پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب 2٭
|
|
|
لیاقت علی خان،محمد علی جناح،ماؤنٹ بیٹن |
|
وزیر ِاعظم لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء) تحقیق وتحریر:عارف جمیل
عبوری ِحکومت میں وزیر ِخزانہ٭ قسط سوئم٭
محمدعلی جناح کے بعد مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت علی خان کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہو چکی تھی اس لیئے کانگرس کے ایک نمائندے بھولا بھائی ڈیسائی سے مسلم لیگ اور کانگرس کے باہمی اختلافات ختم کرنے کیلئے تبادلہ خیال کیا اور اس سلسلے میں بعض تجاویز کے حوالے سے ایک معاہدہ تہہ پا گیا جس کے تحت مرکز میں ایک عارضی حکومت کے قیام کیلئے کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کی شرکت ہم آہنگی سے قرار پائی تاکہ معاہدے کے تجاویز پر مستقبل میں عمل ہو سکے۔ بھولا بھائی ڈیسائی نے اس معاہدے کی ایک کاربن کاپی برائے ملاحظہ لیاقت علی خان کو دے دی۔ لیاقت علی خان اس معاہدے کے بعد دیگر ضروری امور میں مصروف ہو گئے۔ جبکہ بھولا بھائی ڈیسائی نے اُس معاہدے کو" ڈیسائی لیاقت پیکٹ" کے نام سے مشہور کر دیا۔ یہ معاہدہ اُس وقت دو اشخاص کی بات چیت سے زیادہ کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا لیکن ہندو پریس نے اسکے خوب چرچے کیئے۔ اُن دنوں محمد علی جناح بیماری کے باعث ملیر میں تھے۔ جبکہ مسلم لیگ کے نمائندوں نے اس معاہدے لاتعلقی کا اظہار کو دیا۔ اسے مسلمانوں میں کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہونے لگیں۔ جس پر لیاقت علی خان نے بھی تردید کی کہ اس معاہدے کی ابھی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ابھی تو یہ معاہدہ مسلم لیگ اور اسکے صدر کے سامنے پیش ہی نہیں ہوا۔ تاہم اسے انکار نہ کیا جا سکا کہ اس معاہدے کو کانگرس کی بھر پور تائید حاصل تھی اور کانگرس نے اس معاہدے کی شرائط سے وائسرائے ہند لارڈویول کو بھی باخبر رکھنے کی کوشش کی تھی جس سے مسلم لیگ کونسل نے وقتی طور پر تو نظر انداز کر دیا لیکن اس غیر سیاسی معاہدے نے ہندوستان کی حکومت پر یہ ضرور ظاہر کر دیا کہ اب کانگرس بھی عبوری حکومت کے قیام میں مسلمان کی شرکت ضروری سمجھتی ہے۔ 25 ِجون1945ء کو وائسرائے لارڈویول کی طرف سے شملہ میں بلائی جانے والی کانفرنس کو مسلمانوں کی تحریکِ آزاد ی میں بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ کیونکہ اس کانفرنس میں جب کسی پہلو پر بھی ہندوستان کے نمائندوں میں اتفاق نہ پایا گیا تو کانفرنس تو ناکام ہو گئی۔ لیکن مسلم لیگ کے وفد جس میں محمد علی جناح کے ساتھ لیاقت علی خان بھی شامل تھے کو اس بات کی یقین گیا کہ حکومتِ برطانیہ نے بھی اب مسلمانوں کی حکومت میں نمائندگی تسلیم کر لی ہے۔ بہرحال اس کانفرنس کی ناکامی کی بنا پر وائسرائےِ ہند لارڈویول نے اعلان کر دیا کہ آنے والی سردیوں میں ہندوستان میں مرکزی و صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہونگے۔ اس اعلان کے بعد لیاقت علی خان پر بحیثیت جنرل سیکرٹری مسلم لیگ ذمہ داری بڑھ گئی۔ لہذا اُنھوں نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور پھر مسلم لیگ نے ان انتخابات میں شاندار کامیابی بھی حاصل کی۔ انتخابات کے بعد حکومتِ برطانیہ کی طرف سے کیبنٹ مشن آیا اور اُس نے فی الوقت ہندوستان میں ایک عبوری حکومت کی تجویز پیش کی جس کو کچھ جرح اور کچھ شرائط کے ساتھ مسلم لیگ اور کانگرس نے قبول کر لیا۔ لیکن کانگرس کا دل صاف نہیں تھا۔ اُدھر برطانوی پارلیمنٹ میں مشن کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ حکومت مسلم لیگ کے نقطہِ نظر کی مکمل تائید نہیں کرتی۔ ان حالا ت میں محمد علی جناح نے عبوری حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور "راست اقدام" کا فیصلہ کر لیا۔ جب اس سلسلے میں مسلم لیگیوں نے حکومت ِ برطانیہ کے دیئے ہوئے خطابات واپس کرنے کا فیصلہ کر لیا تو لیاقت علی خان نے بھی نواب کا خطاب واپس کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں اُنھیں لیاقت علی خان لکھا اور پُکارا جائے اور اگر کوئی اضافی لفظ استعمال کرنا ہی ہو تو اسکے لیئے مسٹر(صاحب) بہتر رہے گا۔ حکومتِ ہند نے ان حالات میں ایک دفعہ پھر مسلم لیگ اور کانگرس کے رہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کیں جس پر پہلے کانگرس اور تقریباً چھ ہفتوں بعد مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت منظور کر لیا۔ محمد علی جناح نے عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت علی خان کو لیڈر منتخب لیا اور جب کانگرس نے دفاع، امورِ خارجہ اور امورِ داخلہ جیسے شعبے اپنے پاس رکھ لیئے تو محمد علی جناح نے غلام محمد اور چوہدری محمد علی کے مشورے سے لیاقت علی خان کو وزیرِ خزانہ کا عہدہ قبول کرنے کیلئے کہا۔ یہ وزارت حاصل کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے ذریعے ہر دوسری وزارت میں دخل اندازی کا موقع مل گیا۔لہذا مسلم لیگ کی طرف سے وزیر ِخزانہ لیاقت علی خان نے عبوری حکومت کی کابینہ کی طرف سے ہندوستان کا آخری تاریخی بجٹ 1947-48ء 28 ِ فروری 1947ء کو جب اسمبلی میں پیش کیاتو یہ بجٹ ایک ہندوستانی نمائندے کی طرف سے پہلی دفعہ پیش ہونے پر "عوامی بجٹ" کہلایا۔ بجٹ کو اتنے بہترین طریقے سے بنایا گیا تھا کہ اسکی تجاویز کو کانگرس کے کئی وزیر اور خود نہرو نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ جبکہ اس بجٹ نے ہندوؤں کے کاروباری طبقے اور کانگرسی سیٹھوں کے دماغ ٹھکانے لگا دیئے۔ اس بجٹ کی وجہ سے اُنکی کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری بند ہو گئی اور ناجائز منافعوں اور اجارہ داریوں پر زبردست چوٹ پڑی۔ سردار پٹیل جیسے متعصب ہندو رہنماء نے اس بجٹ کو مسلم لیگ کی طرف سے ہندوؤں کے خلاف سازش قرار دیا۔ خود کانگرسی رہنماؤں کو بھی عملاً اندازہ ہو گیا کہ ایک متحدہ ہندوستان میں اب وہ مسلم لیگ کے ساتھ نہ چل سکیں گے۔ اب اُن کو افسوس ہو رہا تھا کہ جس وزارت کو وہ اہمیت نہیں دے رہے تھے وہی وزارت مسلم لیگ کیلئے قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔ بلکہ جس وقت دائسرائے ِ ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم کو ہی بہتر حل قرار دیا تو سردار پٹیل نے اس کو فور اً تسلیم کر لیا۔ لیاقت علی خان نے اس دوران وائسرائے ِ ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہا کہ ہندوستانی افواج میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ نہیں ہے۔ اس لیئے تقسیمِ ہندوستان کے بعد ہندوستان کی حکومت و افواج کو تمام اسلحہ مِل جائے گا اور پاکستان تو ایک طرح سے دیوالیہ ہو جائے گا۔ اس لیئے اُ نھوں نے تجویز پیش کی کہ افواج کو اس وقت علحیدہ کیا جائے جب دونوں ملکوں کی تقسیم مکمل ہو جائے، لیکن اُ نکی اس تجویز پر حکومتِ ہند نے توجہ نہ دی اور دوسری طرف ہندوؤں نے اپنے مفادات اور مالیات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ِہند سے ساز باز شروع کر دیا۔ بہرحال 3 ِ جون 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے پیش کیا گیا تقسم ِ ہند کا منصوبہ ہندوستان کے رہنماؤں نے منظو ر کر لیااور حکو متِ برطانیہ کی طرف سے ایک "پارٹیشن کمیٹی" قائم کر دی گئی۔جسکے صدر لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود بنے۔ مسلم لیگ کی طرف سے اس کمیٹی میں لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر شامل ہوئے۔جب صوبوں نے تقسیم کا فیصلہ منظور کر لیا تو یہ کمیٹی "پارٹیشن کونسل" بن گئی اور اس میں محمد علی جناح کے ساتھ ایک دفعہ پھر لیاقت علی خان ہی شامل ہوئے اور آخر کار محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمان 14ِ ِاگست 1947ء کو ایک نئی آزاد اسلامی مملکت پاکستان کے باعزت شہری بن گئے۔ ٭(جاری ہے)٭ |