پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب 2٭ |
|
|
لیاقت علی خان اور مشہور شخصیات |
|
وزیر ِاعظم لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء) تحقیق وتحریر:عارف جمیل
لیاقت علی خان کے سیاسی قد کاٹھ پر اعتراضات اور وضاحتیں٭ قسط ششم آخری٭
" قد اچھامناسب ، تندرست جسم، گول چہرہ، موٹے موٹے گال، نوکدار موٹی سی ناک، رنگ بادامی گندمی اور آنکھوں میں دُوراندیشی کے سُرخ سُرخ ڈورے۔خوش اخلاق،وضعدار اور مستقل مزاج۔گفتگو شیریں اور دلچسپ۔ اپنے مقصد کو اپنی باتوں کے دل موہ لینے والے انداز سے منوا لینے کی عادت۔ اُردو زبان پر عبور حاوی۔ انگریزی بہت عمدہ بہترین۔ با مذاق شستہ اور دلچسپ باتیں کرنے کے عادی۔ اکثر اُنکی بڑی اور خوش نما آنکھوں میں باتیں کرتے وقت مسکراہٹ عیاں ہوتی۔ وہ بڑے جلسوں میں برصغیر کے عوام سے اُردو میں مخاطب ہوتے تھے۔ اُن کا نام سن کر ہزاروں مسلمان جمع ہوجاتے۔ اُن کی آواز گرجدار اور بارُعب ہو جاتی اور انداز ِ تقریر دلنشیں ہوتا۔وہ مجمع پر چھا جاتے۔ سننے والوں پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا اور جلسہ گاہ میں ایک عجیب سا سُناٹا معلوم ہوتا۔ کبھی کبھی پنڈال اللہ اکبر اور مسلم لیگ زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھتا۔ اُن کو قدرت نے عوام کو قابو میں رکھنے کی بے مثال صلاحیت ودیعت کی تھی"۔ تحریک ِپاکستان کی نامور خاتون محترمہ نورالصباح بیگم نے اپنی مشہور کتاب "پاکستان کی مشہور شخصیتیں (میری نظر میں)" لیاقت علی خان کے بارے میں جن الفاط سے تصویر کشی کی ہے اُن میں سے چند اہم سطریں جن میں لیاقت علی خان کی مکمل شخصیت کی بہترین جھلک ملتی ہے مندرجہ بالا اقتباس کے طور پر بیان کی ہیں۔اس سے اندازہ ہو تا ہے کردار کی تشکیل کیلئے اُن میں جو ذہنی و جسمانی خوبیاں تھیں وہ اُنکی ذاتی و عملی زندگی میں اُسی طرح بھرپور نظر آئیں جیسے کہ بچپن میں ہو ش سنبھالنے سے لیکر سیاست کے میدان میں قدم جمانے تک اُنکے" ذاتی فیصلے"۔لہذامحمدعلی جناح سے پہلی ملاقات کے بعد ہی اپنی قابلیت اور ملنساری کی وجہ روابط بڑھانے میں کامیاب ہو گئے اورعلامہ اقبال کے بعد دوسری اہم شخصیت بنے جو محمد علی جناح کو انگلینڈ سے واپس ہندوستان آنے کیلئے قائل کرنے میں کامیاب ہو ئے۔ محمدعلی جناح کا اعتماد اُنھیں مسلم لیگ کے اعلیٰ عہدوں پر لے آیااور ایک وقت آیا تحریک ِپاکستان سے قیام ِپاکستان تک ہر اہم فیصلے میں بھی محمد علی جناح اُنکو ساتھ رکھتے اور اُنکی تحریک کیلئے لگن کی تعریف کیئے بغیر نہ رہتے۔بلکہ اُنکی خوش اخلاقی اور مسکراہٹ و قہقہ لگانے کے انداز سے بھی محظوظ اور فارغ اوقات اُنکے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتے۔ پھر آزاد پاکستان کے پہلے گورنر جنال محمد علی جناح بنے اور پہلے وزیر ِاعظم کی حیثیت میں ذ مہداریاں لیاقت علی خان کو سونپی۔ قیام ِپاکستان کے آغاز کے مسائل میں تو محمدعلی جناح نے بذات ِخود بھرپور انداز میں فیصلے کر کے اُنھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک مرتبہ پھر دِن رات کام کیا جسکی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے۔