نفرت کے بیج

انسان جس سے نیکی اور احسان کرتا ہے ایک دن وہی نیکی اور احسان لوٹ کر نیکی کرنے والے کے پاس ضرور آتا ہے۔اسی لئے تمام مذاہب میں دوسروں پر نیکی اور احسان کا حکم ملتا ہے۔اسلام نے اس بات کی اتنی سختی سے تاکید کی کہ اس سے صوفیاء کا نیا مسلک وجود میں آ گیا ۔ صوفیاء کا بنیادی جوہر رنگ نسل اور مذہب سے بالا تر ہو کر تمام انسانوں سے محبت کرنا ہوتا ہے اسی لئے ان کے آستانوں پر انسانوں کے جمگھٹے لگے رہتے ہیں جو صوفیاء کے لنگر ز کی خاص پہچان بنتے ہیں۔ان لنگر خانوں میں مہقور و مجبور، بے بس،محروم اور بھوکے انسانوں کیلئے کھانے کا اہتمام کیا جا تا ہے اور یہ سلسلہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے بلکہ قرن ہا قرن سے یہ سلسلسہ جاری و ساری ہے۔کون اس کا اہتمام کرتا ہے اور یہ کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے آج تک کوئی اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔غالب نے تو کہا تھا( آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں) اسی طرح آستانوں کے پیرِ مغاں بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ جو مالکِ کائنات ہے یہ سب اسی کی نظر ِ ِ کرم کا شاخسانہ ہے۔ سیاستدان بھی عوامی خدمت کے داعی ہوتے ہیں لہذمحبت آستانوں کے گدی نشینوں سے ہو یا سیا ستدانوں سے ہو محبت بہر حال محبت ہی ہوتی ہے ۔مزاروں اور آستانوں کی محبت سے تو عوام بخوبی واقف ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں محبت کی سب سے بڑی مثال ذولفقار علی بھٹوکی وہ محبت ہے جو اس نے عوام کے ساتھ روا رکھی تھی لہذا عوام نے اس کی شہادت کے بعد بھی اس سے اپنی محبت کو زندہ رکھا ۔محبت کا جواب ایک ایسی دلپذیر محبت سے دیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدو جہد اپنی جگہ تاریخ ساز ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس جدو جہد کے پیچھے بھی ذولفقار علی بھٹو کی محبت کا شعلہ تھا جس نے عوام کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذات کے گرد مجتمع کررکھا تھا۔عوام نے اپنے قائد کی محبت میں تکالیف اٹھائیں ، زندانوں کی سختیوں کو سہا ،آمریت کے ہاتھوں اپنے کارو بار لٹائے لیکن اس محبت پر آنچ نہ آنے دی جو انھیں ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ تھی ۔ حالات کی ناؤ کسی بھی سمت بہتی رہے لیکن سچی محبت آخرِ کار اپنا خراج وصول کر کے رہتی ہے کیونکہ وفاؤں کو مات دینا ممکن نہیں ہوتا۔بقول ارسلان سراب ؔ۔( ہر شخص یہاں زنجیر بہ پا لگتا ہے ۔،۔جرم اس شہر کے لوگوں کا وفا لگتاہے)۔،۔

اس وقت پاکستانی سیاست ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جس میں تشدد کا عنصر انتہائی گہرا ہوتا جا رہا ہے۔جناح ہاؤس پر بلوائیوں کی یلغار ، جی ایچ کیو پر حملہ، پشاور ریڈیو سٹیشن کی ٹوڑ پھوڑ ، فوجی دفاتر پر دھشت گردی اور پھر قومی املاک کی تباہی ایسے مناظر ہیں جنھوں نے پاکستا کی عزت و وقار کو مٹی میں ملا دیا ہے۔پوری دنیا میں پاکستان دہشت گردی کی علامت بنا ہوا ہے۔عالمی طاقتوں کی اپنی ترجیحات اور پلاننگ ہے وہ پاکستان میں انتشار اور خانہ جنگی کے حوا ہاں ہیں کیونکہ انھیں پر امن پاکستان سوٹ نہیں کرتا۔انھیں جنوبی ایشیا میں بھارت کی چودھراہٹ کیلئے پاکستان میں انتشار کو ہوا دینے کیلئے مواقع کی تلاش ہے۔۹ مئی کے واقعات پر تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہے کیونکہ پاکستان اسی سمت میں چل پڑا ہے جس کا منصوبہ انھوں نے کئی سال قبل ترتیب دیاتھا ۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت انھیں اس بات پر اکسا رہی ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے درمیان دوریاں پیدا کریں اور اانھیں معاشی اور سیاسی جھمیلوں میں الجھا دیں۔آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ ہونے میں بھی یہی سوچ کار فرما ہے ۔پاکستان آئی ایم ایف سے چند ارب ڈالر ز کیلئے رسوا ہو رہا ہے لیکن کوئی پاکستان کو گھاس نہیں ڈال رہا ۔ ہر روز اسے ٹرک کی نئی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے جس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ۔معاشی بد حالی ہر روز پاکستان کو اپنی مٹھی میں بند کر رہی ہے جس سے بچ جانے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔معاشی بد حالی اور سیاسی بے چینی کوجان بوجھ کر تیز کیا جا رہا ہے تا کہ پاکستان ڈیفا لٹ کر جائے اور عالمی طاقتوں کی دلی مراد پوری ہو جائے۔سیاسی بے چینی کی یہ لہر یں کہاں جا کر رکیں گی اور ان لہروں سے پاکستان کا جو نقصان ہو رہا ہے سیاست کے شہسواراگر اس کاادراک نہیں کرپائیں گے توپاکستان کیلئے اپنی منزل کا حصول مشکل ہوجائیگا ۔،۔

