خواجہ ناظم الدین(دوسرے گورنر جنرل | دوسرے وزیر ِاعظم) ٭٭٭ قسط دوم ٭٭٭ تاریخ ِپاکستان کا پہلا برطرف وزیر ِاعظم

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب3 ٭

محترمہ فاطمہ جناح۔لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائر)اعظم خان۔خواجہ ناظم الدین

گورنر جنرل و وزیر ِاعظم خواجہ ناظم الدین (1894ء۔1964ء)
تحقیق و تحریر:عارف جمیل

تاریخ ِپاکستان کا پہلا برطرف وزیر ِاعظم٭ قسط دوم ٭

گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کا 11ِستمبر 1948ء کو انتقال ہو گیا۔ جسکی وجہ سے گورنر جنرل کا عہدہ خالی ہو گیا۔ 14ِستمبر 1948ء کو وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان نے کابینہ کے فیصلے کے مطابق بر طانیہ کے بادشاہ جارج کو گورنر جنرل کے عہدے کیلئے خواجہ ناظم الدین کا نام پیش کیا جس کے بعد بادشاہ نے اُنھیں پاکستا ن کا پہلا قائم مقام گورنر جنرل مقرر کیا اور پھر کچھ مدت بعد اُنھوں نے باقاعدہ طور پر پاکستان کے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔ مشرقی پاکستان کی عوام بھی چاہتی تھی کہ اُن کے نمائندے کو مرکزی حکومت میں اہم عہدہ ملے لہذا خواجہ ناظم الدین کے گورنر جنرل بننے پر مشرقی پاکستان کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
گورنر جنرل پاکستان خواجہ ناظم الدین نے عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے ایک تو محمد علی جناح کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے گورنر جنرل میموریل فنڈ قائم کر دیا اور دوسرا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہندوستان پر زور دیا۔
خواجہ ناظم الدین نے جب گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا تو اُن کے کے ذہن میں اُس وقت محمد علی جناح کے اس عہدے پر رہنے کی وجہ سے اس عہدے کی بڑی اہمیت تھی۔پھر چند ہی روز میں اُنھوں نے جان لیا کہ اب یہ عہدہ واجبی سا ہی رہ گیا ہے کیونکہ کے تمام اختیارات وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان نے حاصل کر لیئے ہیں۔ بہرحال خواجہ ناظم الدین نے اپنی سادہ طبیعت کی بدولت وزیر ِاعظم کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنا شروع کر دیا۔
وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان کی16 ِاکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے ایک جلسے میں خطاب کے دوران اچانک گولی لگنے سے شہادت واقعہ ہو گئی تو اس دفعہ وزارت ِعظمیٰ کا عہدہ خالی ہو گیا۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے اِن نازک حالات میں کراچی میں موجود چند کابینہ کے ممبران سے مشورہ کرنے کے بعد 17 ِ اکتوبر 1951ء کو خود وزیر ِاعظم کا عہدہ سنبھال لیا اور اُس وقت کے وزیر ِخزانہ ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔
خواجہ ناظم الدین نے اس فیصلے میں جلدی اس لیئے کی کیونکہ اُنھوں نے لیاقت علی خان جیسا باوقار اور با اختیار وزیر ِاعظم دیکھا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ تھا جو مسلم لیگ اور قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیئے بغیر کیا گیا تھا۔ لیکن دِلچسپ بات جو بعد میں پیش آئی وہ یہ تھی کہ ایک تو مسلم لیگ اور قومی اسمبلی میں اس فیصلے کو بغیر کسی چون و چرا کے قبول کر لیا گیا اور دوسرا یہ کہ16 ِ نومبر 1951ء کو اُنھیں دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کا پارلیمانی لیڈر اور اگلے ہی روز پاکستان مسلم لیگ کا صدر بھی منتخب کر لیا گیا۔ حالانکہ گورنر جنرل کے عہدے پر رہنے کی وجہ سے اُنھوں نے سیاست میں حصہ نہیں لیا تھا اور اُن کے پاس اُس دوران مسلم لیگ کی ابتدائی ممبر شپ بھی نہ رہی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے حکومت میں کسی بھی سیاسی عہدے کو حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی ابتدائی شاخ کا ایک سال کیلئے ممبر ہونا ضروری تھا۔ مسلم لیگ کے ممبران کے مطابق وقت پر کسی بھی قواعد و ضوابط کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ خواجہ ناظم الدین ایک اچھے مسلمان، صحت مند اندازِ فکر کے مالک اور سیاست میں وسیع تجربہ رکھنے والے محمد علی جناح کے مخلص ساتھی تھے اور قوم نے بھی اُن کی اس تقرری پر جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا۔
