پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب 2٭ |
|
|
لیاقت علی خان |
|
وزیر ِاعظم لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء) تحقیق وتحریر:عارف جمیل
قرارداد ِمقاصد | مسلم لیگ کے صدر | شہادت٭ قسط پنجم٭
قیام ِپاکستان کے فوراً بعد حکومت و عوام کو ایک آئین کی ضرورت تھی۔مسلمانانِ پاکستان کی خواہش تھی کہ ملک کا آئین اسلامی اصولوں پر بنایا جائے۔ چناچہ اس سلسلے میں بڑے بحث مباحثوں کے بعد جس میں علامہ محمد اسد، علامہ شبیر احمد عثمانی کا بڑا حصہ تھا لیاقت علی خان نے مجلسِ دستور ساز اسمبلی میں ایک تجویز پیش کی جس میں مسلمانانِ پاکستان کے اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہو گا۔ اس تجویز کو" قرار داد ِ مقاصد" کا نام دیا گیا اور 12ِمارچ 1949ء کو اس سے منظور کر لیا گیا ۔ پھر اس ہی کی بنیاد پر 9 ِ فروری 1951ء کو اس ملک کے ہر فرقے کے عالم اکٹھے ہوئے اور ایک 22نکاتی دستاویز پر دستخط کیئے۔ جس کے مطابق اگر قانون سازی کی گئی تو وہ علماء اس قانون کو اسلامی بھی مانیں گے اور متفق بھی ہوں گے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولاناسید سلیمان ندوی بھی اُن جید علماء میں شامل تھے۔ اسکے علاوہ نامور مفکر، دانشور اور شہرت یافتہ " سفرنامہ روڈ ٹو مکہ" کے مصنف" علامہ محمد اسد" بھی۔ جو پاکستان کے پہلے ادارے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک رِیکنسٹریکشن کے سربراہ تھے۔ قرار داد ِ مقاصد کی بنیاد بھی یہی ادارہ بنا تھا۔اس دوران اِنڈیاکا 26ِ جنوری1950ء ء کو آئین نافذ ہو چکا تھا جو اُنکی بہت بڑی کامیابی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد مرکزی حکو مت کے ساتھ صوبائی حکومتوں کا قیام بھی عمل میں آیا لیکن محمد علی جناح وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے لہذا اُنھیں کسی بھی قسم کا صوبائی رحجان پسند نہیں تھا۔ اسی لیئے لیاقت علی خان نے بھی اُنکی وفات کے بعد اس معاملے میں اُنکے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کیلئے پورے ملک کا دورہ بھی کیا اور صوبائی حکمرانوں اور مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے آپس میں مل کر رہنے اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرنے پر زور دیا۔ لیکن پھر بھی آپسی و سیاسی اختلافات میں روز بروز اضافہ ہی ہوا۔جسکی وجہ شاید افراد کی طبیعت و ذہنی کیفیت تھی۔ لیاقت علی خان کو ان حالات میں پنجاب میں تو نئے انتخابات کا انقعاد ہی حل نظر آیا۔ چناچہ 24 ِ جنوری 1949 ء کو لیاقت علی خان نے پنجاب کی صوبائی وزارت اور اسمبلی کو برطرف کر کے پنجاب کا نظم و نسق آئندہ آنے والے صوبائی انتخابات تک پنجاب کے انگریز گورنر موڈی کے سپرد کر دیا۔ لیکن جب پھر بھی پنجاب کے حالات بہتر نہ ہوئے تو گورنر موڈی کی طرف سے استعفیٰ دینے کے بعد پنجاب کا گورنر سردار عبدالرب نشتر کو مقرر کر دیا اور پنجاب کے سیاسی حالات دُرست کرنے کی کوشش کی۔ اس سیاسی کشمکش میں ملکی سطح پر کچھ سیاست دانوں کو" پروڈہ ایکٹ "کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ محمد علی جناح کی صدارت میں 14 ِدسمبر 1947ء کو میں مسلم لیگ کونسل نے آل انڈیا مسلم لیگ کو دو حصوں میں منقسم کر کے ایک کو آل انڈیا مسلم لیگ اور دوسری کو پاکستان مسلم لیگ کا نام دیا۔ محمد علی جنا ح چونکہ مستقبل میں پارٹی کی صدارت میں مزید دِلچسپی نہیں رکھتے تھے لہذا جب مسئلہ صدارت سامنے آیا تو محترمی فاطمہ جناح کا نام بھی لیا گیا۔