آزادی کا مطلب لوگ اپنے افکار،نظریات و فلسفے کے مطابق زندگیاں گزار سکیں۔”


قوموں کی تاریخ میں آزادی کا دن بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔زندہ قومیں یہ دن عزم،ولولے اور جوش کے ساتھ مناتی ہیں۔باوقار قومیں اس دن اپنے لیے نصب العین اور مقاصد کا تعین کرتی ہیں۔منزل کے حصول کے لیے راہِ عمل متعین کی جاتی ہے اور ماضی کے تجربات اور اقدامات کا محاسبہ بھی کیا جاتا ہے۔
آزادی کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ قوم کے افراد اپنے افکار،نظریات اور فلسفے کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔قوموں کے افکار اور نظریات صدیوں کے سفر کے بعد متعین ہوتے ہیں۔یہی افکار ان کے تہذیبی ورثے کی بھی آئینہ داری کرتے ہیں۔آزادی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افراد اپنے اس تہذیبی ورثے کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اس کے ارتقاء میں معاون ہوں اور ان مزاہم قوتوں کا بھی قلع قمع کریں جو اس ورثے کوتباہ کرنے پر آمادہ ہوں۔آزادی بالعموم تاریخی،سماجی،معاشی اور تہذیبی عوامل کے تحفظ اور بقا کا نام ہوتی ہے۔
آزادی حاصل کرنے سے اپنی آزادی کی حفاظت کرنا اور اسے برقرار رکھنا زیادہ مشکل اور اہم بھی ہوتا ہے۔ جو قومیں اپنے ماضی کا احتساب کرنا جانتی ہوں وہ اپنی آزادی کی حفاظت بھی خوب کر سکتی ہیں۔ جو قوم مڑ کر اپنی تاریخ کی طرف نہیں دیکھتی وہ اپنے مستقبل کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتی ۔تاریخ کو کوڑے دان میں نہیں پھینکا جا سکتا ۔جب تک ماضی میں سر زد ہونے والے تحسامات کا ازالہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک عمارت میں موجود نقص دور نہیں ہوگا۔احتساب اسی کا نام ہے۔آزادی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے نصب العین اور مقاصد کا ازسرِ نو تعین کریں۔پاکستان میں آزادی کا دن منانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم جہاں سامراج سے آزادی ملنے کی خوشی منائیں وہاں یہ بھی دیکھا جائے کہ ہم اپنی منزل سے کتنے دور ہیں اور راستے میں کتنی مشکلات ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔
آزادی کیا ہوتی ہے؟ آزادی خودکفالت کا نام ہے۔ آزادی سماجی طمانیت کا نام ہے۔ آزادی عزّت نفس بحال رہنے کا نام ہے۔ آزدی خوشحالی اور خوشبختی کا نام ہے۔ آزدی گفتار، عمل، احتجاج اور شکایت کے برملا اظہار کا نام ہے۔ آزادی غلط روایات اور فرسودہ خیالات سے جان چھڑائے جانے کو کہا جاتا ہے۔ آزادی رجعت پسندی سے گریز اور ترقی پسندی کی پذیرائی کو کہا جاتا ہے۔ آزادی سائنس سے وابستگی اور فنون سے لگاؤ کو کہتے ہیں۔ آزادی علم کے حصول اور علم کو روزگار کا ذریعہ نہ بنائے جانے بلکہ لوگوں کو استفادہ پہنچائے جانے کو کہا جاتا ہے اور آزادی بدعنوانی، بددیانتی، بدکرداری اور بدخصائل سے یکسر نجات پائے جانے کا نام ہے، آج کل ہمارے نوجوان اکثر یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں بتائیے کہ ہم کس قدر آزاد ہیں اور کیا آزاد ہیں بھی یا نہیں اور کس قدر آزاد ہیں.
اگر ہماری اچھی تربیت کے طور طریقوں کا اطلاق امیر و غریب تمام بچوں پر کیا جائے تو محض ایک نسل ہمارے تمام سماجی مسائل حل کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ تاہم تربیت پر اصرار کے سبب تمام فریق یہ بات بھول گئے ہیں کہ تعلیم میں اہم شے کیا ہوتی ہے۔ بچپن گزارنے کے بعد خواہشوں کو کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں بدلا نہیں جا سکتا۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ انسانوں کو بچپن ہی میں "زندہ رہو اور زندہ رہنے دو" کا سبق سکھایا جائے۔ انسان اگر ایسی چیزوں کی خواہش نہ کرنے لگیں جن کو صرف دوسروں کی بدقسمتی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے تو پھر سماجی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گی اور انسان بھی صیح آزادی کا لطف اُٹھا پائیگا اور ہم ایک نئے پاکستان میں جہالت ، غربت، بھوک و افلاس وغیرہ سے پاک معاشرہ ہی دنیا کے ساتھ مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.