8جولائی2016 کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوگ گھروں کو
واپس جا رہے تھے۔ عید الفطر کے بعدکافی چہل پہل تھی ۔مطلع ابر آلود تھا۔اس
دوران ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جنوبی کشمیر کے سیاحتی مقام
کوکر ناگ کے بمڈورہ گاؤں کا قابض بھارتی فوج اور پولیس ٹاسک فورس نے اچانک
کریک ڈاؤن کر لیا ۔ گاؤں کو محاصرہ میں لے کر تلاشی آپریشن شروع کیا۔ ایک
رہائشی مکان پر اندھا دھند گولہ باری کی ۔کشمیر میں بھارتی فوج کے،محاصرے،
چھاپے اور تلاشی آپریشن 1990سے کریک ڈاؤن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آج تک
کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں کریک ڈاؤن ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ہو
جوکئی کئی بارقابض فورسز کے آپریشن اور توڑ پھوڑ سے بچا ہو۔کوکر ناگ آپریشن
کا اس لئے چرچا ہو اکہ اس کا نشانہ ایک ایسا مجاہد نوجوان اور اس کا گروپ
تھا، جس نے وادی میں مسلح جدوجہدکی پہچان ہی بدل ڈالی۔اسے نوجوان اپنا رول
ماڈل قرار دینے لگے۔آج کی سائبر ایج میں وہ پوسٹر بوائے کے طور پر شہرت پا
رہا تھا۔یہ برہان وانی تھا۔ وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ مکان میں موجود
تھا۔ رہائشی مکان سے فورسز پر لگاتار فائرنگ ہو رہی تھی۔ علاقہ میں برہان
وانی کی موجودگی کی اطلاع پھیلی تو لوگ جوق در جوق گاؤں کی جانب بڑھنے لگے۔
جھڑپ جاری تھی۔عوام نے فورسز کا محاصرہ کر لیا۔خواتین، بزرگ، بچے فورسز کو
گھیر کر اس پر پتھراؤ شروع کر رہے تھے۔لوگ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بلا
خو ف و خطر آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ برہان
وانی کو کسی بھی صورت میں بچانے کے آرزومند تھے۔مگر کون جانتا تھا کہ آج
برہان وانی نے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو جانا ہے۔دو گھنٹے کی اس معرکہ
آرائی میں برہان وانی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔جدوجہد کا ایک نیا باب
برہان کی شہادت کے ساتھ ہی بند ہو گیا اورمزاحمت کاایک نیا باب کھل گیا۔آج
کشمیری برہان کی یوم شہادت کویوم مزاحمت کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس شہادت
کے بعد سے کشمیر میں جہاں بھی بھارتی فورسز کے ساتھ معرکے ہوتے ہیں، لوگ
ہزاروں کی تعداد میں جھڑپ کے مقام پر پہنچ کر فورسز پر چاروں اطراف سے
پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں۔ عوام کے اس نئے رحجان کے بعد سے کئی معرکوں میں
مجاہدین قابض فورسز کا محاصرہ توڑ کر نکل گئے۔ اب یہ کشمیر میں روایت بن
چکی ہے۔ کشمیری نڈر بن چکے ہیں۔بھارتی فورسزنہتے عوام کو انتقامی
کارروائیوں میں شہید کر رہے ہیں،جو مجاہدین سے یک جہتی کے لئے علاقے میں
پہنچ کر پتھراؤ کرتے ہیں بلکہ فورسز راہگیروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے
کسانوں کو بھی عتاب اور انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
برہان وانی نے صرف 15 سال کی عمر میں بندوق اٹھا ئی۔ یہ 2010کا دور تھا۔ جب
کشمیر میں بھارت کے خلاف مزاحمت کو نئی جہت ملی ۔ نوجوان پتھروں اور ڈنڈوں
سے فورسز پر حملے کر رہے تھے۔ تقریباًً 120نوجوان قابض فورسز کی گولیوں سے
شہید ہو گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ برہان اکیلا 2010کی پیداوار