لیکن پھر لیاقت علی خان کی تائید سے چوہدری خلیق الزمان کو پاکستان مسلم لیگ کا پہلا صدر مقرر کر دیا گیا۔ لیکن کراچی میں مہاجرین کے پُر تشدد مظاہروں کی وجہ سے جب وہ بھی مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہوگئے تو اکتوبر 1950 ء میں یہ عہدہ لیاقت علی خان نے خود سنبھال لیا۔ اسطرح وزارت ِ عظمیٰ اور پارٹی کی صدارت یکجا ہو گئی۔ میجر جنرل اکبر خان کی رہائش گاہ پر 23 ِ فروری 1951ء کو ایک اجلاس ہوا جس میں چند فوجی اور ملک کی کچھ اور مشہور شخصیات نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں موضوعِ بحث کشمیر کا مسئلہ اور پاک بھارت جنگ بندی تھا لیکن 9 ِمارچ 1951ء کو حکومت کی طرف سے واضح کیا گیا کہ یہ اجتماع حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے ہوا تھا۔ جس کے بعد اس اجلاس کے تمام شرکاء کو "راولپنڈی سازش" کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور اُ نکا مقدمہ خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا تاکہ اس سازش کے شواہد جلد از جلد عوام کے سامنے لائے جا سکیں۔ یہ مقدمہ ابھی خصوصی عدالت میں چل ہی رہا تھا کہ وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی شخص نے 16 ِ اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک جلسہ ِ عام میں تقریر کرتے ہوئے دو گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ لیاقت علی خان گارڈن باغ (اب نیا نام لیاقت باغ) میں اُس وقت ابھی تقریر کیلئے کھڑے ہی ہوئے تھے اور مُنہ سے صرف برادرانِ اسلام کہہ پائے تھے کہ گولیاں اُن کے سینے کے پار ہو گئیں اور گولی لگنے کے بعد ان کی زبان سے جو آخری لفظ نکلے وہ یہ تھے " خدا پاکستان کی حفاظت کرے "۔ سید اکبر (قاتل) ایک افغانی باشندہ تھا اور ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ حکومت ِ پاکستان نے اُس کی گزار اوقات کیلئے مشاہر مقرر کیا ہوا تھا۔ جب اُس نے وزیر ِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان پر گولی چلائی تو بھگڈر مچ گئی۔ جس کے دوران ایک پولیس انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کی نعش کو طیارے کے ذریعے کراچی لایا گیا تو اُن کے خاندان کے تمام افراد بمعہ اُنکی والدہ محمودہ بیگم جو اُس وقت حیات تھیں موجود تھے۔ کراچی میں اُنھیں محمد علی جناح کے پہلو میں 17 ِ اکتوبر 1951ء کو سپُرد ِ خاک کر دیا گیا۔ لیاقت علی خان کی کرنال، مظفر نگر اور یو۔پی بھارت میں ایک بڑی جائیداد تھی۔ کوٹھیاں تھیں۔ بحیثیت وزیر ِاعظم پاکستان آپ حق رکھتے تھے کہ کلیم میں اپنی جائیداد حاصل کر سکیں یا معاوضہ لے لیں تا کہ بیوی بچوں کے کام آئے لیکن اُنھوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک اس ملک میں تمام مہاجر آباد نہیں ہو جاتے اُنھیں اپنے لیئے کسی مکان یا جائیداد کی ضرورت نہیں۔ حتیٰ کہ اُنھوں نے اپنی وہ شاندار کوٹھی جو اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان کے نام "گُل ِ رعنا "کے نام سے جو ہارڈنگ ایونیو نئی دہلی میں بنوائی تھی پاکستان ہائی کمیشن کو دے دی تھی جسکو پاکستان کے ہائی کمیشنر کی سرکاری رہائش گاہ قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ اُن کے ایثار کی علامت تھی۔ اِن کی شہادت کے وقت اُن کا بنک بیلنس صرف ایک مختصر سی رقم سے زیادہ نہ تھا۔ شہید ِ ملت لیاقت علی خان نے پاکستان پر چار سال دو ماہ اور دو دِن تک حکومت کی اور اپنی سربرا ہی میں ملک کی ترقی کو اپنی ذات سے زیادہ ا ہمیت دی۔اُنکی خدمات پر جتنا بھی خراج ِتحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ ٭(جاری ہے)٭
|