خواجہ ناظم الدین کے ذہن میں ایک نئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کیلئے زیادہ نہیں تو کچھ اچھے منصوبے تو ضرور ہونگے لیکن اُنھوں نے بڑے نامساعد حالات میں قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ آئینی و اقتصادی آندھیوں کے آثار تو لیاقت علی خان کے زمانے میں ہی دکھائی دینے لگ پڑے تھے اوپر سے اچانک لیاقت علی خان کی شہادت سے ملک کے وہ تمام مسائل بھی جو کافی مدت سے اُس بارُعب شخصیت کے سامنے ٹھنڈے پڑے ہوئے تھے اُبھر آئے۔ اِن میں بنگالی زبان کا مسئلہ، قادیانی عقیدے کا مسئلہ، مسلم لیگ کے مخالفوں کے مطالبات اور مسلم لیگ میں خلفشار و گروہ بندی جیسے مسائل قابل ِذکر تھے۔
خواجہ ناظم الدین نے ان حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور ظاہری بات تھی کہ اس میں کچھ وقت بھی لگنا تھا لیکن اسی دوران اُن کے متعلق یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ ان میں وہ قائدانہ صلاحتیں مفقود ہیں جو کہ ایک سربراہ میں ہونی چاہیں۔ حالانکہ اُن کے ماضی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بظاہر ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کیونکہ اُنھوں نے بطور وزیر ِاعلیٰ مشرقی پاکستان کے صوبے کیلئے کافی کام کیا تھا۔
خواجہ ناظم الدین نے بحیثیت وزیر ِاعظم پاکستان اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کیلئے بین الاقوامی امداد حاصل کی۔ کچھ ممالک سے فوراً نوعیت کے معاہدے کئے اور ملک کی ترقی کیلئے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کو کامیاب بنانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ اِن اقدامات کے باوجود مشرقی پاکستان میں نمک کی مصنوعی قلت وہاں کی عوام کیلئے تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ اسکے علاوہ مغربی پاکستان میں گندم کی قلت کے آثار پیدا ہو گئے کیونکہ بھارت کی جانب سے گندم کی سمگلنگ وسیع پیمانے پر شروع ہو جانے کے ساتھ ساتھ پنجاب کے زمیند اروں اور سندھ کے وڈیروں نے بھی گندم کے ذخیرے روک لیئے تھے۔ لہذا ملک میں گندم کی قلت اور اس سلسلے میں پہلی دفعہ گندم کی بیرون ِملک سے درآمد پر خواجہ ناظم الدین کو" قائد ِ قلت" کے خطاب سے نوازا گیا اور لاہور میں تو" آٹا ڈے اور آٹا جلوس" نکالا گیا۔ دوسری طرف پاکستان کو جنگ ِ کوریا کی وجہ سے جو زر ِمبادلہ حاصل ہوا تھا اُسے بے دریغ خرچ کر دیا گیا اور جنگ ِ کوریا ختم ہو جانے پر پاکستان کی برآمدات خاصی حد تک کم ہو گئیں۔ لہذا ایک طرف تو حاصل شُدہ زر ِ مبادلہ ضائع ہو گیا اور دوسری طرف بیرونی ممالک میں پٹ سن، کپاس اور دوسری زرعی اجناس کی قیمتیں بھی کم ہو گئیں۔
آئینی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ مرتب کروانے اور اسے دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے کیلئے بڑی محنت کی تاکہ ملک میں جو آئینی بحران ہے اُسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ لیکن اس رپورٹ میں مساوی نمائندگی کی تجویز نے آئینی انتشار کو مزید بڑھا دیاکیونکہ پنجاب کے مسلم لیگیوں کے خیال میں مساوی نمائندگی کے اصول سے پنجاب کو نقصان پہنچتا تھا اور جو تجاویز اُنھوں نے پیش کیں تھیں اُنھیں مشرقی پاکستان والوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ رپورٹ پوری طرح اطمینان بخش نہ تھی۔ لیکن اس رپورٹ میں اسلامی اصولوں کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ لہذا پاکستان کے بعض علماء نے ایک کنونشن میں فیصلہ کیا کہ اسے مسترد نہ کیا جائے بلکہ ضروری ترامیم کے بعد اسے قبول کر لیا جائے۔ لیکن چونکہ دینی نظریات کی بجائے دُنیاوی نظریات نے اس صدی میں زیادہ اہمیت حاصل کی ہے لہذا اُس وقت بھی اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ رپورٹ صحیح جمہوری راہوں کی نشاندہی نہیں کرتی ہے لہذا اس پر عمل کرنا فوراً ممکن نہیں ہے۔ اسطرح بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی اس رپورٹ کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے 28 ِدسمبر 1952ء کو غیر اسلامی قرار دے کر مسترد کر دیا۔
خواجہ ناظم الدین کے دورِحکومت میں خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں کیونکہ اُنھوں نے جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو پاکستان کیلئے پسند کیا۔ اُن کی جانبد ارانہ خارجہ پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب نہر ِسویز کے معاملے میں اینگلو مصری تنازعہ ہوا تو یکم نومبر 1951ء کو اُنھوں نے برطانیہ کو جارح قرار دینے کی بجائے مصالحت کروانے کیلئے اپنے تعاون کی پیش کش کر دی۔جس کی وجہ سے مصر کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہو گیا۔ اسی دوران مسئلہ مراکش کے متعلق بھی اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی طرف سے اسکی حمایت میں کوئی بیان نہ دینے کی وجہ سے مراکش اور پاکستان کی عوام کو مایوسی ہوئی۔ ایران کے وزیر اعظم مصدق حسین نے جب اینگلو ایرانین کمپنی کو قومی تحویل میں لے لیا تو برطانیہ کے تعلقات ایران سے کشیدہ ہو گئے۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے اس سلسلے میں برطانیہ کی مخالفت مول نہ لینے کا فیصلہ کیا جس سے پاکستان اور ایران کے تعلقات بھی خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت کی اس قسم کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ملک کے سیاسی حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ پورے ملک میں اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً مظاہرے بھی ہوتے رہے اور حکومت کی خارجہ پالیسی پر شدید نکتہ چینی کی جاتی رہی۔ خواجہ ناظم الدین نے ان حالات میں کئی دفعہ بیانات بھی دیئے جن میں کہا جاتا رہا کہ پاکستان ہمیشہ اسلامی ممالک کی جد و جہد ِ آزادی کا ساتھ دیتا رہے گا اور پاکستان مشرق ِ وسطیٰ میں امن کا خواہاں ہے۔ جبکہ ظاہر تھا کہ حکومت ِ وقت نے پاکستان کو مکمل طور پر امریکہ کی جھولی میں ڈال رکھا ہے۔
حزب ِ مخالف کی جماعتوں نے بھی ان حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت کی خارجی اور داخلی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔ ابھی ملک بھر میں یہ سلسلہ جاری تھا کہ 18 ِمئی 1952ء کو احمدیوں کے خلاف ملک کے بڑے بڑے علماء نے تحریکِ تحفظ ِ ختم ِ نبوت کا کراچی سے آغاز کر دیا۔ اس تحریک کا مقصد اسلام کی برادری سے احمدیوں کا اخراج تھا۔ اُس وقت خواجہ ناظم الدین کے وزیر ِ خارجہ ظفر اللہ خان بھی قادیانی تھے اور انکے علاوہ بھی کچھ قادیانی ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ یہ تحریک وقت کے ساتھ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ لاہور میں 4ِ مارچ1953 ء کو کرفیو اور 6ِمارچ 1953ء کو مارشل لاء لگانی پڑ گئی۔میجر جنرل اعظم خان کو مارشل لا ء کا ناظم ِاعلیٰ مقرر کر دیا گیا۔
وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ نے اس تحریک کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کا رُخ وفاق کی طرف موڑنے کی کوشش کی تاکہ خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کروا کے خود وفاق میں حکومت سنبھال لیں۔ خواجہ ناظم الدین نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا کہ قادیانی تحریک ایک سیاسی چال ہے اور اسے حکومت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت ِپاکستان اس قسم کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے نہیں دے گی۔
اس تحریک کے سلسلے میں خواجہ ناظم الدین نے کرنل اسکندر مرزا کے ساتھ لاہور میں صلاح مشورے کے بعد وزیر ِاعلیٰ پنجاب پر زبردست دباؤ ڈالا کہ وہ وزارت سے مستعفی ہو جائیں یا اپنے خلاف بد عنوانیواں کے مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ مارشل لاء کے ڈنڈے کے آگے میاں ممتاز دولتانہ کی کہاں چلنی تھی لہذا اُنھوں نے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی میں مسلم لیگ کی صوبائی صدارت کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ انکی جگہ مشرقی پاکستان کے گورنر فیروز خان نون جن کا تعلق پنجاب سے ہی تھا کو وزیر ِاعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا گیا۔
بنگالی زبان کا مسئلہ اور پھر کی دیکھا دیکھی سندھ میں بھی سندھی کو سرکاری زبان بنانے کی کوششیں شروع ہو گیئں۔ سرحد میں صو بائی انتخابات کی وجہ سے خانہ جنگی زور پکڑ گئی۔ اسطرح سارے ملک میں عجیب و غریب قسم کی ابتری مچ گئی۔ ان حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے بھی اپنی آئینی حیثیت پر قناعت نہ کرتے ہوئے حکومت کے اصل ختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی۔ ملک غلام محمد نے اس سلسلے میں ایک اندرونی کابینہ بھی بنا لی جن میں سینئر سرکاری افسر بھی شامل تھے۔ لہذا بہت سے مسائل کا وہ اندرون ِ خانہ حل تلاش کرنے لگے جس سے خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں مزید دراڑیں پڑنی شروع ہو گئیں۔
خواجہ ناظم الدین ایک شریف النفس انسان ہونے کے علاوہ ایک تجربہ کار سیاست دان تو پھر بھی تھے ہی لہذا اُنھوں نے بھی ان حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور اس سلسلے میں اُنھوں نے اور اُن کی کابینہ نے ملکی حالات کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے کچھ انقلابی اقدامات اُٹھانے سے بھی گریز نہ کیا۔ جن میں نئی تجارت پالیسی کے تحت مشینری کی درآمد کی اجازت دی گئی تا کہ ملک کی صنعتیں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ گندم کی نجی طور پر درآمد پر پابندی لگا دی گئی تا کہ قیمت کنٹرول کی پالیسی اختیار کی جاسکے اور زرعی اصلاحات پنجاب میں وہی جاری کیں جنکی حکمتِ عملی لیاقت علی خان کی حکومت نے تیار کی تھیں۔
وزیر ِاعظم خواجہ ناظم الدین کے اِن چند اہم اقدامات کے باوجود اُنکی حکومت کے دن پورے ہو چکے تھے۔ ہر طرف سے اُن پر تنقید ہو رہی تھی۔ ملک کا موثر پریس بھی اُن کے حق میں نہ رہا تھا۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو 17 ِ اپریل 1953ء کو اپنی رہائش گاہ پر بُلا کر اُن سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کی طرف سے اچانک اس قسم کے مطالبے پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں آئینی اور قانونی طور پر ایسا مطالبہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں اور ویسے بھی اُن کو دستور ساز اسمبلی اور عوام کا اعتماد حاصل ہے جس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دستور ساز اسمبلی نے بھاری اکثریت سے آئندہ برس کا بجٹ منظور کر کے کیا ہے۔ لیکن گورنر جنرل نے ایک نہ سُنی اور قلم کی ایک جُنبش سے خواجہ ناظم الدین کو اُن کی کابینہ سمیت برخاست کر دیا۔ کیونکہ گورنر جنرل ملک غلام محمد کے مطابق ملک میں جو غذائی قلت اور امن و امان قائم نہ رکھنے جیسی مشکلات تھیں خواجہ ناظم الدین کی کابینہ اُن کا مقابلہ کرنے میں یکسر ناکام ہو چکی تھی۔
