جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر نذیر شہید کا خاندان
ہندوستان کے ضلع جالندھر کے مشہور گاؤں تیہنگ میں رہائش پذیر تھا۔حکومت کی
آبادکاری سکیم کے تحت1928 ء میں ضلع جالندھر سے ضلع ڈیرہ غازی خان کے مقام
فاضل پور منتقل ہوئے۔ ڈاکٹرشہید 13؍ فروری 1929ء کو اپنی ننھال انوکھرواں
تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔8 جون 1972 ء کی شام آٹھ بجے جب
وہ اپنے ہومیوپیتھک کلینک میں بیٹھے تھے کہ فسطائی حکمران کی ایما پر
گولیوں کی بوچھاڑ کر کے ان کو شہید کر دیا گیا۔
آپ نے لاہور سے ہومیو پیتھک کی تعلیم حاصل کی۔جماعت اسلامی کے بنیادی رکن
مولانا خان محمد ربانی کے ذریعے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔جماعت اسلامی
کے کل ہند اجتماع بمقام الہ آباد جو1946 ء کو منعقد ہو ا تھا اس میں شرکت
کی۔لاہور کے قیام کے دوران جماعت اسلامی کے مرکز دارالاسلام پٹھان کوٹ میں
تشریف لے گئے۔ وہاں چند قیام کیااورمولانا مودودیؒ سے ملاقاتیں کیں۔اپنے
والد صاحب سے کسی بات کے جواب میں کہا کہ میں نے اپنی زندگی کا مقصد اسلامی
نظام کے قیام منتخب کر لیا ہے۔بہار میں ہندو و مسلم فسادات میں مسلمانوں کا
کافی نقصان ہوا تھا۔ ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے صوبہ بہار گئے۔
چھ ماہ تک امدادی سر گرمیوں میں مصروف رہے۔10؍ مئی1947 ء کو جماعت اسلامی
کا کل ہند اجتماع منعقد ہوا جن کے انتظامات میں ڈاکٹر شہید شامل تھے۔
مولانا مودودیؒ نے ڈاکٹر شہید کو اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان کو اپنی دعوتی
سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی ہدایت کی۔جب 1947ء میں پاکستان بنا اور مہاجریں
ہجرت کر کے لٹے پٹے پناہ کے لیے ڈیرہ غازی خان پہنچے تو ان کی مدد کے لیے
میدان میں کود پڑے۔وہ امدادی کیمپ کے انچارج تھے۔ڈیرہ غازی خان کا علاقہ
تقریاًپونے تین سو میل لمبا اور بیس سے ساٹھ میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا
رقبہ دس ہزار مربع میل کے لگ بھگ ہے۔یہ علاقہ سرداروں اور جاگیرداروں پر
مشتمل ہے۔ڈاکٹر شہید نے 1947ء میں باقاعدہ سے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے
اس علاقہ میں دعوت و تحریک کا کام شروع کیا۔تبلیغ کا نقطہ آغاز اپنی ہومیو
پیتھک کلینک سے شروع کیا۔مہینے میں پندرہ دن کلینک پر بیٹھ کر کام کرتے ۔
پندرہ دن سائیکل پر سوار ہو کر ارد گرد کے دہیاتوں میں گھوم پھر کر اﷲ کے
بندوں تک اﷲ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ڈاکٹر شہید نے اس علاقہ میں جماعت اسلامی
کی تربیت گاہوں کا جال بچھا دیا تھا۔ علاقہ کے ہر دہیات میں جماعت اسلامی
کا نظم قائم کیا۔ 1958ء میں جب ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو جماعت اسلامی
کی دعوت کو روک دیا گیا۔دفاتر بند کر دیے گئے۔ پراپرٹیز پر قبضہ کر لیا
گیا۔ مگر جیسے ہی مارشل لاء ختم ہوا جماعت کے کارکن پہلے سے زیادہ جذبے سے
میدان میں آکر دعوت کا کام شروع کر دیا۔ڈاکٹر شہید علاقہ کے جا گیرداروں کے
ستائے ہوئے اور بے بس لوگوں کی زبان بن گئے۔ ان کی ہرطرح سے مدد کرنی شروع
کی۔ڈاکٹر شہید کو تنبیہات،ڈراوے اور دھمکیاں دیں گئیں ۔مگر ڈاکٹر شہید ثابت
قدم رہے۔ ایوب خان کے دور میں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے کی
مہم میں قید کر دیے گئے۔
ڈاکٹر شہید جماعت اسلامی کے ایک مثالی کارکن تھے۔ جماعت اسلامی کے دفتر کی
صفائی اورجھاڑو خود دیتے۔ میز کرسی کی صفائی بھی خود کرتے۔آپ تحریکی ذمہ
داریوں میں امیر شہر ڈیرہ غازی خان سے لے کر نائب امیر صوبہ پنجاب بھی
رہے۔1970ء میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انتخابا ب میں حصہ لیا۔ آپ ووٹوں کی
بھاری اکثریت سے حلقہ کے جاگیروار کو شکست دے کر ممبر پاکستان قومی اسمبلی
منتخب ہوئے۔ڈاکٹر نذیر شہید1971 ء میں مشرقی پاکستان بھی گئے۔ وہاں مختلف
شہروں میں بنگالی قومیت کے مکتی باہنی کے مقابلے میں جماعت اسلامی کی دعوت
پھیلائی۔اس کے بعد مغربی پاکستان کے کئی شہروں میں بھی جا کر جماعت اسلامی
کی دعوت پھیلانے میں مصروف رہے۔حکمرانوں کی غلطیوں پر ان کو ٹوکا۔مختلف
وقتوں میں ڈاکٹر شہید ۱۳؍ دفعہ جیل میں ڈالے گئے۔ ۸ دفعہ ان پر پابندی
لگائی گئی۔ڈاکٹر شہید نے خود فرمایا تھا کہ مجھے پنجاب کے گورنرغلام مصطفی
کھر کے قریبی ذریعے معلوم ہوا کہ بھٹوحکومت نے انہیں شہید کرنے کا پروگرام
بنا لیا ہے۔ یہی وجہ تھی کے بلا آخر فسطائی حکمران بھٹو کی ایما پر ۸ جون
۱۹۷۲ء کی شام جب وہ اپنے ہومیو پیتھ کلینک میں بیٹھے تھے کہ دو لڑکوں نے
گولیاں چلا کر ڈاکٹر کو شہید کر دیا گیا۔
|