ایک لیکچر دیا جائے۔ ہمارے اسٹاف کے سماجی کارکنوں نے اس سرگرمی میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کے ساتھ ہی ہم نے ہر جماعت کے بچے کو ایک ایک سلاد
کی سبزی لانے کو کہا جس میں بچوں نے خوشی خوشی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بچوں کی
عمریں پانچ تا چودہ سال تھیں۔ رنگ برنگ سبزیوں سے سجے اسٹال بچوں کی دلچسپی
کا موجب بنے۔ نہ صرف سلاد کی سبزیوں سے اسٹال سجائے گئے بلکہ باقاعدہ بچوں
کو سلاد کھانے کے لیے بطور دعوت پیش کیا گیا۔ جس میں ایک اور بات بھی
دیکھنے کو ملی کہ چھوٹی عمر کے بچوں نے اس دعوت کو خوشی خوشی قبول کیا اور
مزے لے لے کر سلاد کھایا جبکہ گیارہ سے چودہ سال کے کچھ بچوں نے کھانے میں
پسندیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بعد میں تحقیق پر پتہ چلا کہ پیشتر بچوں نے
کبھی آج تک سلاد کھایا ہی نہیں۔ بس ضرورت اسی چیز کی ہے کہ یہ صحت مندانہ
رحجانات ہمیں بچوں میں ابتدائی عمر میں ہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ سلاد
میں مختلف رنگوں کی سبزیاں شامل کر کے اور بچوں کی عمر کے مطابق ان کی
کٹائی اور سجاوٹ کر کہ سلاد کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے تاکہ ضروری غذائی
اجزاء جو سبزیوں کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ اس سلسلے
میں ہم نے تو پہلا قدم اٹھا لیا اور اسکول کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس
سرگرمی کا اہتمام کروایا ۔ مگر اس طرح کی صحت مندانہ سرگرمیوں کی تمام
اداروں میں ضرورت ہے جہاں اطفال زیرِ تعلیم ہوں۔ اس کے ساتھ والدین کے لیے
خصوصاً ماؤں کے لیے طبی مراکز کی طرف سے ایسے سیمینار کا انعقاد کروایا
جائے جہاں انھیں مفت میں غذاؤں کے متعلق تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ بچوں
میں صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کروایا جائے اور تمام سزیاں ، سلاد اچھی
طرح دھو کر کھانے اور ساتھ ہی ہاتھ ، منہ ، کپڑے حفظان صحت کے اصولوں کے
مطابق صاف رکھنے کی تربیت دی جائے۔ امید ہے اگر تعلیمی ادارے اور والدین اس
بات پر متفق ہو جائیں تو طلبا ء طالبات کے ذریعے ایک صحت مندانہ تبدیلی
لائی جا سکتی ہے۔ یہ اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ ایک دن ہم شملہ مرچ ہاتھ میں
اٹھائے اپنی نشست پر براجمان ہوئے تو بچوں کی ایک لمبی قطار سبز رنگ دیکھ
کر یوں بھاگی بھاگی آئی جیسے چوزے ہرے دھنیے پر لپکتے ہوں۔ مگر ہمیں دلی
راحت اس وقت میسر ہوئی جب ہم نے وہی شملہ ٹافیوں کی طرح بچوں میں تقسیم کی
او ر وہ خوشی خوشی کھانے لگے۔
|