خواجہ ناظم الدین(دوسرے گورنر جنرل | دوسرے وزیر ِاعظم) ٭٭٭ قسط اوّل٭٭٭ابتدائی زندگی سے وزیر ِاعلیٰ بنگال

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب3 ٭
نوٹ: کوشش کی گئی ہے کہ سربراہان ِ مملکت کی سوانح عمری کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے نشیب و فراز میں اُنکے فیصلوں کی کیا اہمیت رہی ہے؟بیان کی جاسکے۔


خواجہ ناظم الدین۔محمد علی جناح۔لیاقت علی خان اور ساتھی

گورنر جنرل و وزیر ِاعظم خواجہ ناظم الدین (1894ء۔1964ء)
تحقیق و تحریر:عارف جمیل

ابتدائی زندگی سے وزیر ِاعلیٰ بنگال٭ قسط اوّل٭

خواجہ ناظم الدین ڈھاکہ میں 19 جولائی 1894ء کو پیدا ہوئے۔ انکے دادا نوا ب سر عبدالغنی اور والد نظام الدین ڈھاکہ کی معزز شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی والدہ بھی ڈھاکہ کے ہی نواب سر احسان اللہ خان کی بیٹی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی نواب سلیم اللہ خان کی سگی بہن تھیں۔ جنکے بزرگ خواجہ عبدالحکیم مغل عہد سے متاثر ہو کر اپنے خاندان سمیت کشمیر سے آکر دہلی میں آباد ہو گئے تھے اور پھر جب مغل سلطنت کو زوال آنا شروع ہو گیا تو پہلے دہلی اور پھر سلہٹ کو خیر باد کہہ کر بنگال کے صوبے ڈھاکہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اس خاندان نے جب انگریزی دور میں مسلمانانِ بنگال کی تعلیمی، تہذیبی اور سیاسی ترقی میں بڑی خدمات انجام دیں تو انگریز حکومت نے ان خدمات کے بدلے میں اس خاندان کے افراد کو نواب اور سر کے خطابات سے نوازہ۔
خواجہ ناظم الدین کا تعلق متمول اور نواب خاندان سے تھا اس لیئے ابتدائی زندگی ہی سے ناز و نعم میسر آ گیااور بچہ ہونے کے ناطے ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اُنکے والد کواپنے بیٹے کی تعلیم کا فکر لا حق تھا۔ لہذا خاندان کی روایت کے مطابق سب سے پہلے قرآن و سنت کی تعلیم کیلئے گھر کے قریب ایک مسجد میں بھیجنا شروع کر دیا اور پھر جب کچھ بڑے ہوئے تو گھر کے نزدیک ہی ایک سکول میں داخل کروا دیا۔جہاں تعلیم کے علاوہ فارغ اوقات میں کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال جیسے کھیل بھی کھیلنے شروع کر دیئے۔ اسطرح خواجہ ناظم الدین ایک ہونہار طالبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین کھلاڑی بھی بن گئے۔ اُنھیں شکار کھیلنے کا شوق بھی رہا۔
خواجہ ناظم الدین نے جب نو عمری میں قدم رکھا تو اُن کو مزید اچھے تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا شوق ہوا۔ اُس دور میں مسلمانوں کیلئے چونکہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ ہی ہندوستان کا اعلیٰ تعلیمی ادارہ تھا لہذا خواجہ ناظم الدین اپنے والد سے اجازت لیکر خود ہی علیگڑھ چلے گئے اور اپنی ذہنی قابلیت کی بنا پر وہاں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ میں تعلیم و تربیت کے دوران وہاں اُن کی ملاقات اعلیٰ اساتذہ اور روشن خیال طلبہ سے ہوئی۔اس دور میں تقسیمَ ِبنگال کا منصوبہ مسلمانوں کے حق میں تسلیم ہونے کے بعد ہندوؤں کے شدید احتجاج کی وجہ سے انگریز حکومت نے تنسیخ بھی کر دیا ہوا تھا اور اس دوران دسمبر 1906 ء میں خواجہ ناظم الدین کے ماموں نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کی وجہ سے مسلمانوں کی الگ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں آ چُکا تھا۔ ان حالات میں خواجہ ناظم الدین علیگڑھ کالج کے دوسرے مسلمان طلبہ کے ساتھ مل کر ہندوستان کے مسلمانوں کی الگ حیثیت منوانے کیلئے سیاسی سرگرمیوں میں بھر پور انداز میں شریک ہوگئے۔