سیاست کے نام پر گالم گلوچ کے جس کلچرکوہوا دی گئی تھی آج وہ شعلہ جوالہ بن کرپورے ملک کو اپنے شعلوں میں میں بھسم کرنے کیلئے بیتاب ہے ۔نفرت کی جس فصل کو پچھلے کئی سالوں سے کاشت کیا جا رہا تھا اس کا انجام یہی ہونا تھا۔ اس فصل کی کاشتکاری میں کون کون ملوث تھا اس کا فیصلہ ہونا بہت ضروری ہے۔کسی ایک انسان کو اقتدار میں لانے کیلئے جب کچھ قوتیں یکجا ہو جاتی ہیں تو پھر اسے اقتدار کی مسند تو نصیب ہو جاتی ہے لیکن نفرت کی وہ بیج جو ایسے انسانوں کے ہاتھوں بوئے جاتے ہیں ان کی تباہ کاری کا شائد انھیں اس وقت ادراک نہیں ہوتا۔فارسی کا معقولہ ہے (گندم از گندم جو از جو )۔یہ نا ممکن ہے کہ کوئی انسان گندم کے بیج زمین میں بوئے لیکن ان سے آم کے پیڑنکل آئیں۔ انسان جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔انسان کے ذاتی اعمال تو شائد افرادِ معاشرہ کو متاثر کرتے ہیں لیکن جب معاملہ قومی وحدت، اس کے استحکام اور اس کے وجود کا در پیش ہو تو پھر ایسے افعال اقوام کی تباہی کی بنیاد بن جاتے ہیں۔پاکستان میں بھی ایسے ہی ہوا ہے۔جسٹس منیر سے شروع ہونے والی کہانی کئی نازک موڑ مڑنے کے بعد اب اس مقام پرآ پہنچی ہے جہاں پر ریاست کی بقا پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ آئین و قانون کو جب من پسند فیصلوں اور قوت سے موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام کے دلوں میں پلنے والے نفرت انگیز جذبات اندر ہی اندر بغاوت کو جنم دینے لگ جاتے ہیں۔انھیں کسی مناسب وقت کی تلاش ہوتی ہے لہذا اس کا اظہاریہ بڑا بھیانک ہو تا ہے۔ ۹ مئی کو اس ملک میں جو کچھ ہوا اس کے اثرات کئی عشروں تک محسوس کئے جائیں گے ۔ ذاتی ا نا اور نفرت نے وہ گل کھلائے کہ سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔ریاست جب کسی کو کھلا میدان دے دیتی ہے کہ وہ جوچاہے کہتا رہے اور جو چاہے کرتا رہے اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی تو پھر وہی ہوتا ہے جو ۹ مئی کو ہوا۔جب اسٹیبلشمنٹ کسی سیاستدان کی پشت پر اپنا ہاتھ رکھ دیتی ہے تو پھر اس قائد کے سامنے کھڑا ہونا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔وہ ہوا کے دوش پر سوار ہر سو اپنی فتح کے جھنڈے گاڑتا چلا جاتا ہے۔اس کا بیانیہ عوام کا بیانیہ بن جاتا ہے کیونکہ بیانیہ کو ہوا دینے والے عناصر اس کی پشت پناہی کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے تو اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو تی ہے اور بیانیہ کی شدت پسند سوچ پر بند باندھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔۹ مئی شدت پسند بیانیہ کی قوت کا اظہار تھا جس نے ریاست کے خلاف علم بغا وت بلند کر دیا۔ آتشِ بغاوت، نفرت کے شعلے اور بدلے کی باوھنا کے آلاؤ اتنے بلند تھے جن میں تخلیقِ پاکستان کے سارے مناظر اور مقاصد آگ کی نظر ہو گے اور اہلِ وطن ہاتھ ملتے رہ گے ہیں۔وہ ما یوس اور دل گر فتہ ہیں۔ شہدا ء کی یادگاروں کو نذرِ آتش کرنے کے مناظر نے ان کے قلب و نظر سے دیکھنے سننے کی صلاھیت چھین لی ہے۔ کاش کوئی عوام کی دلجوئی کرے اور انھیں حوصلہ دے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا نہیں بلکہ جمہوریت کا راج ہو گا اور ا نسان دوستی کا چرچا ہو گا۔شدت پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے تا کہ آئیندہ کسی کو ر یاست کے خلاف گھناؤنی سازش کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.