رانا رتن سنگھ سوڈھا بہادری کی عظیم داستان
(Qazi Nadeem Ul Hassan , Bahawalpur)
سندھ کےايک لازوال لوک گيت ”مور تور ٹلےرانا“کےاندر ايک
لازوال داستان چھپي ہے۔
سن1850سندھ کےصحرا تھرپارکر کےايک گاؤں عمرکوٹ کےحکمران راجپوت رانارتن
سنگھ سوڈھا نےراج برطانيہ کي جانب سےغريب لوگوں پرلگائےگئےناجائز لگان کے
خلاف ايک بےمثل جدوجہد کي جوراج برطانيہ کي نظرميں بغاوت ٹھري۔وہ تھر کے
صحراؤں ميں چھپ کرراج برطانيہ کے خلاف اپني کارروائياں کرتا رہامگر آخر کار
اسکو پکڑ کر قيد کر ليا گيا۔
اگرچہ ملکہ وکٹوريہ نےعلاقے کےبااثر لوگوں کي سفارشات پر اس کو معاف
کرکےآزاد کرديا مگر رانا رتن اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا کہ غريب لوگوں پر سے اس
غير منصفانہ ٹيکس کا خاتمہ کياجائے ورنہ وہ انگريزوں کےخلاف کارروائياں
کرنے سےباز نہيں رہےگا۔انگريزوں نےبھي رانا رتن سنگھ کے تيور اور اس کےدور
رس اثرات کوسمجھتےہوئے غريبوں کےعظيم باغي کے انجام کو سندھو کي دھرتي کے
تمام لوگوں کے لئےايک عبرت کي مثال بنانےکا تہيہ کر ليا۔
انہوں نے عمر کوٹ کے مشہور قلعے کے بيچوں بيچ رانارتن کو پھانسي لگانے کے
لئے پھانسي گھاٹ کي تياري شروع کردي تاکہ تمام لوگ اس کےانجام کو ديکھ کر
چپ چاپ ٹيکس دينے کے لئے تيار ہو جائيں۔ جب پھانسي گھاٹ تيار ہوا تو تمام
آس پاس کےگاؤں ميں اس بات کا اعلان کيا گيا اور رانا کو ان کے سامنے آہستہ
آہستہ پھانسي گھاٹ کي اونچي سيڑھياں چڑھا کرپھانسي کے پھندے کے نيچے کھڑا
کيا گيا اور آخري خواہش دريافت کي گئي جس پررانا نےاپنے بندھے ہاتھوں کو
کھولے جانے کا کہا۔ ہاتھوں کے آزاد ہوتے ہي اس نے انتہائي بااعتمادي سے
اپنے دونوں ہاتھوں سے اپني مونچھوں کو تاؤ دے کر ان کي نوکوں کو اوپر کي
جانب کيا۔
مونچھوں کو بل يا تاؤ دينا برصغير کے لوگوں کا ايک ايسا انداز ہے جس سے
اظہار کيا جاتا ہے کہ انسان کس قدر دلير اور بے خوف ہے۔ يہ ايک انتہائي
درجہ کي خود اعتمادي اور بہادري کي علامت سمجھا جاتا ہے۔راجپوت رانا رتن
سنگھ سوڈھا کو اس دليرانہ انداز سے پھانسي کا پھندا گلے ميں ڈالتے ديکھ کر
آزادي کا جذبہ غير مرئي فتح کے احساس کے ساتھ ابھر کر سندھو کي دھرتي کي
ہواؤں اور عوام ميں ميں پھيل گيا۔ اس انداز بے مثل نے ان کي روحوں کو غلامي
سے نجات دلا دي۔
اس واقعہ پر سندھ کا مشہور لوک گيت ” مور تو ٹلے رانا “ تخليق ہوا جس ميں
اس بے مثل تھرپارکر کے دلير اور بہادر مور کي موت پر ماتم کر کے دکھ غم کا
مرثيہ نہيں کہا گيا بلکہ يہ خوشي کا گيت ہے اور عموماً بچے کي پيدائش کے
موقع پر گايا جاتا ہے۔اس ميں آنگن ميں کھيلتے ننھے بچے کو برسات ميں بھيگتے
مور کے رقص سے تشبيہ دي گئي ہے اس گيت کے اہم بول ميں ”ہزاروں رانا رتن
جيسے دلير اور بہادر بچے سندھو کي دھرتي پر پيدا ہونے کا ذکر کيا گيا ہے:
”رانا تومان راج تھيندا،رانا تومان لکھ تھيندا “
کا مطلب بھي يہي ہے کہ رانا، تمہاري ہي حکومت ہوگي اور تمھارے جيسے ہزاروں
ہونگے۔يہ گيت تھر کے صحرائي ماحول کي خوشيوں کا حسين اور لازوال حصہ بن گيا
ہےاور رانا رتن سنگھ سوڈھا کي بہادري اور غريبوں کے حق ميں جدوجہد و قرباني
کي ياد دلاتا ہے۔ |
|