بیماری کے دوران سے لیاقت علی خان کی اپنی شہادت تک لیاقت علی خان کے حکومتی فیصلوں و سیاسی رویئے پر اچانک بہت سے سوال اُٹھنے شروع ہوگئے تھے جو پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا اہم باب بن چکے ہیں جس پر تحقیقی و تنقیدی کام و بحث بہت سی گِریں کھولتی بھی ہیں اور بہت سے" راز سوالیہ" ہی رہ جاتے ہیں۔ لیاقت علی خان پر سب پہلا اعتراض محمد علی جناح سے زیارت میں جاکر وہ آخری ملاقات ہے جس میں اُنکے ساتھ اُس وقت کے جنرل سیکرٹری چوہدری محمدعلی گئے تھے۔دونوں نے اُن سے بیڈ روم میں ملاقات کی اور بعد میں کھانے کے دوران محترمہ فاطمہ جناح سے گفتگو کی جس کے دوران لیاقت علی خان حسب ِروایت اپنی طبیعت کے مطابق گپ شپ بھی لگا رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ یہ تھا وہ پہلا اعتراض جو محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا کہ میرے بھائی بیمار تھے اور لیاقت علی خان کا رویہ اُسکے برعکس تھا۔ ایک بہن کی حیثیت میں اُنکا اعتراض واجب ہے لیکن لیاقت علی خان کے محمد علی جناح سے تعلقات اور سیاسی خدمات کو دیکھتے ہوئے عوامی سطح پر اُن پر تنقید مناسب نہیں لگی۔ بہرحال کہتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح اورلیاقت علی خان کے درمیان محمدعلی جناح کے آخری دِنوں میں حکومتی فیصلوں پر اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ دوسرا اعتراض یہ رہا کہ محمد علی جناح جب اپنی زندگی کے آخری دن 11ِ ستمبر 1948، کو کراچی پہنچے تو ایک پرانی ایمبولینس بنا کسی نرس کے اُنکو لینے ماڑی پور ائیرپورٹ بھیجی گئی- شہر آتے وقت ایمبولینس راستے میں ماری پور روڈ پر خراب ہو گئی اور اسی وجہ سے اُنکی حالت مزید خراب ہو گئی۔ اتنی بڑی لاپرواہی کا ذمہدار کون تھا؟ اُ سوقت اُنکی وفا شعار بہن فاطمہ جناح مستقل ان کے ساتھ تھیں۔ جنہوں نے ایک گھنٹے تک دوسری ایمبولینس آنے کا انتظار کیا اور شام گئے محمد علی جناح اللہ کو پیارے ہوگئے۔اب سوال یہ تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ کچھ کے مطابق گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کو انتظامات کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ وزیر ِاعظم اورکابینہ کے علم میں اُنکا کراچی میں واپسی کا علم نہیں تھاکیونکہ پرائیویٹ وزٹ کے موقع پر ایسے ہی ترتیب ہو تی ہے۔ ایک اور وضاحت کچھ اسطرح بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کو اُنکی آمد کا پتا چلا تو وہ کابینہ کی میٹنگ ادُھوری چھوڑ کر ایئر پورٹ پر پہنچے۔ جب وزیراعظم کی گاڑی ایئر پورٹ میں داخل ہورہی تھی تو محمد علی جناح کی ایمبولینس نکل رہی تھی چنانچہ وہ پیچھے ہولیئے۔جب ایمبولینس راستے میں خراب ہوئی تو وہ دوسری ایمبولینس کے آنے تک وہاں پر ہی موجود رہے اور ایمبولینس کو گورنر جنرل ہاؤس پہنچا کر ضروری میٹنگ کے لئے گئے۔ وزیر ِاعظم پاکستان لیاقت علی خان خارجہ امور پر بھی خوب نظر رکھے ہوئے تھے اور ہر ملک سے بہترین تعلقات چاہتے تھے۔