علی گڑھ سے فارغ ہونے پر اُن کے والد نے اُن کو مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان بھیج دیا جہاں پر اُنھوں نے پہلے ڈونس ٹیبل گرائمر سکول لندن میں داخلہ لیا اور پھر اسکے بعد ٹرینی ہال کیمرج یونیورسٹی میں چلے گئے۔ بعدازاں قانون میں ماسٹرز اور بار ایٹ لاء کی ڈگریاں حاصل کر کے 1920ء میں ڈھاکہ واپس آ گئے۔
خواجہ ناظم الدین نے وطن واپس آنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تو وکالت سے کیا لیکن علیگڑھ اور کیمبرج کی تعلیم نے اُن میں سیاست میں حصہ لینے کا شوق پیدا کر دیا۔ اس کا ذکر اُنھوں نے سر حسن سہروردی سے کیا جن کا تعلق بھی بنگال کے مشہور سہروردی خاندان سے تھا اور اُن کی بنگال کے لوگوں میں اور خواجہ ناظم الدین کے خاندان میں بہت عزت تھی۔ لہذا سر حسن سہروردی نے سیاست میں اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اُن کے حوصلے اور ہمت کی وجہ سے خواجہ ناظم الدین 1922ء میں بلدیہ ڈھاکہ کہ انتخابات میں کامیاب بھی ہو گئے۔پھر اپنی خاندانی روایات، جذبہِ خدمت اور مقبولیت کی وجہ سے ڈھاکہ کا چیئرمین بھی منتخب کر لیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین نے اس عہد ے 1922ء تا 1929ء تک بڑی محنت اور لگن سے کام کیا۔ 1923ء تا 1929ء اُنھیں ڈھاکہ یونیورسٹی کی مجلسِ انتظامیہ کا رُکن رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1923ء میں جب حکومتِ برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں مرکزی و صوبائی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تو خواجہ ناظم الدین نے ڈھاکہ کے جنوبی حلقے بھکرا گنج سے صوبائی انتخابات میں حصہ لیا اور بنگال کی صوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہو گئے۔
1924ء میں خواجہ ناطم الدین کی عمر تیس سال ہو چکی تھی اور اتنی سی عمر میں سیاسی میدان میں کامیابی بھی حاصل کر چکے تھے لیکن ابھی تک غیر شادی شُدہ تھے۔ لہذا اُن کے بزرگوں نے اُن کی شادی اپنے ہی علاقے کے ایک زمیندار کے۔ ایم۔ اشرف کی بیٹی شاہر بانو سے کر دی اور اب اُنھوں نے اپنی سیاسی ذمہ داریوں کے علاوہ اپنی نجی زندگی کی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے پورا کرنا شروع کر دیا۔ اُن دونوں کی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی جنکی بھی بہترین تعلیم و تربیت اور عملی زندگی میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے۔
خواجہ ناظم الدین لوگوں کے فلاحی، تعمیراتی اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں بہت زیادہ عملی دلچسپی لینے کے باعث ڈھاکہ کے مسلمانوں میں بہت مقبول ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ اسمبلی میں بھی اُن کو اس بنا پر بہت عزت سے دیکھا جاتا تھا کہ جب بھی حکومت کوئی بل پاس کروانے کیلئے اسمبلی میں پیش کرتی تو اگر اس بل سے عوام کو فائدہ ہوتا نظر آتا تو اُس کے حق میں ضرور ووٹ دیتے۔ اُن کی عوام کیلئے ان خدمات سے متاثر ہوکر حکومت ِ برطانیہ نے اُنھیں 1926ء میں سی۔آئی۔ ای کا خطاب دیا۔1929ء میں خواجہ ناظم الدین ایک دفعہ پھر جب بنگال کی صوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تو اُنھیں صوبائی وزیر تعلیم بنا دیا گیا۔ 1931ء میں اُنھوں نے مذہبی تعلیم کا بل مسلمانوں کی بہتری کیلئے بنگال کی دستور ساز اسمبلی میں بہت جوانمردی سے پیش کر کے کامیابی حاصل کی۔ اس بل کے منظور ہو جانے کی وجہ سے غیر مسلم انکے خلاف ہو گئے کیونکہ وہ اس بل کے سخت خلاف تھے۔
