علامہ اقبالؒ نے فرمایا
دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
یہ زکات ہی تو ہے جو ’’سلطنتِ پنجاب‘‘ نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے
ہوئے پینشنرز کو دینے کا اعلان کیا۔ بہتر ہوتا کہ پنجاب حکومت 5 کی بجائے
اڑھائی فیصد اضافہ کردیتی تاکہ پینشنرز بھی یہ کہہ سکتے کہ اب وہ بھی زکات
کے مستحق ہیں۔ عین اُس وقت جب نگران حاکمانِ پنجاب پینشنرز کی پینشن میں 5
فیصد اضافے کا اعلان کر رہے تھے، سینٹ میں چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کی
مراعات میں اضافے کا ایک ایسا بِل منظور ہورہا تھا جسے پڑھ کر یوں محسوس
ہوا کہ جیسے پاکستان دنیا کے امیرترین ممالک میں سرِفہرست ہو۔ بِل کے مطابق
چیئرمین سینٹ کے آفس کا الاؤنس 6 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار کر دیا گیا۔ گھر
کا کرایہ ایک لاکھ 3 ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ روپے ماہانہ اور چیئر مین
سینٹ کی سرکاری رہائش گاہ کے فرنیچر کے لیے ایک بار کے اخراجات ایک لاکھ
روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ کر دیئے گئے۔ بیرونِ ملک سفر پر چیئرمین کو نائب
صدر کا پروٹوکول اور جہاز پر سفر کرنے کے لیے حکومت، فوج، فلائنگ کلب یا
چارٹرڈ سروس کا جہازریکوزیشن کیے جانے کی منظوری دی گئی جبکہ چیئرمین صاحب
ریکوزیشنڈ جہاز پر گھر کے 4 افراد کو ساتھ لے جا سکیں گے۔ سابق چیئرمین
سینٹ کو 12 ملازمین کا عملہ ملے گااور رہائش گاہ پر سکیورٹی کے 6 اہلکار
تعینات ہوں گے۔ فضائی حادثے کی صورت میں معاوضہ 3 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ
کر دیا گیا۔ چیئر مین سینٹ کا صوابدیدی فنڈ 18 لاکھ روپے کر دیا گیا۔ اِس
کے علاوہ ارکانِ سینٹ کا سفر بذریعہ سڑک 10 روپے سے بڑھا کر 30 روپے فی
کلومیٹر کر دیا گیا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ سینیٹر ز کہتے ہیں کہ اُنہوں نے بِل
دیکھا اور نہ ہی پڑھا ہے۔ اُنہیں تو کہا گیا کہ اِس بِل کو ایوان میں منظور
کرنا ہے، اِس لیے اُنہوں نے کر دیا۔ جب ایوانِ بالا کے ارکان کا یہ حال ہو
تو پھر ’’کیا کسی کا گِلہ کرے کوئی‘‘۔ ہمارا موضوع البتہ وہ مجبورومقہور
اور نحیف وناتواں پینشنرز ہیں جن کی پینشن میں 5 فیصد اضافہ کرنے کے بعدکہہ
دیاگیا کہ اگر وہ غلطی سے 80 سال کی عمر کو پہنچ گئے تو پھر اُن کی پینشن
میں 20 فیصد اضافہ ہوگا۔ حاکمانِ وقت سے سوال ہے کہ پاکستان میں 80 سال کی
عمر کو پہنچنے والے پینشنرز کتنے ہوں گے؟جبکہ پاکستان میں اوسط عمر ہی 65
سال ہے۔
جب مرکزی بجٹ میں تنخواہوں میں 35 اور پینشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا
گیا تو میں نے اُس وقت بھی لکھا کہ کمر توڑ مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے
یہ اضافہ بقدرِاشکِ بُلبل ہے لیکن پنجاب کی نگران حکومت نے تو 5 فیصد اضافہ
کرکے پینشنرز کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہی کر دیا۔ آل پاکستان پینشنرز سوسائٹی
نے اِس ’’مذاق‘‘ پر شدید احتجاج کا اعلان بھی کر دیا ہے مگر میرے خیال میں
اِس شدید گرمی میں سالخوردہ پینشنرز سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی نہیں کر
سکیں گے۔ البتہ وہ اپنا سارا غصّہ آمدہ الیکشن میں نوازلیگ پر اُٹاریں گے۔
میری کئی پینشنرز سے بات ہوئی ہے۔ اُن میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملا
جس نے نوازلیگ کو ووٹ دینے کا عندیہ دیا ہو۔ سبھی نے حلفاََ کہا کہ اُنہیں
گھر بیٹھنا منظور ہے، نواز لیگ کو ووٹ دینا منظور نہیں۔ یہ صورتِ حال نواز
لیگ کے ووٹ بنک میں ڈینٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اِس لیے میاں نوازشریف، میاں
شہباز شریف اور نوازلیگ کی چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز کو اِس کا کوئی
نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔
پنجاب کے نگران وزیرِاعلیٰ محترم محسن نقوی نے صرف 90 دنوں کے لیے یہ منصب
سنبھالا لیکن مخدوش معاشی حالات کے پیشِ نظر یہ مدت بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر
بھی یہ 90 دن ضیاء الحق کے 90 دن نہیں، بالآخر انتخابات بھی ہونے ہیں اور