اس دوران اُنھیں مختلف ممالک سے دوروں کی دعوت بھی آرہی تھی۔جن میں روس بھی شامل تھا۔لیکن ابھی وہ فیصلہ بھی نہ کر پائے تھے کہ امریکہ سے بھی اُنھیں دورے کی دعوت آگئی۔ لیاقت علی خان 29ِاپریل 1950ء کو امریکہ کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ لندن سے اُنھیں امریکہ کے صدر ٹرومین نے ذاتی طیارے انڈی پنڈ نس کے ذریعے واشنگٹن تک سفر کرنے کا اعزاز بخشا۔ یہ دورہ تقریباً دو ماہ کا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اس سے بہت سے فوائد بھی حاصل ہوئے۔لیکن تب سے پاکستان کی تاریخ میں واضح انداز میں اس دورے پر اعتراض کیا جاتاہے کیونکہ موجودہ دور تک مغربی ممالک کی طرف جھکاؤ کی اولین وجہ یہی دورہ بنا۔بصورت ِدیگر اگرلیاقت علی خان روس کے دورے کو ترجیح دیتے تو پاکستان کی ترقی کے حالات زیادہ بہتر ہو تے۔ اسکی وضاحت کیلئے یہ بات زیادہ غور طلب رہی کہ کیا اگر لیاقت علی خان اُس وقت روس چلے جاتے تو پاکستان کے مذہبی رہنما و عوام اس کو قبول کر لیتے؟ کیونکہ وہاں کا نظام اُس وقت کمیونزم اور سوشلزم پر مبنی تھااور یہ ملک اسلام کے نام پر آزاد ہوا تھا۔(اسکا ثبوت 70 ء کی دہائی میں اُس وقت ملتا ہے جب " سوشلزم ہماری معیشت ہے" کا نعرہ لگا تو اُس پر بھی اگلے کئی سال تنقید ہوتی رہی)۔دوسری وضاحت بھی کچھ اسطرح پیش کی گئی کہ حقیقت میں روس نے لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت ہی نہیں دی تھی بلکہ یہ دعوت حاصل کرنے کی وجہ بنا تھا 1949 ء میں امریکی صدر ٹرومین کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو امریکا کے دورے کی دعوت۔ پاکستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جو اپنی مغرب نواز پالیسوں کے حوالے سے خاصے معروف تھے کو اپنی سُبکی کا احساس ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ مغرب دوست وہ تھے لیکن نہرو جنہیں ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ سمجھا جاتا تھا امریکا کے دورے کیلئے کیوں مدعو کیا گیا؟جسکے بعد سفارتی سطح پرلیاقت علی خان کی خواہش پر روس کے دورے کی کوشش کی گئی جس کے بعد 2 ِجون1949 ء کواُن کو روس کے دورے کی دعوت موصول ہوگئی اور اس کے ٹھیک 5 دِن بعد لیاقت علی خان نے روس کی دعوت قبول کر لی لیکن ابھی وہاں جانے کی تاریخ میں کچھ رد ِو بدل کا سلسلہ جاری تھا کہ امریکہ نے اس دورے کی خبر کو منفی انداز میں لیتے ہوئے فوراً لیاقت علی خان کو امریکہ آنے کی دعوت دے دی۔ لہذا ایک مغربی ملک سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک دم اُنکے دام سے نکل جانا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ جب بھارت نئے ملک پاکستان سے ملک دُشمنی میں ہرحربہ استعمال کر رہاتھا اور امریکہ و روس دونوں بھارت سے بھی بہترین خارجی تعلقات چاہتے تھے۔ساتھ میں سب سے اہم قیام ِپاکستان کے وقت کونسی ایسی اسلامی ریاست تھی جو مضبوط تھی سوائے کسی حد تک ایران کے اور وہ بھی امریکہ اور یورپی ممالک کی سرپرستی میں۔ قیام ِپاکستا ن کے وقت پاکستانی افواج کے پہلے سربراہ انگریز فوجی افسر جنرل سر فرنک میسروی اور دوسرے جنرل سر ڈگلس گریسی تھے۔ اس دوران پاکستان کے دفاع کے معاملے میں لیاقت علی خان نے پاکستان کی بری، بحری اور ہوائی فوج کی تنظیم بہت اعلیٰ طریقے سے مکمل کروائی۔ اُنکی اس حکمت ِ عملی کے باعث پاکستانی افواج کے پہلے پاکستانی کمانڈرانچیف کے مقرر کرنے کا وقت آیا تو اُنھوں نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ایوب خان کا نام پیش کر دیا جو گورنر جنرل نے فائنل کر دیا اور جنرل ایوب خان نے 17 ِ جنوری 1951 ء کو بحیثیت پہلے پاکستانی فوجی افسر کمانڈرانچیف کا عہدہ سنبھال لیا۔ آج تک تاریخ میں اس پر بھی اعتراض اُٹھایا جاتاہے اور اسکو ایک متنازعہ تقرری کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا فیصلہ تھا جسکی کسی کو توقع نہ تھی۔ اُس وقت تک نہ تو ایوب خان کوئی نمایاں شخصیت سمجھے جاتے تھے اور نہ ہی اُنھوں نے پاکستان کے سب سے اہم خارجی مسئلہ ِکشمیر پر48۔ 1947 ء میں ہونے والی جنگ میں حصہ لیا تھا۔بلکہ محمد علی جناح بحیثیت گورنر جنرل ایوب خان کے فوجی معاملات سے نالاں تھے۔ ایوب خان کے اس عہدے تک پہنچنے کی اہم وضاحت یہ بیان کی جاتی ہے کہ 12 ِدسمبر1949 ء کو پاکستان کے سنیئر میجر جنرل افتخار خان اور چند اور اہم فوجی افسران کی ہوائی حادثے میں ہلاکت کی وجوہات کی بنا پر حکومتی ذہنوں میں ایوب خان کا نام اہمیت کا حامل قرار پایا۔ حالانکہ میجر جنرل افتخار خان فوج میں جنرل ایوب خان سے جونیئر تھے لیکن اُنھیں قبل از وقت ترقی دے کر لاہور میں 10 ڈویژن کی کمان دی گئی تھی اور وہ امپیریل ڈیفنس کالج میں ایک سال کے کورس میں شرکت کے لیے لاہور سے کراچی جارہے تھے۔جہاں سے برطانیہ کیلئے روانہ ہونا تھا تاکہ اُنھیں کمانڈر انچیف کے طور پر تقرری کے لیے تیار کیا جا سکے کیونکہ انھیں جنرل ڈگلس گریسی کی جگہ لینے کے لیے تیار ہو سکیں۔لیکن ہوائی حادثہ پیش آنے کی وجہ سے ایوب خان کے وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان سے بہترین تعلقات، سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا سے مضبوط بنیادوں پر دوستی اُنھیں کمانڈر انچیف کی نامزدگی تک لے آئی۔ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹر"میں لکھا ہے کہ برٹش میجر جنرل افتخار خان کی پُشت پناہی کر رہے تھے اور وہ ایک جلد جذباتی ہو جانے والا مشکل شخص تھا۔اسطرح لیاقت علی خان کا فوجیوں کے ہوائی حادثے کے واقعہ کے بعد ایوب خان کو کمانڈر انچیف بنانا کیا ایک غیر متوقع فیصلہ تھا؟ پاکستان کے قیام کے پہلے ہی سال صوبائی سطح پر سیاسی مسائل سامنے آنے شروع ہو گئے۔پاکستان کو آزادی دِلوانے والی جماعت آل اِنڈیا مسلم لیگ کے سربراہان کیلئے ضروری تھا کہ فوراً جماعت کے معاملات پر نظر ثانی کر مرکزی و صوبائی سطح پر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔اس سلسلے میں 13 ِ اور14 ِدسمبر1947ء کو محمد علی جناح کی صدارت میں پہلے تو جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک کا نام " پاکستان مسلم لیگ" رکھ دیا گیا اور دوسری کا اِنڈیا میں جماعت کی اہمیت کو قائم رکھنے کیلئے " اِنڈ یا مسلم لیگ"۔