بنگال کے کاشت کار غریب ہونے کے باعث زمیندا روں یا جاگیر داروں کے پاس اپنی زمین گروی رکھ کر قرضہ لیتے تھے اور پھر اُس ہی زمین پر کاشت کاری بھی کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود زمینداروں اور جاگیر داروں کی زیادتیوں کے باعث وہ روز بروز مقروض ہوتے جا رہے تھے۔ چنانچہ جب خواجہ ناظم الدین 1934ء میں بنگال ایگز یگٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تو اُن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ بنگال کی دیہی ترقی کا بل اور قرض خواہوں کا بل بھی اسمبلی میں پیش کریں۔ اُنھوں نے بھی اس میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کوشش کی اور آخر کار 1936ء کے اوائل میں اس بل کو قانونی کاروائی کیلئے اسمبلی میں پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دوران انگلستان کے بادشاہ جارج پنجم نے اُنھیں کے سی۔ائی۔ ای کا خطاب دیا۔
خواجہ ناظم الدین ایک مسلم لیگی گھرانے کے ناطے مسلم لیگ سے گہری اُنس رکھتے تھے لہذا جب 1935ء کے ایک ایکٹ کے تحت 1937ء میں ہندوستان کی مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کروانے کا فیصلہ ہوا تو بنگال میں مسلم لیگ کو پاکستان کی تحریک کیلئے دوبارہ منظم کیا گیا جس میں اُنھوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ محمد علی جناح نے انکے اس قومی جوش و جذبے کی فراوانی کے زیرِ اثر 1936ء میں اُنھیں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاِمہ کا رُکن منتخب کر دیا۔ یہ مجلسِ عامہ برصغیر کے اعلیٰ ترین ذہنوں پر مشتمل تھی۔
صوبائی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات جنوری 1937ء میں منعقد ہوئے تو خواجہ ناظم الدین کلکتہ کے حلقے سے کرشک پرجا پارٹی کے لیڈر مولوی فضل الحق سے دس ہزار ووٹوں کی کثرت سے شکست کھا گئے لیکن مسلم لیگ کو کرشک پرجا پارٹی سے زیادہ نشستیں ملیں جس میں خواجہ ناظم الدین اور انکے ساتھیوں کی محنت شامل تھی۔ کانگرس نے بنگال کی صوبائی اسمبلی میں ساٹھ نشستیں حاصل کیں لہذا ان حالات میں مولوی فضل الحق نے کرشک پرجا پارٹی، مسلم لیگ اور آزاد مسلم نمائندوں کی مدد سے مخلوط حکومت بنائی اور اسی دوران میں خواجہ ناظم الدین نے حسین شہید سہروردی کی خالی کی جانے والی نشست سے ضمنی انتخاب لڑ کر کامیابی حاصل کر لی۔ مولوی فضل الحق نے اس مخلوط حکومت میں بنگال کی وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا اور خواجہ ناظم الدین کو اپنی کابینہ میں وزارتِ داخلہ کا قلم دان سونپا۔ایک عرصے تک یہ مخلوط حکومت بنگال میں مسلمانوں کا زبردست اور موثر اتحاد سمجھی جاتی رہی کیونکہ اس میں مولوی فضل الحق، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی جیسے سیاست دان شامل تھے۔ لہذا دیکھا جائے تو مسلمانانِ بنگال کا احساسِ کمتری اور مایو سیوں کا کسی حد تک ازالہ ہو چکا تھا۔
خواجہ ناظم الدین چونکہ بنگال میں ایک اچھے کھلاڑی کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے لہذا 1938-39ء میں اُنھوں نے آل اِنڈیا ہاکی فیڈریشن کے صدر کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے۔ اُن دنوں اُنھیں خود بلیرڈ کھیلنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا لہذا فارغ اوقات میں کبھی کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ بلیرڈ کلب بھی جاتے تھے۔
