عصر حاضر کا تقاضا یہ ہے کہ معاشی نظام کی غیر سرمایہ
دارانہ بنیادوں پر تشکیل کی جائے تاکہ اجارہ داری اور طبقاتیت کو ختم کرکے
تعاون باہمی اور عدل و مساوات کے اصول پر معاسشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔
پارلیمینٹ جس کی بنیادی ذمہ داری عدل اجتماعی کے اصول پر عوام الناس کیمفاد
میں قانون سازی کو یقینی بنانا ہے وہاں قانون سازی کی طاقت ایک ہی مخصوص
طبقے کے ہاتھوں میں آجانے سے تمام قوانین اسی ایک طبقے کے مفاد میں بنائے
جاتے ہیں۔ عوام الناس کے مفاد میں قانون سازی کے لئے کی جانے والی ہر کاوش
کو یا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے یا پھر بیوروکریسی اور عدلیہ کے
زریعے اسے غیر موثر کردیا جاتا ہے۔
’’آزادی‘‘ کا جشن ہر سال منایا جاتا ہے مگر ہماری بھولی عوام مختلف غلامی
کی زنجیروں میں جکر ی ہوئی ہے اور وہ سرمایا دارانہ جمہوریت کے شکنجے میں
ہے۔درحقیقت 76 سال ہونے کو آئے اسکے باوجود بھوک، ننگ و افلاس، مہنگائی، بے
روزگاری، بیماری، ناخواندگی اور ذلتوں کے شکار کروڑوں لوگوں کے زخموں پر
نمک پاشی کے مترادف ہے اور ہم ہر سال ان کے جذبات کو مجروح کر کے انہیں
مذید دکھ پہنچانے کی چالاک کوشش کرتے ہیں تا کہ یہ مجبور عوام حقیقی آزادی
سے آشنانہ ہو سکے اور غلامی کی یہ زنجیریں ہمیشہ انکے گلے کا طوق بنی رہیں۔
اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈھنڈورا عوامی مفاد کا پیٹا جاتا ہے،نعرے کمزور
طبقے کے حقوق کے لئے لگائے جاتے ہیں ترقی اور خوشحالی کے وعدے کئے جاتے ہیں
مگربننے والا ہر قانون بالآخر غریب دشمن اور سرمایہ دارانہ سوچ کا حامل
ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں مراعات یافتہ طبقے کی مزید مراعات میں اضافے،نااہل
قرار دئے گئے افراد کو عہدوں پر براجمان رکھنے،اراکین پارلیمنٹ پر اپنی
دولت اور اثاثوں کے اظہار سے متعلقہ الیکشن قوانین میں نرمیاں اور ترامیم،،
پلی بار گیننگ کرپشن کے مرتکب مجرموں سے مخصوص شرح فیصد وصول کرکے بقیہ
کرپشن کو جائز قرار دیا جانا ایسے قوانین ہیں جن سے عوامی استحصال ہو رہا
ہے اور مراعات یافتہ طبقہ مزید دولت مند ہوتا جا رہا ہے جس سے آنے والی اور
موجودہ حکومت کی قومی خزانے کی لوٹ مار اور بد نیتی عیاں ہوتی ہے جس سے
غربت میں انتہائی اضافہ ہو رہا ہے جو ایسے مراعاتی قوانین اس استحصالی اور
دولتمند طبقے کی پارلیمینٹ پر مضبوط گرفت کا نہایت واضح ثبوت ہیں۔
ہمیں مذہبی لڑاء کی بجائے زمیندار، کاشتکار، جاگیردار، سرمایہ دار، غربت،
طبقات اور مہنگائی، مزدور اور غریب جیسے سوالات پر بحث کرنی چاہئے۔'' یقینا
یہ بحث صرف اسی صورت میں بار آور ثابت ہو سکتی ہے جب تمام طبقات کی موثر
نمائندگی پارلیمان میں موجود ہو گی۔اور اپنی جماعت کے حقوق کے تحفظ اور اسے
اجتماعی قومی مفاد سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اپنا اہم اور موثر کردار ادا
کرینگی۔ مجموعی طور پر یہ رکاوٹیں غریب طبقات کو سیاست اور جمہوری عمل سے
نکال باہر کرتی ہیں۔‘‘یہاں لینن جن رکاوٹوں کا ذکر کر رہا ہے ان میں سے سب
