پاکستان کا بحران خطہ کے لیے خطرناک ثابت ہوگا

د

گزشتہ ہفتہ پڑوسی ملک پاکستان میں شدید سیاسی بحران کاذکرشروع کیا،اور اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم جائزہ لیں گے تو اس بات کا احساس ہوگا کہ پاکستان سیاسی سطح پر ہی نہیں بلکہ کئی محاذ پر جوجھ رہا ہے، افراط زر ،بھکمری ،بجلی اور پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ متعدد دقتوں اور پریشانیوں سے نبردآزما ہیں ، لیکن حکمراں طبقہ اور حزب اختلاف بے حس نظر آتا ہے۔پہلے ہی سیاستدانوں کے درمیان تصادمی کیفیت نظر آتی رہی ہے مگر فی الحال تو سیاست سے ہٹ کر ذاتی رنجش نمایاں نظر آتی ہے،ان میں انتقامی جذبہ ابھر چکاہے۔

اس سے قبل 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شدید بحران پیدا ہوا تھا ،اس کے بعد گزشتہ نصف صدی کے دوران مغربی طاقتوں کی ایماء پر کئی مرتبہ منتخب حکومتوں کا تختہ پلٹ اور فوجی قیادت کا ابھر کرآنا ہے جوکہ کافی نقصان دہ ثابت ہوا ،پاکستان کے کاز کو سب سے زیادہ نقصان افغانستان میں مجاہدین کے پنپنے اور روسی فوج کے ملک میں داخل سے لاکھوں پناہ گزینوں سے پاکستان آنے پر۔پاکستانی۔معاشرے اور معاشیت دونوں تباہی سے دوچارہوئے ہیں۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے ممکن۔ہے کہ فوجی طاقت کو مضبوط کیا ہو ،لیکن سیاسی طاقت زوال پذیر ہی ہوئی ہے۔ذوالفقار بھٹو اور ان۔کی صاحبزادی بے نظیر کے سیاسی قتل کے دوران اور بعد میں اتنے چہرے سامنے آئے کہ ان کا نام بھی پاکستانی عوام کویاد نہیں رہا ہوگا۔

عمران خان کے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے کے باوجود انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا گیا اور اس سازش میں حزب اختلاف اور درپردہ فوج بھی شامل رہی ہے اور نصف صدی سے فوج سیاست پر حاوی رہی ہے،عمران خان فوج کو سرحد تک محدود کر دینے کے حامی رہے ہیں گے ۔

یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان کے بڑے سرپرست اپنی اہمیت کو سیاست میں برقرار رکھنے کے لئے عمران خان کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے ٹھکانے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس ٹولے میں سیاسی میدان میں ان کے مخالفین بھی شامل۔ہوچکے ہیں۔ اس دوران عمران نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیااورفوج اور شہباز حکومت سے لوہا لے رہے ہیں ۔حالانکہ عمران خان کو ملک چھوڑنے کی بھی پیش کش کی گئی ہے لیکن فی الحال وہ ملک میں صاف شفاف الیکشن کے علاوہ کسی بھی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے رہنماؤں کے خلاف سرکاری کارروائی جاری ہے اور خود عمران خان کی گرفتاری کے وقت عدالت کے احاطہ میں ان سے بدسلوکی کی گئی ۔

ویسے عام خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ عمران خان نے کئی امور پر سمجھوتہ کرلیا ہے جبکہ دوسری طرف ان کے ساتھی وفاداری کی قیمت چکا رہے ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ عوام ہیں، لیڈروں کے جانے سے اُنکی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑےگا اور آخر کار وہ ہی کامیاب ہوں گے۔
پاکستان میں خانہ جنگی جیسی صورتحال ہے ،عوام کی بیزاری اور پریشانی کا کسے خیال نہیں ہے، ملک کی معاشی حالت نازک بتائی جاتی ہے اور منہگائی آسمان چھو رہی ہے ۔روزمرہ کی اشیاء آٹا،دال اور چاول لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چلا ہے۔ان حالات کو بہتر بنانے کے بجائے حکمراں جماعت اپنے وجود کو بچانے کی آخری لڑائی میں حزب اختلاف کو ٹارگٹ کررہی ہے۔ برسراقتدار جماعت کو معلوم ہے کہ اگر عمران خان پھر حکومت میں واپس آ گیا اور مخالفین کو ختم کر دیگا ۔اور تو اور فوج کو بھی اپنے دائرے میں رہنے کا قانون بنا دیگا۔

پاکستانی حکمراں ٹولہ اور فوج کو بد عنوانی سے گریز نہیں ہے ۔البتہ عمران خان نے بدعنوانی کے خلاف سخت قدم اٹھائے تھے۔

اس شہ اور مات کے کھیل میں ایک بات اچھی ہوئی ہے کہ پاکستانی عدلیہ نے قابل تعریف کام کیا ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔خاص کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال قانون کی بالا دستی قائم رکھی ہے اور حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے بلکہ آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر چٹان کی طرح کھڑے رہے ۔چیف جسٹس اور عدلیہ کو بھی بے عزت کرنے کی سازش جاری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کئی محاذ پر مقابلہ کررہے ہیں ،عمران خان کا مقابلہ صرف برسراقتدار جماعت یا گروہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی لڑائی سب ہی سے چل رہی ہے۔ یہ تصور کیا جارہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ عوام ہے۔ اور زیادہ دیر تک عوام کو کچلا نہیں جا سکتا ہے ۔پاکستان ایک بار پھر نصف صدی پیچھے جاتا نظر آ رہا ہے، جب مسلح عوام حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے ،ویسے ان حالات کو بہتر نہیں کیا گیا توپاکستان کابحران جنوبی ایشیاء کے لئے خطرناک ہوگا۔

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 39946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.