نہیں۔ اس جیسے لاتعداد نوجوان اس کی صفوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنا ایک
گروپ بنایا۔ پہلی بار انھوں نے گوریلا جنگ کے اصول ایک طرف رکھ دیئے۔ چہرے
سے نقاب اتار دی۔ فوجی وردی، بکتر بند گول ٹوپی، ہاتھوں میں کلانشنکوف
اٹھائے یہ نوجوا ن کم وقت میں وادی اور اس سے باہر شہرت یافتہ بن گئے۔ کبھی
یہ ایک شہر اور کبھی دوسرے سے اچانک نمودار ہو کر بھارتی فوج کے لئے دہشت
کی علامت بن جاتے۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیغامات آنے لگے۔ نوجوان ان کی صفوں
میں شامل ہونے لگے۔ انھوں نے بھارتی فورسز کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس دوران
چھ سال کا عرصہ بیت گیا۔اس گروپ کے کئی کمانڈر شہید ہو گئے۔ مگر ان کی شہرت
پر کوئی اثر نہ پڑا۔ وادی کے نوجوان ان کے دیوانے تھے۔ ان سے وہ ہمت اور
نیا جذبہ پاتے تھے۔ کیو ں کہ اس گروپ کا لیڈر حزب المجاہدین کا نو عمر
کمانڈربرہان تھا۔
برہان کون تھا۔ وہ کوئی دیومالائی داستان کا کردار نہیں۔ بلکہ ایک حقیقت بن
کر میدان میں نمودار ہوا۔دنیاکشمیر کی ماؤں پر فخرکرے گی جو برہان جیسے
بیٹوں کو جنم دی رہی ہیں۔ یہ مسلہ کشمیر کو بات چیت سے حل کرنے میں ناکامی
کی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی حقیقت۔ ترال کے ڈاڈسر، شریف آباد گاؤں
کا برہان ایک ہیرو تھا۔ اس کی بہادری اور شجاعت نے اسے ہیرو بنایا۔بھارت اس
کے سر پر دس لاکھ روپے (18)لاکھ پاکستانی روپے کا انعام رکھنے پر مجبور
ہوا۔کیوں کہ اس کے بارے میں کسی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آ رہی تھی کہ وہ کب
اورکہاں بھارتی فورسزپر حملہ آور ہو گا۔ دسویں جماعت کے امتحان میں شامل
ہونے کے فوری بعد وہ گھر سے نکل پڑا۔بھارتی مظالم نے اسے یہ راستہ اختیار
کرنے پر مجبور کیا۔آج کی نئی نسل بھارتی جارحیت کی چشم دید گواہ ہے۔ سب کچھ
اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ 1931ء سے کشمیر کی پانچویں نسل اس تحریک
سے وابستہ ہو چکی ہے۔ آج کا نوجوان دلیل اور مشاہدہ پر یقین رکھتا ہے۔وہ
دنیا بھر سے تبادلہ خیالات کر رہا ہے۔ اسے دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے۔
چھٹیوں میں طلباء کو خصوصی کورسز میں شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن برہان نے اپنے
لئے کورس کا انتخاب خود کیا۔ اس نے حزب المجاہدین میں شامل ہو کر جنگل کی
راہ لی ۔ وہ اپنے شہداء کے مشن پر چل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں قوم کی بے بسی
تھی۔ انتقام کا جذبہ تھا۔2015میں برہان کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو
فورسز نے بے دردی سے شہید کردیا۔ جو پوسٹ گریجویٹ طالب علم تھا۔ وہ اپنے دو
ساتھیوں کے ہمراہ برہان سے ملاقات کے لئے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ فوجیوں
نے اسے گرفتار کیا۔ برہان کا بھائی ہونے پر اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
زیر حراست ٹارچر کرتے ہوئے اسے بے دردی سے شہید کر دیا۔کشمیر میں بھارتی
فورسز نے ہمیشہ اسی پالیسی پر عمل کیا۔ ہمیشہ یہی پالیسی اختیار کی۔ بھائی
کے بدلے بھائی اور بیٹے کے بدلے باپ کو انتقام کا نشانہ بنایا یا پابند
سلاسل کر دیا۔ یہاں تک کہ خواتین اوربچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ بھارتی حکومت
اور اس کی فورسز کا کوئی پروفیشنل کریکٹر نہیں۔ وہ پر امن عوام پر ریاستی