سے بڑی رکاوٹ ذاتی ملکیت اور سرمایہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ظاہر ہے سب
سے بڑی طاقت (عام حالات میں)سرمایہ ہوا کرتی ہے جو اپنے راستے میں آنے والی
ہر رکاوٹ کو جسمانی اور نظریاتی طور پر کچلنے کے صلاحیت رکھتی ہے۔سیاست
کرنے اور الیکشن لڑنے کے لئے کتنا سرمایہ چاہیے ہوتا ہے؟ اور یہ سرمایہ
سماج کے کتنے فیصد لوگوں کے پاس موجود ہے؟ اور کہاں سے آتا ہے؟ ان تمام
سوالات کا ا یکہی جواب ہے اور وہ ہے غریب کی محنت پر ڈاکہ اور کرپشن جو
سرمایہ دارانہ نظام کا طرہ امتیاز ہے۔
جمہوریت کا راگ الاپنے والے یہ سرمایہ دار’دانشور جو ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘
کو پاکستان کی بقا اور خوشحالی کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ یہ غریب طبقے کو
لولی پاپ دینے کے مترادف ہے۔ سماج میں استحصال صرف اپنی اشکال تبدیل کر کے
پوشیدہ رہتا ہے مگر اس کی شدت بعض حالات میں تیسری دنیا کے ممالک سے بھی
بڑھ جاتی ہے۔ یہاں علاقے کے چو سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والے سیاستدان
ہیں وہ گھی کے ڈبے، چینی کے دو کلو تھیلے، بریانی کی پلیٹ اور چائے کے ایک
کپ کے بدلے ان سے ووٹ خریدتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچنے کے بعد حکمران
طبقات کے دلال بن کر انکی ہاں میں ہاں ملا کر پسے ہوئے اور غربت کے مارے اس
طبقے کے مفادات پر تیشہ زنی کرتے ہیں اور انکی دلہ گیری کرتے ہیں اور وقت
آنے پر اپنے مفادات کیخاطر غریبوں سے لئے گئے ان ووٹون کو 22-25 کروڑ میں
بیچ کر انکا استحصال کرتے ہی۔۔ مغربی جمہوریت میں طریقہ واردات تھوڑا مختلف
ہوتا ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بنک دونوں اطراف کے امیدواروں کو ہی
خرید لیتے ہیں۔مثلاًامریکی صدارتی انتخابات در اصل بڑے پیمانے کی سرمایہ
کاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں جہاں بورژوازی کے سرمائے کے بل بوتے پر
برسرِ اقتدار آنے والوں کے پاس ان کی چمچہ گیری اور تلوے چاٹنے کے علاوہ
کوئی دوسری آپشن نہیں ہوتی ہے۔
بر صغیر سے انگریز آقاؤں کی روانگی کے بعد اس استحصالی نظام کو جاری رکھنے
کے لئے اس خطے کے عوام پر ایک خاص قسم کی سماجی نفسیات کو مسلط کرنا مقامی
حکمران طبقات کے لئیاپنی طمن داری کو قائم رکھنے کیئے ضروری بنتا چلا گیا۔
نہ صرف برصغیر میں بلکہ دنیا بھر میں حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے
لئے درکار نظریات اور نفسیات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے من چاہے
تعلیمی نصاب اور تاریخیں مرتب کی جاتی ہیں۔پاکستان میں بھی سکولوں، کالجوں
اور یونیورسٹیوں میں مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس یہ ظاہر کیا جاتا ہے
کہ آزادی کا مقصد بیرونی حکمرانوں کی مقامی حکمرانوں سے تبدیلی ہے۔ دوسرے
سماجی علوم میں بھی حسب ضرورت حقائق کو توڑ مروڑ کے قومی شاونزم اورمذہبی
منافرتوں کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں اور استحصالی نظام کو ’’فطری‘‘
بنا کر اسے تسلیم کرنے کا درس دیا جاتا ہے تاکہ اس نصاب سے متاثرہ ہر نئی
نسل تاریخی حقائق کو نہ جان سکے۔
|