بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ روز امریکا کے دورے
کیلئے پہنچے جس سے قبل امریکی کانگریس کے نمائندگان اپنے صدر جو بائیڈن سے
بھارتی وزیر اعظم کے سامنے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھانے کیلئے خط لکھ چکے
تھے جس میں اہم مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
امریکا چین کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کیلئے وہ بھارت کو
مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہوئے اس کے ساتھ پانچ مختلف دفاعی نوعیت کے معاہدے
کرچکا ہے ۔
امریکا اپنے اتحادی ممالک، بالخصوص بھارت کے ساتھ مل کر بنیادی طور پر چین
کے خلاف محاذ آرائی کا خواہاں ہے ، جن پانچ معاہدوں کا اوپر ذکر آیا،
بنیادی طور پر یہ ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ کی جنرل سیکیورٹی ہے جبکہ بہت
کم ممالک کے پاس اس قسم کی ٹیکنالوجی تک رسائی ہے اور امریکا کی طرف سے کم
ہی ممالک کو اس قسم کی سہولیات دی جاتی ہیں۔
تمام معاہدوں کا مقصد بھارت کو انڈوپیسفک میں اس کے کردار کی اعلیٰ ذمہ
داری دینا یعنی چین کے سامنے لاکھڑا کرنا ہے۔ اگر یہ پانچ معاہدے دیکھ لیے
جائیں تو ہمیں علم ہوجائے گا کہ بھار ت کو دیگر ممالک کے مقابلے میں مضبوط
سے مضبوط ترکیا جارہا ہے۔
اگرچہ بھارت کو اس کی قیمت فوجی معاہدے سے چکانی پڑ رہی ہے تاہم بھارت
امریکا کے ساتھ لاجسٹک ایکسچینج کا بھی معاہدہ کرچکا ہے۔ ایک اور معاہدہ
کمیونیکیشن اور انفارمیشن سکیورٹی کا بھی ہے، جس کا مطلب ہے کہ امریکا
اوربھارت آپس میں اشتراک کرسکتے ہیں۔
امریکا اپنی بیشتر ٹیکنالوجیز کی معلومات شیئر کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے
کہ پاکستانی اور چینی عسکری تعیناتیوں اور سازو سامان کی درست جگہ کی
نشاندہی اور جنگ کی صورت میں اسے نشانہ بنانے کیلئے ان معلومات کا عسکری
استعمال کرسکے۔ ہاں بنیادی طور پر امریکا کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر
رسوخ کو محدود کرنا ہے۔
بلاشبہ امریکا پاکستان کی امداد نہ ہونے کے برابر کر رہا ہے اور بھارت کو
مضبوط کیا جارہا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ بنیادی طور پرپاکستان کے نہیں، بلکہ
چین کے خلاف ہے، جبکہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، انسانی حقوق
کی سنگین خلاف ورزیاں اور بد ترین جبر و تشدد کے واقعات اس کے دنیا کی سب
سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کا منہ چڑا رہے ہیں۔
مئی کے دوران مذہبی آزادی کے بارے میں ایک سالانہ رپورٹ میں امریکہ نے
تشویش کا اظہار کیا اور امریکی کمیشن نے اپنے محکمۂ خارجہ سے مطالبہ کیا
کہ بھارت کو خاص تشویش والے ملک کے طور پر نامزد کرے۔
کانگریس کے 75 ممبران جن میں سے 18 سینیٹرز اور 57 ایوانِ نمائندگان کے
ممبران پہلے ہی اس خط پر دستخط کرچکے ہیں جس کا ہم نے اس مضمون کے ابتدائی
پیراگراف میں ذکر کیا ہے، تاہم اس خط کے باوجود امریکا اور بھارت کے تعلقات
متاثر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ امریکا اور بھارت کے مابین اسٹرٹیجک تعلقات
جوں کے توں رہیں گے، کیونکہ امریکا ہر قیمت پر چین کا اس خطے اور دنیا بھر
میں اثر و رسوخ کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
راقم الحروف کو یقین ہے کہ جو بائیڈن کی کانگریس کے ساتھ اور دیگر ملاقاتوں
میں نہایت ڈپلومیسی کے ساتھ یہ نکات اشارتاً اٹھائے جانے کا امکان ہے۔ اس
ضمن میں کم از کم امریکا سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان کی اپنی مذہبی
کمیشن رپورٹ اور سرکاری محکمے کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے
متعلق تشدد کے متعلق رپورٹ منظرِ عام پر آئی جس پر گفتگو کسی نہ کسی صورت
ہونے کا امکان ہے۔
بطور ایک مناسب اور مکمل طور پر ریاستی مہمان کے طور پر بھارتی وزیر اعظم