دہشت گردی آزما رہا ہے۔
بڑے بھائی کی فوج کی زیر حراست یوں بے دردانہ شہادت کے بعد فورسز پر برہان
کے حملے تیز ہو گئے۔ایک نہتے اور غیر مسلح یونیورسٹی طالب علم کی شہادت پر
برہان کے ساتھی بھی مشتعل تھے۔انھوں نے جگہ جگہ فورسز کے کیمپوں اور گشتی
پارٹیوں پر پے در پے حملے تیز کر دیئے۔ فورسز نے اس گروپ کی گرفتاری کے لئے
کئی آپریشن کئے ۔لیکن وہ ناکام ہوئے۔ کیوں کہ عوام ان کا بھر پور ساتھ دے
رہے تھے۔مگر ایجنسیاں اس حد تک کامیاب ہوئیں کہ بعض لوگ برہان کے بارے میں
غلط فہمیاں پھیلانے لگے۔سب اس گروپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر سر گرمیاں
مشکوک تصور کرتے تھے۔کیوں کہ خود کو منظر عام پر یوں لانا گوریلا جنگ کے
اصولوں کے بر خلاف سمجھا جاتا ہے۔اس جنگ میں دشمن پر گھات لگا کر اور چھپ
چھپ کر وار کرنا ہی بہترین حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ آج برہان گروپ کے بارے
میں وہ سب لوگ افسوس کرتے ہوں گے۔ جو بھارتی پروپگنڈہ مشینری کی زد میں آ
گئے تھے۔کیوں کہ برہان نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے بھارتی فوج کے ساتھ لڑ کر
شہادت کو ترجیح دی۔ برہان میں لوگ اپنی خوابوں کی تعبیر دیکھ رہے تھے۔مگر
وہ کوکرناگ میں فوج اور ٹاسک فورس کے آپریشن میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ وہ
ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔برہان کے والد محمد مظفر وانی
ترال میں گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول (انٹر کالج)میں پرنسپل رہے۔ انہیں فخر
ہے کہ ان کے دو بیٹے اﷲ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔ کشمیر میں مسلح تحریک کے
ساتھ آبادی کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ اب لوگ مجاہدین کے فورسز کے ساتھ
معرکے کی جگہ پہنچ کر چاروں اطراف سے فورسز پر پتھراؤ شرو ع کر دیتے ہیں۔
وہ فوج کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر محاصرے میں
پھنسے مجاہد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔جب کوکر ناگ میں جھڑپ ہو
رہی تھی۔ اس وقت بھی مقامی آبادی مجاہدین کو وہاں سے نکالنے کے لئے فوج پر
حملہ آور ہوئی۔ فورسز پر چاروں ا طراف سے پتھراؤ کیا گیا۔ مقبوضہ ریاست میں
اب یہ نئی روایت قائم ہو رہی ہے۔ جہاں بھی مجاہدین کا فوج کے ساتھ مقابلہ
ہوتاہے ۔ مقامی آبادی فوج پر پتھراؤ کرتی ہے۔ لوگ اب فوج کی گولی سے بالکل
نہیں ڈرتے۔ بلکہ مجاہدین کو کسی بھی صورت میں فورسز کے چنگل سے بچانے کی
کوشش کرتے ہیں۔ وہ فوج کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پہلے جب بھی کوئی جھڑپ
ہوتی تھی یا کوئی آپریشن ہو تا، لوگ وہاں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف
چلے جاتے ۔ کئی روز وہ گھروں کو لوٹنے سے گریز کرتے۔ مگر اب لوگ فورسز
آپریشن کو ناکام بنانے اور مجاہدین کی مدد کے لئے آپریشن کی جگہ پہنچ جاتے
ہیں۔ وہ بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرہ بازی شروع کر دیتے
ہیں۔بھارتی فوج نے اس سلسلے میں کئی بار وارننگ بھی جاری کی ہیں۔عوام کو
خبردار کیا گیا۔انہیں جھڑپ کی جگہ سے دور رہنے کی تاکید کی گئی۔ مگر عوام
پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لوگ اس تحریک کے پشتبانی کرتے ہیں۔
برہان وانی جب سے بھارت کے خلاف مضبوط آواز بن کر ابھرے ہیں اور انھوں نے