لاہور میں 23 ِمارچ1940ء کو قراداد ِلاہور پیش کرنے والے وزیر ِاعلیٰ بنگال مولوی فضل الحق کا نومبر 1941ء میں جب کچھ معاملات پر مسلم لیگ سے اتفاق نہ ہوا تو اُنھوں نے احتجاجاً مسلم لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت کا معاہدہ بھی ختم کر دیا اور 12ِدسمبر1941ء کو ہندو مہاسبھا کے تعاون سے مخلوط حکومت بنا کر ایک دفعہ پھر وزیر اعلیٰ بنگال بن گئے۔ مولوی فضل الحق کی اس حرکت پر ایک تو اُنھیں مسلم لیگ سے خارج کر دیا گیا۔دوسرا مسلم لیگ کے نمائندے اسمبلی میں مخالف بنچوں پر جا بیٹھے اور خواجہ ناظم الدین اُن کی طرف سے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر مقرر ہوئے۔ ساتھ ہی خواجہ ناظم الدین نے مسلم لیگ کی تنظیم نو اور استحکام کو اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں جگہ ترجیح دینی شروع کر دی۔ اس دوران ایک تو اُن کی کوشش سے کلکتہ سے ایک مسلم انگریزی اخبار دی اسٹار آف انڈیا جاری ہوا اور دوسرا کلکتہ میں اُنھوں نے مسلم چیمبرز آف کامرس کی بنیاد رکھی جس کے قیام سے مسلمانوں کو تجارتی و معاشی فوائد حاصل ہونے شروع ہو گئے۔
گورنر بنگال سر جان ہربرٹ نے28 ِمارچ 1943ء کو مولوی فضل الحق سے اُن کی وزارت کے خلاف عوام کے مظاہروں کی بنا پر استعفیٰ لے لیا اور خواجہ ناظم الدین کو دعوت دی کہ جتنی بھی زیادہ سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر وزارت بنا سکتے ہیں بنانے کی کوشش کر لیں۔ گورنر کی اس دعوت پر اُنھیں جلد ہی وزارت بنانے میں کامیابی حاصل ہو گئی اور 24 ِاپریل 1943ء کو وزیر اعلیٰ بنگال بن گئے۔
خواجہ ناظم الدین کی سیاسی زندگی میں یہ نہایت ہی نازک اور سنگین مرحلہ تھا کیونکہ بنگال اُن دنوں ہولناک قحط کی زد میں تھا اور ہندوستان کی مرکزی حکومت کا ہندو وزیر ِ خوراک جان بوجھ کر بنگال کی حکومت سے تعاون نہیں کر رہا تھا۔ حالانکہ ملک کے دیگر صوبوں میں غلہ حاضر سٹاک موجود تھا۔ اصل میں ہندو وزیزِ خوراک بنگال میں مسلم لیگی حکومت کی نااہلی ثابت کرنا چا ہتا تھا۔ لیکن خواجہ ناظم الدین نے ان حالات کا مقابلہ جونمرادی سے کرتے ہوئے ہندوستان کے مسلمانوں سے امداد کی اپیل کی جس پر مسلمانوں نے بنگال کی قحط زدہ عوام کیلئے دل کھول کر عطیات دیئے۔
خواجہ ناظم الدین نے ان عطیات کی بدولت ہزار ہا لوگوں کیلئے طعام خانے بنوائے اور گشتی طعام خانے بھی قائم کئے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو خوراک فراہم کی جاسکے۔ اس کیلئے مسلم لیگ کے کارکنوں نے بھی اُن کا بہت ساتھ دیا۔ لہذ ا اس قحط میں صوبہِ بنگال کی تین چوتھائی آبادی کو بچا لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود مولوی فضل الحق نے دوسرے حزب ِ اختلاف کے اراکین کے ساتھ مل کر حکومت ِ بنگال پر غذائی قلت، انتظامی بدعنوانیوں اور کرپشن کے سنگین الزامات لگائے اور بنگا ل کے صوبائی وزیرِ تعلیم مولوی تمیزالدین کی طرف سے ثانوی تعلیم کے بل کو نئے سرے سے پیش کرنے پر بھی شدید تنقید کی۔ حکومت کو ہر مسئلے پر اور ہر طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور پھر انہی حالات میں 25 ِ مارچ 1945ء کو صوبائی حکومت کو کسی غیر اہم مسئلے پر ایک ووٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کی وجہ سے خواجہ ناظم الدین کی وزارت ٹوٹ گئی اور گورنر بنگال لارڈ کیسی نے صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ کچھ دِنوں بعد بنگال کی اسمبلی بھی توڑ دی گئی اور اس کے ساتھ ہی نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔
عام اتخابات 1945-46ء کیلئے محمد علی جناح نے جب مسلم لیگ کے پارلیمنٹری بورڈ کا دوبارہ تقرر کیا تو اس بورڈ کے ساتھ کمیٹی آف ایکشن کی بھی تجدید کی گئی اور خواجہ ناظم الدین کو بھی اس کمیٹی کا رُکن منتخب کیا گیا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ کے نامز د اُمید واروں کو مرکز اور صوبوں میں واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ صوبہ بنگال میں بھی مسلم لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن صوبے کے گورنر نے صوبے میں وزارت بنانے کی دعوت مسلم لیگ پارٹی کے خواجہ ناظم الدین کی بجائے اس ہی پارٹی کے ایک اور رُکن حسین شہید سہروردی کو دی۔ ان حالات میں خواجہ ناظم الدین نے نیک نیتی کا ثبوت دیتے ہوئے اُ نکا مقابلہ نہ کیا جس پر حسین شہید سہروردی صوبہ بنگال میں غیر کانگرسی ہندوؤں اور اچھوتوں کی مدد سے مسلم لیگ کی وزارت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
