یہی سیاست ۔۔ یہی نظام ۔۔ کیسے بدلے ہمارا مقام؟

پاکستان اپنے قیام کے بعد مسلسل قرضوں اور امداد پر انحصار کررہا ہے، ملک میں آنے والی ہر حکومت کشکول توڑنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن امور مملکت چلانے کیلئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی یقینی دہانیوں کے ساتھ نئے قرضے اٹھالیتی ہے۔

وزیراعظم پاکستان شہبازشریف کا موجودہ حالات میں آئی ایم ایف سے قرض کو بڑی کامیابی قرار دینا سیاسی طور پر ضروری ہےکیونکہ انہیں اپنی سیاسی مہم کیلئے اس کامیابی کو استعمال بھی کرنا ہے لیکن اگر اس کا دوسرا پہلو دیکھیں تو جغرافیائی تناطر میں پاکستان کا دیوالیہ ہونادنیا کیلئے بھی سود مند ثابت نہ ہوتا اس لئے پاکستان کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد بالآخر آئی ایم ایف نے قرض کی منظوری دی۔

ہمیں خوشی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض، سعودی عرب ، متحدہ امارات اور چین کی جانب سے مدد کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے لیکن یہاں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریب عوام پر پڑے گا۔

وزیراعظم کشکول توڑنے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اگر صرف وفاق میں ہی دیکھیں تو 6 لاکھ 50 ہزار ملازمین اور ہزاروں گاڑیوں کے اخراجات معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔

اگر ہم ملک میں چند معاشی اعداد و شمار کو دیکھیں تو گزشتہ مالی سال بڑی صنعتوں کی پیداوار کودھچکا لگا ، جولائی تامئی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 9 اعشاریہ 87 فیصد کی کمی ریکارڈ ہوئی جبکہ آج کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی پیداوار 14 فیصد کے قریب ہے۔ سرکاری ریکارڈ کےمطابق جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ بہت ہی مایوس کن 0اعشاریہ 29 فیصد رہی ۔

اب اگر ہم آئی ایم ایف کے قرضوں پر یہ خواب دیکھنا شروع کردیں کہ ملک میں معیشت کو استحکام ملے گا اور انڈسٹری پروان چڑھے گی تو یہ صرف دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ملک میں شرح سود 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور تاجروں و صنعتکاروں کو قرض کیلئے تقریباً 26 سے 27 فیصد تک سود ادا کرنا پڑتا ہے، اس قدر شرح سود کے ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں کیلئے کاروبار کرنا ناممکن ہے۔

امریکی جریدے بلومبرگ کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدے پر پاکستان کا ڈالر بانڈ 27 فیصد بڑھا ہے تاہم پاکستان کی ادائیگیاں اس کے ذرمبادلہ کے ذخائر سے 6 گنا زائد ہیں۔

پاکستان کا مجموعی قرض 54 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن حکمران خود کفایت شعاری اپنانے کے بجائے عوام کو مزید مسائل کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔دنیا کے کسی ملک میں ایسے شاہانہ اخراجات کی مثال نہیں ملتی۔

پاکستان میں تنخواہ بینک میں آنے سے پہلے ہی انکم ٹیکس کٹ جاتا ہے، پھر ود ہولڈنگ ٹیکس اور تنخواہ خرچ کرنے پر سیلز ٹیکس دینا پڑتا ہے، پھر بھی اگر حکومت عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال دے تو یہ زیادتی ہے۔

پاکستان کے مسائل کی اصل وجہ مٹھی بھر اشرافیہ ہیں جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیاں کرتے ہیں اور انہی غریبوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف سے معاہدے پر شادیانے بجانے والے اس لئے خوش ہیں کیونکہ ان کی سیاست اور حکومت کو دوام پہنچا لیکن قرضوں کا بوجھ عوام کو بجلی، گیس اور خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں برداشت کرنا ہوگا۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ مسائل کی وجہ اشرافیہ ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی ایوانوں تک پہنچنے کیلئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کا خرچ آتا ہے جوکہ ایک متوسط اور غریب طبقے کا شخص کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔

ایوانوں میں نظر آنے والے اکا دکامتوسط طبقے کے ممبران الیکشن لڑکر نہیں بلکہ خیراتی سیٹوں پر اسمبلیوں کا حصہ بنتے ہیں اور اپنی اپنی جماعتوں یا کمپنیوں کی تشہیر کے کام آتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا کام صرف گنتی پوری کرنا ہوتا ہے اور متعلقہ سیاسی رہنما معاشرے کو یہ جتانا چاہتے ہیں کہ ان اکا دکا ممبران کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی میں مساوی برتاؤ رکھتے ہیں۔

پاکستان میں دور دور تک آپ کو کوئی غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص کسی کلیدی سیاسی عہدے ، سیاسی مقام یا وزارت میں نظر نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان کی سیاست صرف مخصوص افراد کے گرد گھومتی ہے لیکن اگر یہی پاکستانی غریب بیرون ملک چلا جائے تو وہاں انہیں انکی صلاحیت، قابلیت اور جفاکشی کی بنا پر ایک شناخت ملتی ہے۔

لندن کا میئر صادق خان، برطانیہ کے سابق وزیر خزانہ ساجد جاوید ، اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف اور ایسے بے شمار افراد ہیں جنہوں نے متوسط طبقے سے بیرون ممالک کا رخ کیا اور وہاں اپنی ایک پہچان بنائی۔

پاکستان میں سیاسست ایک منافع بخش کاروبار ہے، یہاں لاکھوں لگاکر آنے والا کروڑوں اور کروڑوں لگاکر آنے والا اربوں روپے کمانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے، عوام کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں ، ان حکمرانوں کو صرف عوام کے مال و زر سے سروکار ہے جس پر ان عیاشیوں کا انحصار ہے۔

معاشی مشکلات سے چھٹکارے کیلئے قرضوں پر انحصار کے بجائے صنعتوں کا پہیہ چلانا ہوگا ، جب تک صنعتیں نہیں چلیں گی ہماری معیشت کو دوام نہیں ملے گا، حکومت تاجروں اور صنعت کاروں کو قرضوں میں سہولت فراہم کرے، بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ صنعتیں کام کرکے ملک کا معاشی بوجھ کم کرسکیں۔

ہنڈی اور حوالہ کے غیرقانونی کاروبار کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے، بیرون ممالک میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کوحقیقی معنوں میں مراعات دی جائیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم پاکستان بھیجیں۔

مہنگی بجلی کیلئے تیل کے اخراجات کم کرنے کیلئے عوام کو سولر کیلئے آسان قرضے فراہم کئے جائیں، شہریوں کو کاروبار کیلئے چھوٹے قرض دیکر بیروزگاری میں کمی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

معیشت کیلئے سفید ہاتھی بننے والے اداروں کی نجکاری کی جائے اور سرکاری اداروں میں اضافی لاکھوں ملازمین کو دیگر شعبوں میں کھپایا جائے، سرکاری گاڑیوں، مفت ایندھن اور دیگر شاہانہ مراعات میں کمی کی جائے۔

عوام کا خون نچوڑنے کے بجائے حکمران سادگی اور کفایت شعاری اپنائیں اور حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے، ایماندار، باصلاحیت اور اہل افراد کو سیاست کے ایوانوں کا حصہ بنایا جائے کیونکہ جب تک باصلاحیت اور ایماندار افراد حکمرانی کی صفوں میں شامل نہیں ہونگے اور حکمرانی کا حصہ نہیں بنیں گے تب تک معیشت کے گرداب سے نکلنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل نظر آتا ہے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33363 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More