اپنا چہرہ چھپائے بغیر فوج پر مسلح حملوں کا اعلان کیا ۔ تب سے فورسز کے
لئے مشکل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ برہان گروپ کے تمام مجاہدین نے بھی نقاب
اتار دیئے ہیں۔ وہ اسلحہ کی نمائش کرتے رہے۔ سوشل میڈیا کا انھوں نے کھل کر
استعمال کیا ہے۔کوکر ناگ جھڑپ میں برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت شہید
ہوئے۔ مگر ان کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ان کی بہادری اور شجاعت کو سلام
پیش کرنے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ترال پہنچے ۔ خواتین نے ان کی شان میں
لوک گیت ’’ ون ون‘‘گائے۔ مجاہدین نے انھیں گولیوں کی سلامی دی۔ اسلام اور
آزادی کے حق میں نعرے لگاتے عوام نے وادی میں کرفیو توڑ دیئے۔ فوج پر حملے
کئے۔ فوجی تنصیبات کو آگ لگا دی۔ بھارتی فورسز نے ریاستی دہشت گردی کا کھل
کر مظاہرہ کیا۔تقریباً50 نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا ۔ ان میں
خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔وادی کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد
حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ نصف ماہ تک فورسز نے سخت کرفیو نافذ کئے رکھا۔
عوام نے کرفیو توڑ دیا ۔ بھارت کی عملداری کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ بھارت
کشمیریوں کو معذور بنانے اور انھیں اندھا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو ا۔
بھارت صرف کشمیر میں مہلک اسلحہ اور زہریلی گیسیں استعمال کر رہا ہے۔جس کی
وجہ سے لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج بن رہے ہیں۔بھارت کشمیر میں ڈھائے
جانے والے مظالم دنیا سے چھپا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وادی سے شائع
ہونے والے اخبارات پر پابندی لگا دی۔ اخبارات کے چھاپہ خانوں پر تالہ لگا
دیئے، اور اخباری کاپیاں ضبط کر لیں۔ کئی دنوں سے سرینگر کے اخبارات پر
پابندی عائد رہی۔ بھارتی میڈیا نے اپنی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کے قتل
عام کا بلیک آؤٹ کیا۔ بھارتی میڈیا کی پالیسی جانبدارانہ اور کشمیر دشمنی
پر مبنی ہے۔جو حقائق کو چھپانے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ ریاست میں انٹر نیٹ
اور موبائل سروسز بھی نصف ماہ سے بند رہے۔ لوگ مایوس ہو کر ایک بار پھر
بندوق کو ہی نجات دہندہ سمجھتے رہے۔ وہ برہان کو اپنا ہیرو اور رول ماڈل
مانتے ہیں۔ ایک برہان کی شہادت کے بعد کشمیر میں لا تعداد برہان پیدا ہو
چکے ہیں۔
21سالہ برہان نے شروع میں منظر عام پر آتے ہی کشمیر میں ہندؤں کی امرناتھ
یاترا پر حملے نہ کرنے کا اعلان کیا۔ کیوں کہ کشمیری ہندؤں یا کسی بھی مذہب
کے پیروکاروں پر حملے کرنے کے مخالف ہیں۔ وہ ہندؤں کی امر ناتھ یاترا یا
کسی دیگر مذہبی تیوارکے مخالف نہیں۔ آج بھی یہ یاترا جاری ہے۔ جب وہ شہید
ہوئے اس وقت بھی یاتراجاری تھی۔ کشمیری کبھی بھی غیر مسلموں کے مذہبی عقائد
کے مخالف نہیں رہے۔لیکن بھارت نے اس یاترا کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔ وہ
جنوبی کشمیر میں ماحولیات کو تباہ کر رہا ہے۔ یاتریوں کے لئے کشمیریوں کی
اراضی پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر تعمیرات ہو رہی ہیں۔جبکہ
کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ ریاست میں پنڈت ہندؤں کا تحفظ یقینی بنانے میں
ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا۔ بزرگ پنڈتوں کی آخری رسومات بھی مسلم آبادی
انجام دیتی ہے۔جبکہ ان کے نوجوان بچے بھارت کی شے پر دنیا بھر میں کشمیریوں
کے خلاف پروپگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔زیادہ تر پنڈت آبادی کو گورنر جگ موہن نے
کشمیریوں کی نسل کشی کرانے کے لئے کشمیر سے فرار کرایا۔ راتوں رات لاکھوں
پنڈت وادی سے جموں اور بھارت کے شہروں میں چلے گئے۔انھوں نے کشمیر میں اپنے
مکانات اور جائیدادیں فروخت کر دیں۔اب وہ کہتے ہیں کہ ان سے کشمیری
مسلمانوں نے زبردستی جائیدادیں چھین لیں۔ یہ انتہائی گمراہ کن اور جھوٹا
پروپگنڈہ ہے۔اس کے باوجود کشمیر میں موجود پنڈتوں کی حمایت میں مجاہدین نے
خود کو پیش کیا۔برہان بھی عوام کی طرح کشمیر میں بھارت کی طرف سے الگ فوجی
یا سینک بستیوں اور پنڈتوں کے لئے رہائشی کالونیوں کی تعمیر کی سختی سے
مخالفت کر رہے تھے۔ کشمیری وادی سے فرار ہونے والے پنڈتوں کی واپسی کے حق
میں ہیں۔ لیکن وہ واپس آ کر اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں۔ ان کے لئے اسرائیل
طرز پر الگ بستیاں قائم کرنے کا مقصد جدوجید آزاد ی کو کچلنے اور تقسیم
کشمیر کی سازش ہے۔بھارت کی تمام سازشیں عوام نے ناکام بنائی ہیں کیوں کہ ان
کی بنیادیں نفرت اور تعصب پر کھڑی کی گئی ہیں۔بھارتی فوج میں ہندو انتہا
پسند اور دہشت گرد عناصر کا غلبہ ہو رہا ہے جو کشمیر میں مسلمانوں کی نسل
کشی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے قتل عام کی
پالیسی پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری مایوس ہو کر بندوق کی طرف رجوع
کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ عوام نے ہی کشمیر میں برہان اور ان کی
سوچ کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ برہان شہید ہو گئے مگر ان کا
مشن ، ان کی سوچ زندہ ہے۔ کشمیری بھارتی فورسز کے بدترین مظالم کے باوجود
سینہ سپر ہیں۔ وہ آزادی کی جدوجہد سے دست کش ہونے پر تیار نہیں۔ دنیا کشمیر
میں کشیدہ حالات سے بے خبر ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے
شماری کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے بھارت مظالم اور بدترین تشدد کا سہارا لے
رہا ہے۔ مگر وہ تمام حربے بروئے کار لانے کے باوجود آزادی کی جدوجہد کچلنے
میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔کشمیر کی نئی نسل بلا شبہ دلیر اور بہادر ہے۔
اسے کوئی ڈر و خوف نہیں۔ تا ہم اسے انتہائی دانائی اور حکمت عملی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے بھارتی ریاستی دہشتگردی اور نسل کشی پالیسی کا مقابلہ کرنا ہے تا
کہ نئے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔جذبات اور جوش اپنی جگہ مگر کشمیری قوم
کو متحد اور متفق ہو کر فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہے، جدوجہد کو نتیجہ خیز
بنانے کے بارے میں پاکستان، جی بی اور آزاد کشمیر کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا
ہے۔جدوجہد آزادی کی کامیابی کے لئے پاکستان کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے ایک
مضبوط و مستحکم ، ترقی یافتہ،سپر پاور پاکستانبنانے میں ہر کسی نے اپنی
صلاحیتیں بروئے کار لانی ہیں۔اس کے لئے قیادت کو تمام وابستگیوں سے بالاتر
ہو کر قربانی و ایثار کامظاہرہ کرنا ہے۔
|