آپ 61؍ ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے اور 101ہجری میں وفات
پائی۔ آپ کو دور حکومت ڈھائی سالوں پر محیط ہے ۔ملوکیت کو خلافت میں بدل
رہے تھے کہ بنو امیہ نے زہر دے کر شہید کیا۔آپ کی رگوں میں خلیفہ راشد دوم
حضرت عمر فاروقؓ کا خون تھا۔ اُن ہی کی سیرت پر چلنے کی کو شش کی۔ اسی وجہ
سے انہیں چھٹا خلیفہ راشدکہا جاتا ہے۔ آپ کے والد مصر میں12 سال گورنر رہے۔
دولت ثروت کی فراوانی تھی۔آپ کی پرورش ناز و نعم کے حصول میں ہوئی۔ خوش
پوشاک مگر صالح نوجوان تھے۔طبیعت پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کے طرف راغب تھی۔
آپ کے والد عبدالعزیز والی مصر نے آپ کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دی۔ مشہور
عالم اور محدث صالح بن کیسانؒ کو آپ کا اتالیق مقرر گیا۔ بچپن میں ہی قرآن
حفظ کر لیا ۔قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔یہ بنو امیہ کے دوسرے حکمرانوں
سے بلکل مختلف تھے۔ایک دفعہ نماز میں شرکت نہیں کی۔ اُستاد نے معلوم کیا تو
کہا بالوں میں کنگی کر رہا تھا۔ استاد نے والد کو مصر میں شکایت لکھی۔ وہاں
سے ایک آدمی والد نے بھیجا۔ اِن کے والد کے حکم کے مطابق ان کے بال ہی کٹوا
دیے گئے۔ ان کے والد کے ساتھ ایک دفعہ گفتگو میں اِن کے استاد نے کہا ’’
مجھے ایسا کسی آدمی کا علم نہیں، جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے
زیادہ نقش ہو‘‘ خلافت سے پہلے جن اعلی عہدوں پر فائز کیا گیا تو انہوں نے
اپنی نیک نیتی اور خداخوفی کی روش قائم رکھی۔ عبدالملک نے ان سے دیگر
شہزادوں سے زیادہ پیا ر کیا۔ اپنی چہتی بیٹی کی ان سے شادی کی۔ اس سے بنو
امیہ میں ان کے وقار میں اضافہ ہوا۔عمر بن عبدلعزیزؓ نے ولید بن عبدلملک کے
کہنے پر مدینہ کی حکمرانی اس شرط پر قبول کی تھی کہ اپنے پیش روں کی طرح
لوگوں سے ظلم زیادتی نہیں کریں گے۔ ولید نے کہا آپ حق پر عمل کریں، چائے
ایک درم بھی خزانے میں نہ آئے۔ جب مدینہ آئے تو اکابر فقیہ کو جمع کر کے
کہا۔’’میں نے آپ کو اس لیے طلب کیا ہے کہ میں آپ کے مشورے کے بغیر کوئی کام
نہیں کروں گا۔ آپ ظلم دیکھیں تو مجھے بتائیں‘‘6 سال مدینہ کے گورنر رہے۔
اہل حجاز کے دل جیت لیے۔مسجد نبوی کو از سرے نو تعمیر کرایا۔ رسول اﷲؐ نے
مدینہ کے اطراف میں جہاں جہاں بھی نماز یں پڑھی، وہاں مساجد تعمیر کرائیں۔
مدینہ میں بہت سے کنوئیں کھودوائے۔دشوار گزار پہاڑی راستوں کو درست کیا۔
سلیمان بن عبدلملک نے اپنے مرنے سے پہلے ان کو خلیفہ مقرر کیا اور بنو امیہ
سے بیت کرائی۔ حضرت عمر بن عبدلعزیز ؓکو جب خلافت ملی تو افسوس کیا۔وہ اس
