حکومت اور کیسے ناکام ہوتی ہے ؟

تحریر : محمد اسلم لودھی

بابر اعوان نے کہا ہے کہ حکومت ناکام نہیں ہوئی بلکہ عدالت میں غلط تاثر دیا جارہا ہے ۔کیا ایسی حکومت کو کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے جس نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے کراچی جیسے شہر کو گزشتہ چار سال سے دہشت گرد وں٬ ٹارگٹ کلرز ٬ اغوا کنندگان اور بھتہ خوروں کے سپرد کررکھا ہے ۔یہ بات ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ کراچی پر قبضے کے لیے تین سیاسی جماعتوں کے عسکری گروپ باقاعدہ جنگ لڑرہے ہیں اور اس نہ ختم ہونے والی جنگ کا ہزاروں بے گناہ لوگ ایندھن بن چکے ہیں۔25 سال پہلے کراچی نہ صرف امن کا گہوارا تھا بلکہ معاشی طور پر بھی اسے ریڑھ کی ہڈی قرار دیاجاتا تھا ۔لیکن مہاجروں کے نام پر سیاست کا آغاز کرنے والوں نے نہ صرف مہاجروں کو طاقت کے بل بوتے پر یرغمال بنارکھا ہے بلکہ ٹارچر سیل ٬ بوری بند نعشیں اور بھتہ خوری کی روایت بھی اسی کی مرہون منت ہے۔اگر ایم کیو ایم کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو ہفت روزہ تکبیر کراچی کی پرانی کاپیاں نکلوا کر دیکھی جاسکتی ہیں ۔ 70فیصد شہر پر ایم کیو ایم نے قبضہ کررکھا ہے ا ن علاقوں میں کسی دوسری جماعت کو الیکشن کے دوران بھی کنویسنگ کی اجازت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں صرف ایم کیو ایم کے لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں ۔کراچی میں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ سہراب گوٹھ ٬ قصبہ کالونی اور کٹی پہاڑی کا علاقہ ہمیشہ سے منشیات فروش اور جرائم پیشہ افراد کا گڑھ رہا ہے وہاں کے جرائم پیشہ افراد نے اے این پی کے جھنڈے تلے پناہ لے رکھی ہے ۔ایم کیو ایم اور اے این پی کے دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے لیاری گینگ کے جرائم پیشہ افراد کو اپنے پلیٹ فارم پر نہ صرف اکٹھا کیا بلکہ ایم کیو ایم کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ممنوعہ اسلحے کے لائسنس سیاسی بنیادوں پر کچھ اس طرح جاری کئے گئے کہ تھانوں میں ان کا اندارج بھی ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ خطرناک اسلحے سے بھرے نیٹو کے درجنوں کنٹینروں کے کراچی میں غائب ہونے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ امریکہ نے یہ جدید ترین اسلحہ پاکستان کو توڑنے کے لیے دانستہ غائب کرایا ہے ایم کیو ایم اور امریکی سفیر سے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ کسی قاتل کے سرپرست گورنر ہاﺅس ٬ کسی کے وزیر اعلی سیکرٹریٹ اور کسی کے پشاورمیں بیٹھے ہیں۔پولیس سمیت کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو سیاسی دستبرد سے محفوظ ہو ۔ 1992 میں جن پولیس افسروں نے کراچی میں کامیاب آپریشنز کیا تھا ان تمام کو قتل کرکے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔جناح پور کا نقشہ برآمد کرنے والے میجر(ر) ندیم ڈار کا بیان سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوگا کہ فوج میں ہونے کے باوجود ان کے دو بیٹوں کو زندہ جلا دیاگیا جبکہ ان کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں برابر مل رہی ہیں ۔یہ سب کون کررہا ہے اور کب سے کررہا ہے سب کو معلوم ہے لیکن کوئی بھی شخص موت کے ڈر سے زبان کھولنے کو تیار نہیں تھا۔ قرآن پاک سر پر رکھ کر ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے جرائم سے جس جرات سے پردہ اٹھایا ہے اس نے ایم کیو ایم کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے پہلی مرتبہ وہ اپنی صفائی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔کبھی وہ وقت بھی تھا جب ایم کیو ایم نے سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ 12 مئی کی سماعت نہیں ہونے دی تھی لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جرات کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے خود کراچی پہنچ کر نہ صرف کراچی کے حالات میں بہتری پیدا کی ہے بلکہ از خود نوٹس کی سماعت کے دوران حیران کن انکشافات منظر عام پر لا رہے ہیں ۔ آئی ایس آئی کی جانب سے دکھائی جانے والی قتل کی ویڈیو ز دیکھ کر ججوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے یہ آنسو ویسے تو نہیں آجاتے۔اب عدالت عظمی حکومت اور سیاسی جماعتوں سے یہ تحریری ضمانت مانگ رہی ہے کہ آئندہ حکومت سمیت کوئی بھی جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی نہیں کرے گااور یہ نوبت اس لیے آئی ہے کہ ماضی میں صرف حکومت قائم رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے جرائم پیشہ گروہوں کو تحفظ فراہم کیاجاتا رہا ہے ۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کراچی کو بچانے کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے مثبت اور موثر کوشش سامنے آئی ہے اور رینجرز کے جوانوں نے چیف جسٹس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کو نہ صرف گرفتار کیاہے بلکہ بے تحاشا اسلحہ بھی برآمد کیا ہے اب ہر محب وطن پاکستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کا منتظر ہے کیونکہ امید کی واحد کرن چیف جسٹس ہی رہ گئے ہیں ۔ اس کے برعکس حکومت کے تمام تر اقدامات صرف کاغذوں تک ہی محدود تھے اور روزانہ بے گناہوں انسان قتل ہوتے رہے ٬ اغوا ٬ بھتہ خوری عروج پر رہی ۔ کراچی کو بچانے کے لیے نہ صدر نے کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی وزیر اعظم نے ۔حکومت کی ناکامی صرف کراچی تک ہی محدود نہیں رہی۔معیشت تباہی کے دھانے پر ملک دیوالیہ پن کے قریب ٬ تمام سرکاری ادارے کرپشن کے گڑھ ٬ مہنگائی آسمانوں پر ٬ صنعت تجارت اور کاروبار تباہ ہو چکا ہے کوئی ایک شعبہ بھی ایسانہیں جس میں حکمران خود کو کامیاب قرار دے سکیں تو پھر بابر اعوان کیسے کہتے ہیں کہ حکومت ناکام نہیں ہوئی ۔ کیا یہ کامیابی ہے کہ اپنے ایک کروڑ ہم وطنوں کو سیلابی پانی میں ڈوبتا ہوا چھوڑ کر حکمران خود غیرملکی دورے پرکر رہے ہیں گویا انہیں نہ وطن سے کوئی لگاﺅ ہے اور نہ ہی ہم وطنوں کے مسائل سے کوئی غرض ۔حدیث نبوی ﷺ ہے کہ جب بدترین اور کرپٹ لوگ حاکم بن جائیں تو سیلاب ٬ زلزلے ٬ طوفانی بارشیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.