مارچ 1946ء میں حکومتِ ہند نے جب واشنگٹن میں کمبائنڈ فوڈ بورڈ کے پاس ایک تین رُکنی وفد بھیجا تو اُس وفد میں خواجہ ناظم الدین بھی شامل تھے۔ اس وفد کا مقصد قحط زدہ افراد کیلئے خوراک کی رسد میں اضافے اور تیزی کیلئے بورڈ سے گفت و شنید کرنا تھا۔ اس دورے کے ایک ماہ بعد خواجہ ناظم الدین نے لیگ آف نیشنز کے آخری اجلاس منعقد جنیوا میں بھی ہندوستان کی نمائندگی کی۔ جولائی 1946ء میں اُنھوں نے اپنی پارٹی کے فیصلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومتِ برطانیہ کی طرف سے دیئے ہوئے خطابات واپس کر دیئے اور انگریز حکومت کے خلاف یومِ راست اقدام کے دن کو کامیاب بنانے کیلئے 7 ممبران کی کمیٹی میں شامل ہو گئے۔ پھر اُنھوں نے دہلی سے کلکتہ آکر اس دن کو کامیاب بنانے کیلئے بہت محنت کی اور کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن یوم ِ راست اقدام والے دن کلکتہ میں شر پسندوں کی وجہ سے شدید فسادات شروع ہو گئے جس کا اُن کو بہت دُکھ ہوا۔
محمد علی جناح اُن پر خاص اعتماد کرتے تھے اور شاید اس لیئے شملہ کانفرنس، کرپس مشن اور کیبنٹ مشن کے اجلاسوں میں اُن کو ساتھ رکھا اور جب کیبنٹ مشن نے ہندوستان میں عبوری حکومت کیلئے 16 ِجون 1946ء کو اُن کا نام بھی مسلمانوں کے نمائندؤں میں شامل کیا تو ایک دفعہ پھر محمد علی جناح نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے اُن کی جگہ ایک ہندو نمائندے جوگندر ناتھ منڈل کو عبوری حکومت میں شامل کروا دیا۔ محمد علی جناح نے یہ فیصلہ اس لیئے کیا تاکہ ہندو نمائندے کو عبوری حکومت میں شامل کروا کر ہندوستانیوں کو تقسیم کیا جا سکے۔ لہذا خواجہ ناظم الدین نے بھی اپنے رہنما کی تائید کی، کیونکہ اُنھیں علم تھا کہ اُن کا رہنما غلط فیصلہ نہیں کر سکتا اور وقت نے ثابت بھی کیا کہ باقی فیصلوں کی طرح یہ بھی محمد علی جناح کا ایک صحیح فیصلہ تھا۔
پاکستان 14ِاگست 1947ء کو معرض ِ وجود میں آیا جو مغربی اور مشرقی پاکستان پر مشتمل تھا۔ گورنر جنرل محمد علی جناح اور وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان چاہتے تھے کہ خواجہ ناظم الدین پاکستان کی پہلی کابینہ میں شامل ہوں لیکن اُنھوں نے اُس وقت یہ محسوس کیا کہ مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی مسلم لیگ کی حکومت کو پُرامن طریقے سے نہیں چلا سکیں گے لہذا اُ نھوں نے ڈھاکہ میں حسین شہید سہروردی کو مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے الیکشن میں شکست دے کر مشرقی پاکستان کی وزارت ِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھل لیا۔
محمد علی جناح نے جب 1948ء میں مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تو اس صوبے کے متعلق اُنھیں یہ تاثر ملا کہ خواجہ ناظم الدین کی زیر ِ قیادت صوبائی وزارت یک جہتی کے ساتھ قومی مقاصد کیلئے کا م کر رہی ہے۔ یہ ضرور تھا کہ کسی حد تک زبان کا مسئلہ پیدا ہو چکا تھا۔ لیکن اُس کے متعلق محمد علی جناح نے عوام کے ایک جلسے میں اعلان کیا کہ مشرقی پاکستان کی عوام اپنے نمائندؤں کے ذریعے صوبائی ضروریات کیلئے جس زبان کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں لیکن قومی زبان ایک ہو گی اور وہ صرف اُردو ہو گی۔
٭(جاری ہے)٭

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341498 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More