امام خمینی اور مظلومین کی حمایت

ایران کے انقلاب اسلامی کے بانی اور رہبر امت مسلمہ آیت اللہ امام خمینی ؒ صرف ایران کے ہی لیڈر نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنی مدبرانہ اور مدلل سوچ اور دور اندیشی کے باعث امت مسلمہ کے مسائل کے دیرپا حل کے لیے قابل عمل تجاویز دیں اور ایسے اقدامات کیے جو آج بھی امت کے لیے مشعل راہ اور روشنی کی امید ہیں ۔ امام خمینی ؒ کا ایک تاریخ ساز اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا کارنامہ ”عالمی یوم القدس“ منانے کا اعلان کرنا ہے۔ دراصل امام خمینی ؒنے یوم القدس منانے کا اعلان فلسطینی بھائیوں کی غریب الوطنی ،مظلومیت اور تکالیف کو دیکھتے ہوئے استعماری طاقتوں کے خلاف عملاً قیام کرنے کے احکامات جاری کرنے پر کیا۔ امام خمینی ؒ نے اپنی دوراندیشی سے فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ کو جاری و ساری رکھنے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے رمضان المبارک کے آخری جمعہ ، جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیا۔رمضان المبارک میں تمام مسلمان جہاد بالنفس کے عمل سے گزرتے ہیں ایسے میں جہاد بالعمل کی ترویج دینا ، اس پر خود بھی عمل کرنا اور دوسروں کو بھی کرواناامام خمینی ؒ کو عالمی سطح کا لیڈر بنا دیتا ہے جس کا دل امت مسلمہ کے لیے دھڑکتا ہے جو امت کے دائمی امن و سکون کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔

یہ رہبر معظم کی مدبرانہ سیاست اور حالات حاضرہ پر کڑی نظر ہی تھی جس کے باعث انھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ کو بند کردیا اور اسرائیل سے ہر طرح کے سفارتی ، ثقافتی اور تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر ختم کردیا ۔ اسرائیلی سفارت خانے کو ختم کر دینے کے بعدامام خمینیؒ وہ پہلے مسلم لیڈر تھے جنھوں نے فلسطینی عوام کے حقوق کی جنگ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر لڑنے کا عملی آغاز کیا ۔ان کے حکم پرتہران میں فلسطینی سفارت خانے کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دن سے جمعة الوداع کے دن کو عالمی یوم القدس سے تعبیر کر کے فرزندان توحید کو فلسطینی بھائیوں کے حقوق کی جنگ میں عملی طور پر شریک کر لیا گیا ۔

یوم القدس منانے کا اعلان کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ تمام مسلمان یک جان دو قالب ہیں اور ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا۔امام خمینی ؒ بین الاقوامی افق پر یہ دیکھ رہے تھے کہ نام نہاد مسلمان لیڈر فلسطینی عوام کے حقوق کی خاطر صرف زبانی جمع خرچ کے قائل ہیں اور ان کو اس مسئلے کے حل سے کوئی سروکار ہی نہیں اسی لیے آپ نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عملی اقدام کرتے ہوئے عالمی یوم القدس کا اعلان کیا تا کہ فرزندان اسلام اپنے دکھی بھائیوں کے حقوق کی بازیابی کی جنگ میں ان کے شانہ بشانہ شریک ہوں اور استعمار پر بھی ایک ہمہ جہت خوف طاری رہے اور وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سوچنے پر مجبور ہوجائے۔

امام خمینی کے جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دینے کے آغاز میں صرف ایران، پاکستان ، لبنان اور فلسطین میں ہی یوم القدس منایا جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور اسلام دشمنی تمام مسلمانوں پر کھل کر آشکار ہونے لگی جس نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور امام خمینیؒ کے یوم القدس منانے کے فیصلے کو سراہا جانے لگا حتی کہ آج امریکی اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی بھی صہیونیت کے خلاف یوم القدس بڑی شد و مد سے مناتے ہیں ۔

یوم القدس کی روز افزوں کامیابی اور امت مسلمہ کے ایک پلیٹ فام پر اکٹھے ہونے سے صہیونیت پرست عناصر متفکر ہیں اس مسئلے کے حل کے لیے انھوں نے اپنی ازلی ڈھٹائی اور سازشی ذہن کی اختراع سے مسئلہ فلسطین کو بھی مسئلہ کشمیر کی طرح ایک جغرافیائی مسئلہ قرار دیا اور فلسطینیوں کو امت مسلمہ سے تن تنہا کرنے کی سازش کا آغاز کر دیا بدقسمتی سے چند مفاد پرست مسلم حکمرانوں نے بھی استعمار کی سازش پر لبیک کہتے ہوئے مسلمانوں کے قبلہ اول کو یہودیوں کی ملکیت قرار دیا اور مسلمانوں کے قبلہ اول سے دستبردار ہوگئے۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینیؒ کی دور رس نظروں نے اس سازش کا بہت پہلے سے ہی ادراک کرتے ہوئے عالم یوم القدس منانے کا اعلان کیا تھا تا کہ تمام امت مسلمہ باہم شیر وشکر ہو کر اور اخوت و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوم القدس منائے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے قبلہ اول پر صہیونی قبضہ کے خلاف قیام کرے۔