عظیم ذمہ داری سے لرزاں تھے۔ آپ خلافت کے خواہش مند نہیں تھے۔ ان کے نذدیک
خلافت مورثی نہیں جمہوری ہونی چاہیے۔ لوگوں کو جمع کیا اور ان سے مخاطب
ہوئے’’ میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ
داری میں مبتلا کیا گیا۔ اس میں تمھاری گردنوں پر سے یہ خوف اُتار دیتا ہوں۔
تم جسے چاہو خلیفہ بنا لو‘‘ یہ تقریر سن کر سب نے بلند آواز کہا ہم نے آپ
کو اپنے لیے پسند کیا۔ پھر لوگوں سے کہا’’ جس نے خدا کی اطاعت کی، اس پر
امانت واجب ہے۔ جس نے خدا کی نافرمانی کی اس کی نا فرمانی لوگوں پرضروری
نہیں۔ اگر میں اﷲ کی نافرمانی کروں تو میری نہ مانو۔لوگوں کی عام بیت پر
خلافت پر بیٹھے۔کہا کہ میں آپ کے احترام میں کھڑا ہوں تب آپ میرے احترام
میں کھڑے ہوں۔اس کے بعد اتنی کفایت شعاری اختیار کہ جہاں تک کہ ابو زر
غفاریؓ کا قلب اختیار کیا۔ جب شاہی سواریاں سامنے لائیں گئیں تو ان پر سوار
ہونے سے انکار کر دیا۔ کہا میرا خچر لاؤ، میرے لیے کافی ہے۔محل میں رہنے کے
بجائے خیمہ میں رہنا پسند کیا۔باغ فدک اہل بیت کے حوالے کر دیا۔ جسے بعد کے
بنو امیہ کے خلفا نے پھر واپس لے لیا۔ لوگوں نے کہا شیخین ؓنے اسے حکومت کے
قبضے میں رکھا تھا۔ اس کے جواب میں کہا کہ اُن کا فیصلہ تھا اور یہ میرا
فیصلہ ہے۔ بیوی کو حکم دیا کہ سارے ہیرے جوہرات اور زیور بیت المال میں جمع
کر دو۔ نیک نیوی نے حکم کی تکمیل کی۔ اہل بیت سے سابقہ زیادتیوں کا ازلہ
کیا۔ بیت المال کو خلیفہ کا ہونے کے بجائے عوام کا تسلیم کیا۔لوگوں سے بنو
امیہ نے ذبردستی چھینے گئے مال و جاگیریں اُنہیں واپس کیں۔ بے خوف ہو کر
خلافت رشدہ کا نظام قائم کر دیا۔ ظالم حجاج کے خاندان والوں کو ملک بدر کر
کے یمن بھیج دیا اور حاکم یمن سے کہا ان کوتتر بتر کر دو۔شاہی اصطبل فروخت
کر کے اس کی رقم بیت االمال میں داخل کر دی۔خراج کی اصلاح کی۔ذمیوں کے غضب
شدہ حقوق بحال کیے۔ان اقدام سے رعایا خوش حال ہوگئی۔ زکوۃ دینے والے زیادہ
ہو گئے اور زکوۃ لینے والے ختم ہو گئے۔ لوگوں کی بیت المال سے شادیاں
کرائیں۔ملوکیت کو جمہوری خلافت نظام میں تبدیل کر دیا۔ بادشاہ کے اختیار
ختم کیے۔ خوراج کا مقابلہ کیا۔ صرف ڈھائی سال کی حکومت میں ملک کو شریعت کے
مطابق چلایا۔ ان کے دور میں حدیث کی تدوین کا بڑے پیمانے پر کام ہوا۔حدیث
کوکتابی شکل دہنے کے بعد ساری مملکت میں تقسیم کیا گیا۔ ان کاموں کی وجہ سے
بنو امیہ ان نیک سیرت چھٹے خلیفہ راشد سے ناراض ہو گئے اور سوچنے لگے کہ
کہیں بنو امیہ کا خاتمہ نہ ہوجائے۔کہا جاتا کہ بنو امیہ کے لوگوں نے چھٹے
راشد خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو زہر کر شہید کیا۔ |