خواجہ ناظم الدین نے خاموشی سے اس فیصلے کو قبول تو کر لیا لیکن در پردہ اپنی بحالی کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ اُنھوں نے اس مقصد کیلئے ملکہ برطانیہ تک رسائی بھی حاصل کی وہاں سے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہ آیا۔ اس دوران خواجہ ناظم الدین نے اپنی برطرفی کے بعد جب بحیثیت صدرِ مسلم لیگ جماعت کی مجلس ِ عامہ کا اعلان کیا تو مشرقی پاکستا ن کے وزیر ِاعلیٰ نورالامین اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ملک فیروز خان نون نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ ا کے علاوہ اُنھیں پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے خارج کرنے کیلئے پارٹی میں سے ہی چند ارکان کے قرار داد ِ مذمت کے نوٹس آگئے۔ اُنھوں نے ہوا کا رُخ پہچان لیا اور صدارت کے عہدے سے چمٹے رہنے کی بجائے پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے از خود استعفیٰ دے دیا۔ خواجہ ناظم الدین اس کے بعد ملکی سیاست سے دل برداشتہ ہو گئے حالانکہ 11ِ اکتوبر 1954ء میں اُنھیں ایک دفعہ پھر وزیرِ ِاعظم بنانے کی کوشش شروع کی گئی لیکن ایک سال کے عرصہ میں سیاست سے علحیدگی نے اُنھیں ایک دفعہ پھر اس عہدے کی طرف راغب نہ ہونے دیا۔ لہذا اس کے بعد تو تقریباً سیاست سے کنارہ کش ہی ہو گئے۔
خواجہ ناظم الدین کی سیاست سے یہ کنارہ کشی1962ء تک قائم رہی لیکن جب آمریت کے خلاف کچھ خوشبو آئی تو اس وقت مسلم لیگ میں میں کوئی ایسا رہنما باقی نظر نہ آ رہا تھا جو اخلاص اور دیانت داری سے مسلم لیگ کو دوبارہ بہتر طریقے سے منظم کر سکے اس پر خواجہ ناظم الدین کو احساس پیدا ہوا کے مسلم لیگ کو پھر منظم کیا جائے۔ اس ہی دوران مسلم لیگ کے کارکنوں نے بھی خواجہ ناظم الدین کو پھر سے سیاست میں آنے پر مجبور کیا اور جب اُنھوں نے ہاں کر دی تو اُنھیں ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ کا صدر چُن لیا گیا۔
خواجہ ناظم الدین نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے سب سے پہلے مسلم لیگ کی تنظیم ِ نو کا کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں اُن کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ اُنھوں نے 1964ء میں محمد علی جناح کی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو پاکستان کی صدارت کا انتخاب لڑنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ پاکستان کی صدارت کیلئے مقابلہ صدر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہونا تھا لہذا اس مقابلے کو جمہوریت اور آمریت کا مقابلہ قرار دیا جانے لگا۔
خواجہ ناظم الدین نے اس سلسلے میں اپنی کمزوری اور بیماری کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کے دونوں حصوں کے دورے کیئے۔ اس انتخاب کیلئے مخالف دینی اور سیاسی جماعتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اُن کا کارنامہ تھا۔ جس سے صدارتی انتخابات میں ایک نئی جان پڑ گئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح جن دِنوں انتخابی مہم کیلئے مشرقی پاکستان میں تھیں تو خواجہ ناظم الدین طبیعت کی خرابی کے باعث اُنکے ساتھ باقاعدہ مہم میں حصہ نہیں لے پا رہے تھے۔ لہذا 22ِاکتوبر1964ء کی صبح وہ محترمہ فاطمہ جناح سے ملنے گئے اور شام کو خواجہ ناظم الدین سے لیفٹیننٹ جنرل)ریٹائر) اعظم خان نے ملاقات کیلئے آنا تھاکہ اس دوران ڈھاکہ میں خواجہ ناظم الدین پر دِل کا ایسا دورہ پڑا کے پھر جانبر نہ ہو سکے اور اپنے مالک ِحقیقی سے جا ملے۔ اگلے روز اُنھیں ڈھاکہ میں دفن کر دیا گیا۔
٭(جاری ہے)٭



Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341472 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More