امام خمینی ؒ نے امت مسلمہ کو یوم القدس کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جس کے ذریعے سے مسلم امہ صہیونیت کے لیے ہر دم لٹکتی تلوار کی مانند ہے یہی وجہ ہے کہ یوم القدس کی امریکہ اور اس کے حواری شدید مذمت کرتے ہیں اور امریکہ نواز حکومتیں اس دن کی کسی طور سرپرستی نہیں کرتیں مگر امام خمینیؒ کے ورثا خصوصا آیت اللہ سید خامنہ ای کی قیادت میں ہر سال یوم القدس انتہائی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے اور صہیونیت کے علمبرداروں کو للکارا جاتا ہے۔

یہ امام خمینیؒ کی ظالموں کے خلاف قیام کرنے کی حکمت عملی ہی تھی جس پرعمل پیرا ہونے کی وجہ سے مشرق وسطی ٰ کے عوام آج بیداری کے اس دور سے گزر رہے ہیں جن کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔لاکھوں کروڑوں مظلومین نے مشرق وسطی میں قید و بند ،ظلم و جو ر، سفاکیت ،بربریت اور تشدد برداشت کرکے اپنے اپنے ممالک کے غاصبین اور عنان بادشاہتوں کے مالکوں کو شکست فاش سے ہمکنار کیا اور آج صہیونیت پرست اور مطلق العنان حکومتوں کے مالک حمد بن ال خلیفہ،حافظ بشار الاسد، معمر قذافی ، علی زین العابدین اور حسنی مبارک یا تو اپنی اپنی زندگیوں کے دن گن رہے ہیں، یا مذاکرات کی بات کر رہے ہیں یا مظلومین سے انصاف کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔مشرق وسطی میں مسلمانوں کی بیداری اور ایک نئے مشرق وسطی کے ظہور سے اس بات کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ اب جلد ہی فلسطینی بھائی بھی اپنی سرزمین پر آزادی کا سانس لے سکیں گے اور اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے مظلومین کو بھی سکھ، چین اور امن کی زندگی نصیب ہو گی جن کی زندگیوں سے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سکون مفقود کردیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ فلسطینی سر زمین پر دوسری عالمی جنگ کے بعدبرطانیہ اور امریکہ کی سر پر ستی میں یہودیوں کو آباد کیا گیا تھا اور فوراً ہی اقوام متحدہ سے نئی اسرائیلی ریاست کی منظوری بھی دلوا ئی گئی تا کہ فلسطینی عوام سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا جائے ۔ برطانیہ اور امریکہ نے نہایت چالاکی سے یہودیوں کو مظلوم اور بے گھر ثابت کیا کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر نے بہت سے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا جسے مغربی میڈیا نے ہولوکاسٹ کا نام دیا ۔ اسی عالمی سازش کا قلع قمع کرنے کے لیے حضرت آیت اللہ امام خمینیؒ نے عالمی یوم القدس منانے کا اعادہ کیا جسے ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت اور عوامی تائید حاصل ہو رہی ہے ۔ حضرت آیت اللہ خمینیؒ کی ظالم کے خلاف قیام اور مظلومین کا ساتھ دینے کے فلسفے کو فیض احمد فیض نے نہایت دلنشیں انداز میںاپنی ایک نظم میں بھی بیان کیا ہے۔ اس نظم کی میرے نزدیک اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیوں کہ اس نظم میں شاعر نے عوام کو جو ترغیب دی ہے ان اقدامات کا مظاہرہ ہم نے تیونس، مصر، الجزائر، لیبیا اور دیگر عرب ممالک میںتمام عالمی میڈیا پر دیکھا جس سے صہیونیت اور استعماری طاقتیں آج تک متحیر ہیں۔ آئیے فیض کی نظم ملاحضہ ہو۔

دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے،کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو،بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں،سربھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
Syed Zaki Abbas
About the Author: Syed Zaki Abbas Read More Articles by Syed Zaki Abbas: 22 Articles with 33112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.