نگرانوں نے گھر بھی لوٹنا ہے۔ محترم محسن نقوی کا تعلق چونکہ اہلِ صحافت کے
قبیلے سے ہے اِس لیے وہ کسی بھی دوسرت شخص سے بہتر جانتے ہیں کہ موجودہ
حالات میں پینشن میں 5 فیصد اضافہ مذاق ہے، محض مذاق۔ حیرت ہے کہ ’’صاحب نے
کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کے مصداق محسن نقوی صاحب یہ
بدنامی کیوں مول لے رہے ہیں؟۔ اگر اُن کے نزدیک دگرگوں معاشی حالات اِس کی
اجازت نہیں دیتے تھے تو پھر مرکز اور دیگر تمام صوبوں نے منخواہوں میں 35
فیصد اور پینشن کیں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیوں اور کیسے کر دیا؟۔ سوال یہ
بھی ہے کہ کیا پنجاب میں مہنگائی دوسرے صوبوں سے کم ہے؟۔ کیا پنجاب میں
راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے؟۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ کیا پاکستان کی تاریخ
میں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ صوبے بجٹ میں مرکز کی پیروی نہ کریں؟۔ مرکز
اور صوبوں کے بجٹ میں اُنیس بیس کا فرق تو قابلِ قبول لیکن یہاں تو معاملہ
ہی یکسر اُلٹ ہے۔ محسن نقوی صاحب کے بارے میں شنید ہے کہ وہ محترم آصف
زرداری کے بہت قریب ہیں۔ یہ بھی سُنا تھا کہ مرکزی بجٹ میں آصف زرداری اور
میاں شہباز شریف نے دباؤ ڈال کر تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ کروایا۔ بجٹ
سے پہلے پیپلز پارٹی کے سیّد خورشید شاہ نے تو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے
یہاں تک کہہ دیا کہ تنخواہوں اور پینشن میں کم از کم 40 فیصد اضافہ ہونا
چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے آدھے پاکستان سے بڑے صوبے کے بجٹ
میں یہ لوگ کہا جا سوئے تھے؟۔ پیپلز پارٹی کو تو خیر کوئی فرق نہیں پڑتا
کیونکہ 2018ء کے عام انتخابات میں اُس کی پنجاب میں نمائندگی نہ ہونے کے
برابر تھی لیکن نوازلیگ تو اُن انتخابات میں بھی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی
جماعت بن کر سامنے آئی۔ یہ بھی طے کہ گزشتہ 4 عشروں سے پنجاب میں حکومت
زیادہ تر نوازلیگ کے پاس ہی رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کی ساڑھے 3 سالہ بزدار
حکومت نے جو گُل کھلائے وہ بھی سب کے سامنے۔ تونسہ کا یہ درویش جب
وزیرِاعلیٰ بنا تو اُس کے کُل اثاثے 7 لاکھ تھے لیکن اب یہ اثاثے سوا 2 ارب
سے زائد، جن میں 2 ہزار 700 کنال زرعی زمین، 15 پلاٹس اور کئی گاڑیاں ہیں۔
فرح گوگی اور بشریٰ بی بی کی کرپشن کہانیاں الگ لیکن ہمارا یہ موضوع نہیں۔
میں تو کارپردازانِ نوازلیگ کو جھنجھوڑنا چاہتی ہوں کہ اُن کے موجودہ
سواسالہ دَورِ حکومت میں مہنگائی اپنی ساری حدیں توڑ چکی جس کی بنا پر بہت
سے لوگ پہلے ہی نوازلیگ سے بَددل ہو چکے۔ خود نوازلیگ کے اکابرین بھی
اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک بچانے کی خاطر اپنی پاپولر سیاست کی
قربانی دی۔ تو کیا پنجاب کے پینشنرز کی پینشن میں موجودہ اضافے جیسا مذاق
اُن کی شہرت کو نقصان نہیں پہنچائے گا؟۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بجٹ
نگران حکومت کا ہے تو یہ اُس کی بھول ہے کیونکہ ہر کہ ومہ جانتا ہے کہ محسن
نقوی اتحادی حکومت کا منتخب کردہ ہی نگران وزیرِاعلیٰ ہے۔ اِس لیے پینشن
میں 5 فیصد اضافے جیسا امتیازی اور ظالمانہ سلوک آمدہ انتخابات میں نوازلیگ
کے ووٹ بنک میں کمی کا سبب بنتا ہوا نظر آتا ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ پاکستانی معاشرے میں آج بھی نہ صرف بزرگوں کا احترام کیا
جاتا ہے بلکہ اُن کے کہے کو حکم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ ایک پینشنر کا صرف
اپنا ہی ووٹ نہیں ہوتا، اُس کے پورے خاندان کے ووٹ بھی ہوتے ہیں اور عمومی
طور پر پورے گھرانے کے ووٹ اپنے بزرگوں کی پیروی میں ہی دیئے جاتے ہیں۔ اِس
لیے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک بوڑھے بیمار، نکبت میں گرفتارکا ووٹ اگر نہ
بھی ملا تو کیا فرق پڑے گا۔ جب حکمران پینشنرز کے ساتھ چند سو روپے اضافے
جیسا بھونڈا مذاق کریں گے تو اُس کے جواب کے لیے بھی اُنہیں تیار رہنا
ہوگا، جو ووٹ کی صورت میں ہو گا۔
|