اسلامی تصور کائنات میں انسان کی ایک عجیب داستان سامنے آتی ہے اسلامی نکتہ
نگاہ سے وہ صرف ایک راست قامت چلنے پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیں قرآن
حکیم کی نظر اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری اور پراسرار ہے کہ چند جملوں
میں اس کی توصیف کی جا سکے۔ قرآن حکیم میں انسان کی توصیف بھی بیان کی گئی ہے
اور مذمت بھی۔
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔
جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے
پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن حکیم کی نظر اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری
اور پراسرار ہے کہ چند جملوں میں اس کی توصیف کی جا سکے۔ قرآن حکیم میں انسان
کی توصیف بھی بیان کی گئی ہے اور مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں
سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی
نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں
سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل
السافلین میں بھی گر سکتا ہے. “اور جب تیرے رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو
فرشتوں کو آگاہ کیا فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد
کرے گا اور خون بہائے گا؟ اللہ نے فرمایا: بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے۔“( سورہ بقرہ آیت ۳۰)
”اور اسی خدا نے تم (انسانوں) کو زمین میں اپنا نائب بنایا ہے تاکہ تمہیں دیئے
ہوئے سرمائے کے ذریعے تمہارا امتحان لیا جائے۔“ ( سورہ انعام آیت ۱۶۵)
انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔ انسان
کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے
اور اس کے وجود سے آگاہ ہے تمام شکوک و شبہات اور افکار انسانی فطرت سے انحراف
اور بیماریاں ہیں۔
انسانی فطرت میں ان مادی عناصر کے علاوہ جو جمادات نباتات اور حیوانات میں ہیں
ایک آسمانی اور روحانی عنصر بھی موجود ہے گویا انسان جسم اور روح (عالم مادہ
اور عالم معنی) کا مرکب ہے۔
انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں بلکہ ایک مقررہ طریقے پر ہوئی ہے اور وہ خدا کا
برگزیدہ اور منتخب کیا ہوا ہے۔
”خدا نے آدم کو منتخب کیا پھر اس کی جانب متوجہ ہوا اور اس کو ہدایت کی۔“( سورہ
طہٰ آیت ۱۲۲)۔
انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں
تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔
اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور
سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔
خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو
خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو
پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔
انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ ”یاد خدا“ ہے اس کی خواہشات
لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو
جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔
|