دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام

پاکستان میں ایک شخصیت ایسی بھی تھی جو صدا کار‘ اداکار‘ نیوز ریڈر‘ دانش ور‘ شاعر‘ ادیب‘ پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر‘ کمپیئر‘ کمنٹیٹر‘ سیاست دان اور ایم این اے کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ ان کا ایک جملہ ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو میرا سلام پہنچے‘‘ اب بھی ذہنو ں میں گونجتا ہے۔ اس ہردلعزیز شخص کا نام ’’طارق عزیز‘‘ تھا۔وہ 6 مارچ 1938ء کو جالندھر کے نواحی قصبے "چوگٹی" میں پیدا ہوئے ۔ انکے والد کا نام عبدالعزیز آرائیں تھا، انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ عبدالعزیز پاکستانی لکھنا شروع کردیا۔تو انگریز سرکار کو آگ لگ گئی ۔دفتر میں طلبی ہوئی کہ تم تاج برطانیہ کے ملازم ہوتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ پاکستانی نہیں لکھ سکتے ۔جب بات حد سے بڑھ گئی تو عبدالعزیز پاکستانی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی دفتری فائل انگریز افسر کے منہ پر دے ماری اور اس کی پاداش میں انہیں سرکاری نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن انہوں نے اپنا نام عبدالعزیز پاکستانی ہی رکھا ۔پھر یہ خاندان تین کپڑوں میں ہجرت کرکے پاکستان پہنچا توچند دن لاہور میں گزار کر ان کا خاندان منٹگمری چلا گیا، جہاں انہیں چک نمبر L-9/142 میں کچھ زمین الاٹ ہوئی۔ طارق عزیز نے تعلیم منٹگمری ہائی سکول اور گورنمنٹ کالج منٹگمری سے حاصل کی۔ پہلے سال ہی سے آپ کوکالج میگزین ’’ساہیوال‘‘ کا سب ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ فورتھ ایئر تک آپ کئی ٹرافیاں اور سر ٹیفکیٹ حاصل کر چکے تھے ۔یہ بھی حیران کن بات ہے کہ انہیں کورس کی کتابیں اچھی نہ لگتی تھیں۔ لیکن دنیا بھر کی کتابیں پڑھنے کا انہیں جنون کی حد تک شوق تھا۔ فورتھ ایئر میں تعلیم کو خیرباد کہہ کر وہ لاہور چلے آئے اور ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔1961ء میں اس خاندان پر قیامت گزر گئی کہ انہیں جو زمین الاٹ کی گئی تھی وہ سیاسی مخالفت کی بناپر حکومت نے ضبط کرلی ،جس سے انکے والد کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ علیل ہوگئے ۔انہیں علاج کے لیے ایبٹ آباد لے جایاگیا ،وہیں ان کا انتقال ہوا۔طارق عزیز والد کی وفات کے بعد راولپنڈی آگئے ،جہاں انہیں پانچ روپے روزانہ پر ریڈیو اناؤنسر کی پہلی نوکری مل گئی۔کچھ ہی عرصے بعد آپ راولپنڈی کو خیرباد کہہ کر ریڈیو پاکستان کے لاہور سنٹر میں چلے آئے ۔ ریڈیو ملازمت کے ساتھ ساتھ آپ نے امروز اخبار میں کالم بھی لکھنا شروع کر دیئے۔1964ء میں جب پی ٹی وی لاہور سنٹر کی نشریات کا آغاز ہو ا تو پانچ سو روپے ماہوار پر انہیں پہلے نیوز کاسٹر اور پہلے اناؤنسر کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔غالباً یہ 1965ء کا واقعہ ہے۔ جب شباب کیرانوی نے طارق عزیز کو اپنی فلم میں ’’انسانیت‘‘ میں کام کرنے موقع فراہم کیا۔۔آپ نے کل25 فلموں میں اداکاری کی پھر فلم انڈسٹری سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گئے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے لیکن جب بھٹو نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کی تو انہوں نے اختلاف کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ایک تقریب میں شرکت کی بنا پر آپ میاں نواز شریف کے قریب آگئے ۔ نواز شریف نے نہ صرف ا نہیں مسلم لیگ ن میں شامل کرلیا بلکہ وہ پارٹی ٹکٹ پر ممبر نیشنل اسمبلی منتخب بھی ہوگئے ۔ 1975ء میں نیلام گھر کا پہلا پروگرام شروع کیا گیا۔ اس کے بعد اس کو طارق عزیز شو ، بعد میں بزم طارق عزیز کے نام سے پیش کیا جا تا رہا ۔ یہ پروگرام تین مرتبہ بند کیا گیا ۔اس کے باوجود 32 سال تک یہ پروگرام نشر ہوتا رہا ۔ یہ پاکستان کا واحد پروگرام تھاجو لاہور‘ کراچی‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ اسلام آباد اور فیصل آباد کے علاوہ کئی ممالک سے بھی پیش کیا جاتا رہا۔ جن میں دبئی‘ شارجہ‘ ابو ظہبی‘ عمان‘ بنگلہ دیش‘ امریکہ‘ جاپان اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔اگر یہ پروگرام درمیان میں بند نہ ہوتا تو 37 سال تک مسلسل چلنے کی وجہ سے یہ پروگرام ورلڈ ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہو جاتا۔ایک انٹرویو میں آپ نے بتایا کہ 1996ء میں ایک انڈین ٹی وی چینل نے انہیں لندن بلایا اور اپنے پروگرام کی کمپیئرنگ کرنے کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا ’’سکرپٹ میں خود لکھوں گا۔‘‘ وہ نہ مانے تو آپ نے انکار کر دیا کیونکہ آپ کوئی ایسا پروگرام نہیں کرنا چاہتے تھے جس میں نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ وطن پرستی کی یہ اعلی ترین مثال تھی ۔طارق عزیز نے اپنی زندگی میں دو کتابیں لکھیں۔ پہلی کتاب پنجابی شاعری پر مشتمل تھی جس کا نام ’’ہم زاد دا دکھ‘‘ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1980ء کو شائع ہوا ۔ اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دوسری کتاب ’’داستان‘‘ ہے جس میں ان کے سیاسی مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1996ء میں شائع ہوا تھا۔ اپنے آخری ایام میں وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے، جس کا نام ’’فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ ہاؤس تک‘‘ تھا۔ان کی سوانح عمری پایہ تکمیل تک پہنچی کہ نہیں ۔اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔طارق عزیز کو سیاسی ،سماجی،فلمی ،ادبی اور سپورٹس کی مشہور شخصیات کے انٹرویو کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا ۔ یوں تو انہیں بیشمار اعزاز اور ایوارڈ مل چکے تھے لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے بھی انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ۔وہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام کہہ کر اپنے پروگرام کا آغازکیا کرتے تھے جبکہ پروگرام کے اختتام پر پاکستان پائندہ باد کا نعرہ لگانا نہ بھولتے ۔طارق عزیز کچھ عرصہ سے علیل تھے، طبیعت زیادہ خراب ہونے کی بناپر آپ 17جون2020ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ مرنے سے پہلے طارق عزیز نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ چونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں ،اس لئے وہ اپنے تمام ا ثاثے و املاک (جن کی مالیت 4 کروڑ 41 لاکھ روپے تھی) پاکستان کے نام کرتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ طارق عزیز نے ٹی وی کمپیئرنگ کے فن میں نئی جہت متعارف کرائیں۔ بلکہ نیلام گھر پروگرام کے ذریعے کئی نسلوں کو اپنی ثقافت اور ادب سے روشناس کرایا، ملک میں آرٹ، ثقافت اور ٹیلیویژن کیلئے ان کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔طارق عزیز تو دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہمارے کان اور آنکھیں ان کے اس فقرے کو" دیکھتی آنکھیں سنتے کانوں کا میرا سلام" کوایک بار پھر سننے کے لیے ترستے رہیں گے۔بیٹا ہو تو طارق عزیز جیسا کہ اپنی ساری جائیداد ،ریاست کے نام کرگیا۔ کاش اس دھرتی سے فیضیاب ہونے والے سارے لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کریں ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.