نریندر مودی کا یہ امریکا کا پہلا جبکہ عمومی طور پر پانچواں دورہ ہے۔ جبکہ
وائٹ ہاؤس کو ایسے دوروں کی تیاری میں کم از کم 6 ماہ لگتے ہیں جن میں
ریاستی مہمان بلائے جاتے ہیں اور امریکا میں ریاستی دورے کے دوران وائٹ
ہاؤس میں رہنے کا اعزاز حاصل ہونا ایک الگ سطح کا رتبہ ہے جو امریکی صدر
جو بائیڈن بھارتی وزیر اعظم کو دے رہے ہیں۔
یوں امریکا نے یہ ظاہر کرنا شروع کردیا ہے کہ بھارت ان کیلئے دنیا کے بیشتر
ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن دراصل امریکا بھارت
کو استعمال کرتے ہوئے چین پر قابو پانا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا
اور بھارت کے مابین مضبوط تعلقات کے باوجود بھارت کے روس کے ساتھ بھی
اسٹرٹیجک تعلقات ہیں، تاہم اس پر امریکا نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔
حالانکہ رواں برس کےآغاز میں ہی انتھونی بلنکن نے کہا تھا کہ امریکا بھارت
میں کچھ پولیس اور جیل حکام کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے
کو نوٹ کر رہا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ ایسی ہی کوئی بات جو بائیڈن اور نریندر
مودی کی ملاقات کے مابین بھی ہوسکتی ہے۔
میرے ذاتی تجزئیے کے مطابق اس کی حیثیت صرف برسبیلِ تذکرہ ہوگی، کیونکہ جو
بائیڈن نے پہلے ہی نریندر مودی کو ریاستی مہمان کے طورپر مدعو کرکے جو غیر
معمولی اہمیت دی ہے، اس کے ہوتے ہوئے،مودی کے ساتھ کوئی منفی بات نہیں کی
جاسکتی۔
نریندر مودی اور جو بائیڈن کی ملاقات کا سب سے پہلا ایجنڈا دفاعی تعلقات کو
وسعت دینا اور بحر ہند میں بھارت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر
چیز بھارت کے گرد گھومنے لگے گی۔ یقیناً اس میں دوطرفہ تجارت ہے۔ بھارت کے
روس کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات ریکارڈ پر موجود ہیں۔
پہلے تعلقات کی نوعیت صرف اسٹرٹیجک تھی، تاہم اب تجارت کی بنیاد پر معیشت
پر مبنی تعلقات قائم ہوچکے ہیں اور تجارت کی بنیاد پر بھارت روس سے زیادہ
سے زیادہ حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت نے یہ سب کیسے کیا؟ دراصل بھارت نے اپنی جیو
پولیٹیکل صورتحال اور جغرافیائی اہمیت کا فائدہ اٹھایا اور کیونکہ امریکا
کو بھارت کی ضرورت تھی، اس لیے انہوں نے اسی دوران روس سے وہ اشیاء درآمد
کرنا شروع کردیں جو پابندیوں کی زد میں تھیں، تاہم امریکا کی جانب سے کوئی
بھی پابندیاں نہیں لگیں، جیسا کہ توقع کی جارہی تھی۔
اب بھارت جو کچھ بھی کرتا رہے، اس کے باوجود اسے ایک خاص استثنیٰ دیا جاتا
ہے، چاہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں یا روس کے ساتھ تعلقات قائم
کرنا، یہ استثنیٰ اس ملک کا حق سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح نریندر مودی کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمانِ قومی
سلامتی جان کربی نے اس پر تبصرہ کرنے سے ہی انکار کردیا تھا کہ کیا امریکی
صدر جو بائیڈن انسانی حقوق کا معاملہ بھارتی وزیر اعظم کے سامنے اٹھائیں
گے؟ انہوں نے کہا یہ عام سی بات ہے جبکہ امریکی رائٹس گروپ بھی نریندر مودی
کے دورۂ امریکا کے دوران احتجاج کی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ میری رائے میں
دباؤ پاکستان پر ہے، تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایسا ہی دباؤ بھارت یا
نریندر مودی کو محسوس نہیں ہونے دیا جائے گا۔
بھارت ان تمام معاہدوں کو تسلیم کرچکا ہے جس میں وہ چین کے خلاف کھڑے ہونے
کا پابند ہے جس میں واضح اشارہ ہے کہ وہ چین کیخلاف کھڑا ہونے کیلئے تیار
ہے۔
جب یہ صورتحال پیدا ہوجائے تو ایسی صورتحال میں بھارت امریکا کی جانب سے
انسانی حقوق کا معاملہ اٹھائے جانے کی صورت میں بے ضرر رہے گا کیونکہ
امریکا بھارت کی جانب سے عالمی قوانین کی تمام خلاف ورزیوں کو نظر انداز
کرنے پر بھی مجبور ہے۔
|