دونوں کے کنوینر کیلئے بالترتیب لیاقت علی خان اور محمد اسماعیل کو نامزد کیا گیا۔ محمدعلی جناح نے جماعت کی صدارت آخری مرتبہ کی تھی۔ بعدازاں چیف آر گنائزر چوہدری خلیق الزمان بنے اور تقریباً ایک سال بعد پاکستان مسلم لیگ کے پہلے صدر۔ چوہدری خلیق الزمان اہم جماعتی و سیاسی ذمہ داریاں اُٹھانے میں بالکل ناکام ہوتے نظر آرہے تھے۔ صوبائی سطح پر حکومتی و جماعتی کشمکش اور مہاجرین کی بحالی پر شدید احتجاج نے اُنھیں مجبور کر دیا کہ وہ جماعت کی صدارت سے استعفیٰ دے دیں۔جسکے بعد پاکستان مسلم لیگ کا اگلے عام انتخابات تک عوامی سطح پر گراف تنزلی کی طرف واضح ہو چکا تھا۔ وزیر ِاعظم پاکستان لیاقت علی خان نے جماعت اور اپنے سیاسی قد کو قائم رکھنے کیلئے 9ِاکتوبر1950 ء کوپاکستان مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی۔جس پر تب سے اب تک بہت اعتراض اُٹھایا جا تا ہے کہ اُنکے اس فیصلے سے جسطرح وزارت ِ عظمیٰ اور پارٹی کی صدارت یکجا کیا گیا تھا اُسکے اثرات آج تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے تین سال تک مسلم لیگ کے اہم عہدے داروں نے آخر کونسا ایسا کارنامہ انجام دیا تھا کہ مسلم لیگ مقبولیت برقرار رہتی۔لیاقت علی خان نے اپنی حکومتی کارکردگی پر اگلا سیاسی الیکشن لڑنا تھا جس میں جماعت کی کارکردگی آڑے آرہی تھی۔ لہذا بعد میں وضاحت کے طور پر اُنکے حق میں یہ بہتر سمجھا گیا کہ اُنھیں آئندہ الیکشن میں لڑنے کیلئے سیاسی جماعت کو بھی ایک رُعب دار شخصیت کے طور پر بہتر کرنا ہے جس میں وہ تحریک ِپاکستان کے دوران بھی جماعت کے اعلیٰ عہدوں پر رہتے ہو ئے کامیابی حاصل کر چکے تھے۔ لیاقت علی خان پر آخری اہم اعتراض " آئین" کے بنانے میں تاخیرکی گئی جبکہ محمد علی جناح بحیثیت گورنر جنرل اُن پر زور دیتے رہے۔دوسرا اِنڈیا نے 26ِ جنوری1950ء ء کو آئین نافذ کر دیا تھا جو اُنکی بہت بڑی کامیابی تھی۔اس پر بھی لیاقت علی خان کے حق میں بہت سی وضاحتیں ملتی ہیں۔جن میں سب سے اہم نوازئیدہ ملک پاکستان میں تمام اُن مذہبی جماعتوں کا اکٹھا ہو جانا تھا جن کامختلف مکتب ِفکر سے تعلق تھا اور وہ اپنے اثر و رسوخ سے آئین ِپاکستان میں اپنے مکتب ِفکر کو اہمیت دِلوانا چاہتے تھے۔ اِن میں تحریک ِپاکستان کے حق میں اور جو حق میں نہیں تھے وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس نئی مملکت کو دُنیا عالم کی" اسلامی مملکت" بنانے پر زور دے رہے تھے۔کونسا مکتب ِفکر اپنے روڈ میپ پر نیت سے ٹھیک تھا؟ اسکا فیصلہ کر کے آئین بنا نا ایک بہت مشکل کام تھا۔بہر حال حکومتی سطح پر لیاقت علی خان نے ایک اہم فیصلے کے تحت مذہبی جماعتوں کے سربراہوں سے رابطہ کر جن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولاناسید سلیمان ندوی جیسے جید علماء میں بھی شامل تھے اور علامہ شبیر احمد عثمانی کا بڑا حصہ تھا۔ جس کے بعد لیاقت علی خان نے مجلسِ دستور ساز اسمبلی میں ایک تجویز پیش کی جس میں مسلمانانِ پاکستان کے اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہو گا۔ اس تجویز کو" قرار داد ِ مقاصد" کا نام دیا گیا اور 12ِمارچ 1949ء کو اس سے منظور کر لیا گیا ۔ پھر اس ہی کی بنیاد پر 9 ِ فروری 1951ء کو اس ملک کے ہر فرقے کے عالم اکٹھے ہوئے اور ایک 22نکاتی دستاویز پر دستخط کیئے۔ جس کے مطابق اگر قانون سازی کی گئی تو وہ علماء اس قانون کو اسلامی بھی مانیں گے اور متفق بھی ہوں گے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ نامور مفکر، دانشور اور شہرت یافتہ " سفرنامہ روڈ ٹو مکہ" کے مصنف" علامہ محمد اسد" جنکی علامہ اقبال سے بھی ملاقات ہوچکی تھی اور مولانا مودودی سے بھی تعلقات تھے پاکستان تشریف لے چکے تھے اور محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کی تائید سے اس اہم کام میں ذمہدار تھے۔ وہ پاکستان کے پہلے ادارے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک رِیکنسٹریکشن کے سربراہ مقرر ہوئے جو" قرار داد ِ مقاصد" کی بنیاد ادارہ بنا تھا۔ لیاقت علی خان ابھی بحیثیت وزیر ِاعظم ابھی اپنی رُعب دار شخصیت کے تحت نئی مملکت کو سنبھالنے کیلئے دِن رات کوششیں کر ہی رہے تھے کہ دُشمنان ِپاکستان نے اُنکے خلاف ایک انتہائی گھناؤنی سازش چلی اور سید اکبر نامی شخص نے 16 ِ اکتوبر 1951ء کو وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ ِ عام میں تقریر کرتے ہوئے دو گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں لیاقت علی خان پر اعتراضات کا سلسلہ اور وضاحتیں ہمیشہ تحقیق و تحریز کا حصہ رہیں گی۔ لیکن اُنکے تمام فیصلوں کے بعد جو کچھ پاکستان میں ہوچکا ہے یا ہو رہا ہے یا جو آئندہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے وہ اُنکے فیصلوں سے زیادہ اُن طاقتوں کو زیر ِبحث لا نے سے اجتناب برتنے کی کوشش کرتا ہے جو قیام ِپاکستان سے ہی حکومت و عوام کو امتحان و مشکل میں ڈالنے کی کوششیں میں لگا ہوا ہے۔لہذا قیام ِپاکستان سے دُنیا بھر کے روشن خیال،قوم پرست،سرمایہ دار،کمیونسٹ مذہب اور لامذہب ذہنوں کے مالک شخصیات نے کس موقع پر کیا کردار ادا کیا ہے اور کس طرح اپنے اپنے مفاد کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے فلاحی پٹری سے دُور رکھا ایک مدت تک زیرِبحث رہے گا۔کوئی ایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے بھی تو فوراً دوسرا اُسکے متعلق منفی آراء سے اپنا گروپ ترتیب دے کر جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے جسکی وجہ سے وقتی تاریخ مسخ ہو جاتی ہے اور لہذا ایک یا دو صدیوں بعد ہی فیصلہ کرنے کی کاشش کی جائے گی کون کس مقام پر کس مقصد کیلئے کھڑا تھا؟ تاریخ ترتیب بھی صدیوں بعد ہی پاتی ہے۔ بہرحال ابھی یہ سلسلہ تاریخ پاکستان کے سربراہان ِمملکت کی سوانح عمریوں سے منسلک کر کے جاری ہے لہذا آگے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کی تاریخ میں کیسا تسلسل ہے۔ کہیں کوئی ایسی تبدیلی واضح ہوئی یا صرف وہی پردے کے پیچھے چُھپی طاقتیں اور پاکستانی عوام کیلئے صرف سیاسی،مذہبی،معاشی اور دفاعی " نعرے"؟ ٭(جاری ہے)٭ سلسلہ پاکستان کے سربراہان ِمملکت ٭٭ اگلی شخصیت " خواجہ ناظم الدین "٭٭
|