پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب 2٭ |
|
|
لیاقت علی خان امریکہ کے صدر ٹرومین بھارت کے وزیرِ اعظم نہرو |
|
وزیر ِاعظم لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء) تحقیق وتحریر:عارف جمیل
وزیر ِاعظم پاکستان | داخلی و خارجی معاملات٭ قسط چہارم٭
محمد علی جناح آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم بنے۔ لیاقت علی خان اپنے تمام خاندان کے افراد کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور اسکے لیئے اُنھوں نے ہندوستان میں اپنی جاگیر کی بھی پرواہ نہ کی۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے نئے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے مل کر کام شروع کیا۔ سب سے پہلے تو اُنھوں نے تمام ملازمین اور عہدیداروں کیلئے یہ اُنکی مرضی پر چھوڑ دیا کہ وہ دونوں ممالک میں سے جس میں چاہیں چلے جائیں اور کام کریں۔ اس طرح ہجرت کا ایک عظیم ا لشان سلسلہ شروع ہوگیا۔ ملک پاکستان کیلئے ایک نئے جھنڈے کی ضرورت تھی اُس کیلئے ایک کمیٹی لیاقت علی خان کی سربراہی میں بنا ئی گئی۔ جس نے محمد علی جناح کو نئے جھنڈے کی منظوری کیلئے کافی ڈئزائن دِکھائے اور بعدازاں جو ڈائزائن منظور ہوا اُس کو جب وزیر ِاعظم لیاقت علی خان نے ہی اراکین اسمبلی کے سامنے پہلی دفعہ لہرایا تو ہال میں موجود تمام حاضرین نے نعرہ ِ ہائے تحسین بلند کیا۔ ہندوستان کی تقسیم میں ہندوستان کی حکو مت کو تو بہت کچھ رواں دواں مل گیا تھا لیکن دُنیا کے اس نواز ئیدہ اسلامی ملک پاکستان میں اُن دنوں مسائل کا انبار لگتا جارہا تھا۔ جن میں ریڈکلف ایوارڈ میں زیادتی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کا قتل، مہاجرین کی بے یارومدگار پاکستان میں آمد اور کشمیر پر ہندوؤں کا قبضہ سب سے اہم مسائل تھے۔ لیاقت علی خان ابھی محمد علی جناح کے زیرِ پرستی ان مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں ہی تھے کہ 11ِستمبر 1948ء کو محمد علی جناح سارا بوجھ لیاقت علی خان کے کندھوں پر ڈال کر ابدی نیند سو گئے۔اُنکی جگہ گورنر جنرل پاکستان کا عہدہ خواجہ ناظم الدین نے سنبھالا۔ پاکستان کی معیشت 1949 ء تک کسی حد تک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی تھی۔ اس ملک کا پہلا بجٹ بچت کا تھا۔ پہلے ہی سال بیرونی تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ثابت ہوا جسکی وجہ سے بیرونی منڈیوں میں پاکستان کی خام اجناس کی مانگ اور قیمتیں کوریا کی جنگ کے باعث بڑھ گئی تھیں۔ اس دوران ستمبر 1949ء میں برطانیہ نے اپنے سِکے کی قیمت میں ایک تہائی کی کمی کر دی۔ جسکی وجہ سے بھارت کو بھی برطانیہ کی پیروی کرنی پڑی۔ اس کے بغیر بھارت کی بیرونی تجارت میں توازن قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ بہرحال پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے پاکستان کے وزیرِ خزانہ غلام محمد کے مشورے سے پاکستانی سِکے کی قیمت کم نہ کرنے کا فیصلہ کر لیاجس پر بھارت نے پاکستان کو کوئلے کی فراہمی اور فروخت روک دی۔ اس پر لیاقت علی خان نے وزیرِ خزانہ غلام محمد کے مشورے سے جواباً بھارت کو روئی اور پٹ سن کی فراہمی روک دی۔اس پر عالمی بنک نے پاکستان کے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر پاکستان کو اپنے سِکے کی سابقہ قیمت بر قرار رکھنے کی تائید کر دی۔ اس کے بعد بھارت نے بھی پاکستان کے سِکے کی اہمیت اور قیمت کو تسلیم کر لیا۔ ہندوستان نے جن دنوں پاکستان کو کوئلے کی فراہمی روک رکھی تھی پاکستان ریلوے کیلئے ایک مسئلہ بنا ہوا تھا کیونکہ ریل کے انجن کوئلے سے چلتے تھے۔ لیاقت علی خان نے اس کا فوری حل یہ تلاش کیا کہ تمام انجنوں کو ڈئزل تیل سے چلنے والے انجنوں میں تبدیل کروا دیا اور اسطرح پاکستانی ریل گاڑیاں بھارتی کوئلے کی محتاجی سے آزاد ہو گئیں۔ لیاقت علی خان نے پاکستان کی معاشی ترقی میں اضافے کیلئے ملک میں کپڑے اور پٹ سن کے کارخانے قائم کیئے اور ملک کی صنعتی اور زراعتی ترقی کیلئے وزارتِ خزانہ سے بہترین منصوبے بنوائے۔ لیاقت علی خان کے پاس آغاز میں وزارتِ اعظمٰی و دفاع کے علاوہ چند ماہ وزارت ِ دولت مشترکہ اور امورِ خارجہ کے قلمدان بھی رہے۔ پاکستان کے دفاع کے معاملے میں اُنھوں نے پاکستان کی بری، بحری اور ہوائی فوج کی تنظیم بہت اعلیٰ طریقے سے مکمل کروائی۔ اُنکی دفاع کے شعبے میں بہترین حکمتِ عملی کے باعث17 ِجنوری1951 ء کو پاکستانی افواج کے پہلے پاکستانی کمانڈرانچیف مقرر ہوئے جن کا نام ایوب خان تھا ورنہ شروع سے یہ عہدہ انگریز فوجیوں کے سُپرد تھا(یعنی پہلے جنرل سر فرنک میسروی اور دوسرے جنرل سر ڈگلس گریسی)۔ لیاقت علی خان نے مشرقی پاکستان کے افراد کو بھی پاکستان کی افواج میں شامل کرنے کی حکمتِ عملی واضح کی اور اُن بنگالی نمائندوں کی سخت مخالفت کی جو اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کے دفاع کیلئے خالص بنگالی افراد کی فوج ہونی چاہیے۔ لیاقت علی خان نے محمد علی جناح کی اُس خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی جس کا کہ محمد علی جناح کو اپنی زندگی میں موقع نہ مل سکا تھا۔ محمد علی جناح کی خارجہ پالیسی دو سیدھے سادے رُحجانات پر مبنی تھی: ایک یہ کہ دُنیا کے مسلم ممالک کے ساتھ اخُوت کے رشتے اور باہمی تعاون کی بنیاد جلد سے جلد مضبوط کیا جائے اور دوسرا یہ کہ کمیونزم اور کمیونسٹ ممالک کے مقابلے میں مغربی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ لیاقت علی خان نے ان ہی رحجانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 1950ء کے اوائل میں روس کے وزیراعظم کی طرف سے روس کے دورے کی دعوت پہلے ملنے کے باوجود امریکہ کے صدر کی طرف سے امریکہ کے دورے کی دعوت قبول کر کے بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ہمراہ 29ِاپریل 1950ء کو برطانیہ اور امریکہ کے دورے پر چلے گئے۔ لندن سے اُنھیں امریکہ کے صدر ٹرومین نے ذاتی طیارے انڈی پنڈ نس کے ذریعے واشنگٹن تک سفر کرنے کا اعزاز دیا۔ امریکہ کا دورہ تقریباً دو ماہ کا تھا جس سے پاکستان کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہوئے۔اس دورے کے دوران اُنھیں کولمبیا یونیورسٹی نے ڈاکٹرآف لاز کی ڈگری بھی دی۔ اُدھر لیاقت علی خان کا امریکہ کے دورے کو روس کے دورے پر اولیت دینے کے باعث روس کی خارجہ پالیسی کا رُخ پاکستان کیلئے کچھ خاص دوستانہ نہ رہا۔ اس پر پاکستان کے افراد نے بھی اُن پر تنقید کی جو آج تک جاری ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ امریکہ کے دورے کے اثرات اپنے آزاد ملک کو اُنکی جھولی میں ڈالنا تھا۔لیکن یہ بات زیادہ غور طلب تھی کہ کیا اگر لیاقت علی خان اُس وقت روس چلے جاتے تو پاکستان کے مذہبی رہنما و عوام اس کو قبول کر لیتے؟ کیونکہ وہاں کا نظام اُس وقت کمیونزم اور سوشلزم پر مبنی تھااور یہ ملک اسلام کے نام پر آزاد ہوا تھا۔(اسکا ثبوت 70 ء کی دہائی میں اُس وقت ملتا ہے جب " سوشلزم ہماری معیشت ہے" کا نعرہ لگا تو اُس پر بھی اگلے کئی سال تنقید ہوتی رہی)۔ ٰؒ لیاقت علی خان نے اسلامی ممالک سے بھی بہتر تعلقات کیلئے مصر، عراق اور ایران کے دورے کیئے اور ایران کے سربراہ بھی پاکستان آئے۔ 20ِ مارچ 1950ء میں جب ایران میں تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تو برطانیہ نے احتجاج کیا لیکن پاکستان کی حکومت نے ایران سے برطانیہ کی ناراضگی کے باوجود ایران ہی کی حمایت کی۔ انڈونیشیا کی آزادی کے سلسلے میں بھی پاکستان نے اُنکی بھر پور حما یت کی۔ اسطرح لیاقت علی خان نے خارجہ معاملات میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیئے رکھا۔ پاکستانی قوم ابھی قائد ِاعظم کی وفات کے صدمے کو برداشت بھی نہ کر پائی تھی کہ 13ِستمبر 1948ء کو ہندوستانی افواج نے حیدرآبا د دکن کی اسلامی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ ان حالات میں اُنھوں نے ملک کے سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقات کر کے اُن کو یقین دِلوایا کہ پاکستانی افواج کسی بھی قسم کی جارحیت کیلئے چوکنا ہے اور وقت آنے پر فتح کے جھنڈے گاڑ دے گی۔ اس کے بعد لیاقت علی خان اکتوبر 1948ء کو دولت ِ مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے لندن چلے گئے۔جہاں تلخ حقائق پر آواز اُٹھانے کے علاوہ مستقبل میں دولت ِ مشترکہ کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ اسطرح لیاقت علی خان کی قیادت میں پاکستان نے رفتہ رفتہ اپنا وجود سنبھالنا شروع کر دیا۔ کشمیر پر تو قبضہ ہندوستان نے محمد علی جناح کی زندگی میں ہی کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں کشمیر کے محاذ پر دونوں ممالک کے درمیان شدید قسم کی چھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران لیاقت علی خان کا اقوامِ متحدہ جس کا ممبر پاکستان 30ِستمبر 1947ء میں بن چکا تھا کے ادارے سلامتی کونسل میں کشمیر کی قرار داد اور ا س کے علاوہ دونوں ممالک میں کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے اقوامِ متحدہ کی کاوشوں سے ایک معاہدہ پر اتفاق کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے باشندو ں کے استصوابِ را ئے کے عین مطابق ہوگا اہم کامیابیں تھیں۔ لیکن جب سال کے اندر ہی اندر ہندوستان کا رویہ ایک دفعہ پھر کشمیر کے بارے میں تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا تو لیاقت علی خان نے 1950ء کے شروع میں دولتِ مشترکہ کے وزرائے اعظم کے اجلاس میں شامل ہو نے کی یہ شرط رکھ دی کہ اس اجلاس میں کشمیر کا ذکر ہوگا۔ پہلے تو کانفرنس کے شرکاء نے اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا لیکن بعد میں شرط مان لی اور اجلاس کے دوران دونوں ممالک کے سامنے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے تجاویز بھی پیش کیں لیکن ہندوستان کے وزیرِ اعظم نہرو نے کسی بھی تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لیاقت علی خان نے اس موقع پر بڑی احتیاط اور سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے نہرو کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ لیکن نہرو نے پاکستان آنے کی بجائے اُنھیں ہندوستان آنے کی دعوت دے دی۔ جس پر لیاقت علی خان پنڈت نہرو کے ساتھ مذاکرات کیلئے دہلی چلے گئے اور وہاں گفت و شنید کے بعد اقلیتوں کے حقوق کیلئے ایک معاہدہ لیاقت نہرو معاہدہ کی شکل میں نموار ہوا۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک دونوں ممالک میں سکون رہا لیکن جب 15 ِجولائی1951ء کو لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ بھارت نے پاکستانی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کر دی ہیں تو پورے ملک میں ایک بے چینی پھیل گئی۔ لیاقت علی خان نے اُنہی دِنوں کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنا مُکا بلند کر کے کہا کہ حملہ آور کے لیئے پاکستان کا مُکا تیار ہے۔ لیاقت علی خان کا مُکا اس وقت وقتی طور پر ایک قومی نعرہ بن گیا اور قوم نے بھارت کے برے عزائم پر ایسا احتجاج کیا کہ بھارت نے گھبرا کر اپنی افواج کو واپس اپنی پُرانی جگہوں پر تعینات کر دیا۔ ٭(جاری ہے)٭
|