’’حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر قرآن پڑھا کرتے تھے اور وہ بہت خوبصورت آواز والے تھے سو وہ (اسید) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : (یا رسول اللہ!) جب میں قرآن پڑھتا ہوں تو بادلوں کی طرح کوئی چیز مجھے گھیر لیتی ہے اور میرے گھر میں میری بیوی ہے اور ایک گھوڑا ہے تو میں ڈر جاتا ہوں کہ میری بیوی (خوف سے) گر نہ پڑے اور گھوڑا (ڈر کر) بھاگ نہ جائے لہذا میں جلدی سے (تلاوت سے) ہٹ جاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے اُنہیں فرمایا : اے اُسید! تم اِسے پڑھتے رہا کرو، بیشک یہ ایک فرشتہ ہے جو قرآن کو (بہت شوق سے) سنتا ہے۔‘‘ أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب فضائل القرآن، 1 / 739، الرقم : 2033.2034، وأيضًا، 3 / 326، الرقم : 5259، والبزار في المسند، 8 / 178، الرقم : 3209، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 486، الرقم : 4182، ’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک یہ قرآن اﷲ تعاليٰ کا دسترخوان (عطیہ و نعمت) ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس کے دستر خوان میں سے حاصل کر لو. یہ قرآن اﷲ تعاليٰ کی رسی، چمکتا دمکتا نور اور نفع بخش علاج ہے۔ جو اس پر عمل کرے اس کے لیے (باعثِ) حفاظت اور جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے (باعثِ) نجات ہے۔ یہ جھکتا نہیں کہ اس کو کھڑا کرنا پڑے۔ ٹیڑھا نہیں ہوتا کہ اسے سیدھا کرنا پڑے۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے اور بار بار کثرت سے پڑھتے رہنے سے بھی پرانا نہیں ہوتا (یعنی اس سے دل نہیں بھرتا) اس کی تلاوت کیا کرو کیوں کہ اﷲ تعاليٰ اس کی تلاوت پر تمہیں ہر حرف کے عوض دس نیکیوں کا اجر عطا فرماتا ہے۔ یاد رکھو! میں یہ نہیں کہتا کہ الۤم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف (ایک حرف ہے)، لام (ایک حرف ہے) اور میم (ایک حرف ہے گویا صرف ال م پڑھنے سے ہی تیس نیکیاں مل جاتی ہیں).‘‘ أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب فضائل القرآن، باب أخبار في فضائل القرآن جملة، 1 / 741، الرقم : 2040، والدارمي في السنن، کتاب فضائل القرآن، باب فضل من قرأ القرآن، 2 / 523، الرقم : 3315، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 125، الرقم : 30008، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 375، الرقم : 6017، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 130، الرقم : 8646، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 342، الرقم : 1985، والمنذري في الترغيب و الترهيب، 2 / 231، الرقم : 2208. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا : قرآن مجید کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسے ہی ہے جیسے (خود اس) رحمن کی فضیلت اُس کی تمام مخلوقات پر ہے۔‘‘ أخرجه أبو يعلی في المعجم، 1 / 240، الرقم : 294، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 404، الرقم : 2208. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت کے درجات قرآن کی آیات کی تعداد کے برابر ہیں۔ سو جب قرآن والوں میں سے کوئی جنت میں داخل ہوگا تو اُس کے اوپر کسی اور کا درجہ نہیں ہوگا۔‘‘ المصنف، کتاب فضائل القرآن، باب في فضل من قرأ القرآن، 6 / 120، الرقم : 29952، شعب الإيمان، 2 / 347، الرقم : 1998، الترغيب والترهيب، 2 / 228، الرقم : 2199. ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : اُس شخص کو (کبھی) فاقہ نہیں ہو گا جو قرآن مجید پڑھتا ہے اور اُس (قرآن مجید) کے بعد اُس کے لیے (اُس سے بڑی) کوئی غنا (دولتمندی) نہیں ہے۔‘‘ المصنف، کتاب فضائل القرآن، باب في فضل من قرأ القرآن، 6 / 120، الرقم : 29954، ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ حضرات قبائل عرب میں سے ایک قبیلے میں گئے تو اُنہوں نے اُن کی ضیافت نہ کی. اِسی اثنا میں اُن کے سردار کو کسی موذی جانور نے کاٹ کھایا تو وہ (ان کے پاس آکر)کہنے لگے : کیا آپ کے پاس کوئی دوا یا دم کرنے والا ہے؟ اُنہوں نے کہا : چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی لہٰذا ہم اُس وقت تک کچھ نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے ساتھ کچھ (معاوضہ) مقرر نہ کرلو. سو اُنہوں نے (بدلے میں) کچھ بکریاں دینا منظور کیا چنانچہ (اُن میں سے ایک نے) سورہِ فاتحہ پڑھی اور تکلیف والی جگہ پر تھوک دیا.اُس کی تکلیف دور ہوگئی وہ بکریاں لے کر آئے تو اُن صحابہ نے کہا : ہم اُس وقت تک نہیں لیں گے جب تک حضور نبی اکرم ﷺ سے اِس کے متعلق پوچھ نہ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہوں نے پوچھا تو آپ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا : تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ (سورہِ فاتحہ) دم کرنے کی چیز ہے؟ خیر بکریاں لے لو اور اُن میں میرا حصہ بھی رکھو.‘‘ البخاري في الصحيح، کتاب الطب، باب الرقي بفاتحة الکتاب، 5 / 2166، الرقم : 5404، ومسلم في الصحيح، کتاب السلام، باب جواز أخذ الأجرة علی الرقية بالقرآن والأذکار، 4 / 1727، الرقم : 2201. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو، بے شک شیطان اُس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہِ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔‘‘ مسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب صلاة النافلة في بيته وجوازها في المسجد، 1 / 539، الرقم : 780، والترمذي في السنن، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل سورة البقرة وآية الکرسي، 5 / 157، الرقم : 2877، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 13، الرقم : 8015، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 388، الرقم : 9030. ’’حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن مجید پڑھا کرو کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا شفیع بن کر آئے گا، اور دو روشن سورتیں ’’سورہِ بقرہ اور سورہِ آل عمران‘‘ پڑھا کرو کیوں کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا اُڑتے ہوئے پرندوں کے دو جُھنڈ ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی وکالت کریں گی. سورہِ بقرہ پڑھا کرو، اس کا پڑھنا برکت ہے اور نہ پڑھنا حسرت ہے، جادوگر اس (کی برکات) کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘ مسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب فضل قرائة القرآن وسورة البقرة، 1 / 553، الرقم : 804، والدارمي في السنن، کتاب فضائل القرآن، باب في فضل سورة البقرة وآل عمران، 2 / 543، الرقم : 3391، المصنف، 3 / 365، الرقم : 5991، ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور بے شک قرآن کی بلندی سورہِ بقرہ ہے اوراس میں ایک آیت (یعنی) آیت الکرسی، تمام قرآنی آیات کی سردار ہے۔‘‘ الترمذي في السنن، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل سورة البقرة وآية الکرسي، 5 / 145، الرقم : 2878، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 376، الرقم : 6019، والحاکم في المستدرک، 1 / 748، الرقم : 2058، 2059، جاری ہے۔
|