پنڈی پوسٹ ٹیم کا تفریحی دورہ شمالی علاقہ جات

عید الضحی کے موقع پر پنڈی پوسٹ ٹیم نے چیف ایڈیٹر عبدالخطیب کی سربراہی میں شمالی علاقہ جات کی سیر کا اہتمام کیا دیگر ٹیم جس میں چوھدری شہباز رشید، چوھدری عبدالجبار،شہزاد رضا،محمد ابراھیم،راجہ شیراز احمد، محمد منیب شامل تھے ہفتہ کے روز سفر کا آغاز کیا گیا سب سے پہلا قیام خان پور ڈیم کے مقام پر کیا گیا خان پور ڈیم جس کے بارے میں سنتے چلے آ رہے تھے کہ یہ ایک پرفضا مقام ہے واقع ہی یہ ڈیم حقیقت میں ایک بہت اچھا تفریحی مقام ہے ڈیم کے ارد گرد کسی قسم کی کوئی ماحولیاتی آلودگی کا تاثر دکھائی نہیں دیا ہے سیاحوں کا وہاں پر ایک بڑا ہجوم دیکھنے کو ملا ہے بڑے بچے سب اس ڈیم کے گرد و نواح میں گھومتے خوش دکھائی دیئے ہیں کشتی رانی کا وہاں پر بہت زیادہ عروج نظر آیا ہے ہماری ٹیم بھی وہاں پر تھوڑی دیر کیلیئے رکی اور ڈیم کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوئی ہے اس کے بعد ہم نے اپنے اگلے سفر کا آغاز کیا ہے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے ہم مانسہرہ میں داخل ہوئے ضلع مانسہرہ کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ہر طرف خوبصورت پہاڑ دکھائی دیئے جن پر چھوٹے چھوٹے چہر کے درخت پہاڑوں کے حسن کو رونق بخشے ہوئے بہت دلکش نظارے دے رہے تھے اس کے بعد ہمارا اگلا قیام بالا کوٹ دریائے کنہار کے بلکل کنارے پر ہوا ہے بالا کوٹ میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈی ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا دریا کے پانی کی پرساز آوازیں دلوں کو چھو رہی تھیں دریا کے کنارے ہی ایک ہوٹل پر بیٹھ کر ریفریشمنٹ کی بالا کوٹ شہر بہت خوبصورت اور صاف ستھرا ہے 2005میں ہونے والے زلزلے نے اس شہر کو بلکل تباہ و بربار کر کے رکھ دیا تھا اور اس کے بعد یہ شہر نئے سرے سے آباد کیا گیا ہے نیا تعمیر ہونے کی وجہ سے یہ شہر پہلے کی نسبت اب بہت زیادہ خوبصورت طریقے سے بنایا گیا ہے بالا کوٹ شہر میں تقریبا تمام بینکوں کی شاخیں بنی ہوئی ہیں اور تما ضروری سرکاری اداروں کے دفاتر بھی دیکھنے کو ملے ہیں بالا کوٹ شہر کا مکمل وزٹ کرنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل کیلیئے وہاں سے روانہ ہوئے بالا کوٹ سے نکلتے ہی بڑے بڑے بلند پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور وہاں کی فضا بھی ٹھنڈی تھی تمام راستے میں بہت اچھے اور خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں خاص طور پر دریائے کنہار کے کنارے کا سفر اور وہان سے گزرنے والے شوردار پانی نے ہمارے سفر کو پر رونق بنائے رکھا ہے اور پانی کی ٹھنڈک نے گرمی سے بچائے رکھا ہے اس کے بعد ہم کاغان سے تھوڑا پہلے ایک مقام فرید آباد پہنچے جہاں پر اس وقت مکمل اندھیرا چھا چکا تھا جس وجہ سے ہم نے رات وہاں پر ہی گزارنے کا فیصلہ کیا یہاں پرایک بات کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے بالا کوٹ سے لے کر کاغان ناران تک راستے میں کوئی لوٹ مار نہیں ہے ہوٹلز والے کمرے اور کھانا نہایت ہی مناسب ریٹ پر دے رہے ہیں ہم نے وہاں کے ایک ہوٹل میں کمرہ لیا جو ہمیں بہت مناسب کرایہ پر مل گیا پھر ہم نے وہاں پر ساتھ ہی ایک ہوٹل سے کھانا کھایا ہمارے علاقے میں فل چکن کڑاہی دو ہزار سے زائد کی ملتی ہے لیکن وہاں پر ہمیں وہ پندرہ سو روپے میں مل گئی ہے وہاں کا کھانا اور چائے جس طرح علاقہ خوبصورت ہے بلکل اس طرح کھانا چائے بھی زائقہ دار ملے ہیں صبح کی نماز کی ادائیگی کے فورا بعد ہم اپنی اگلی منزل یعنی کاغان، ناران، اور بابو سرٹاپ جھیل کیلیئے روانہ ہوئے فرید آباد سے نکلتے ہی راستے میں تما م علاقائی خدو خا ل یکسر تبدیل ہو گئے ہر جہگہ اپنا ایک الگ نظارہ پیش کر رہی تھی ہر مقام پر رکنے کو دل کر رہا تھا بہرحال ہم کاغان شہر پہنچے بظاہر ایک چھوٹا سا شہر اپنے اندر پر سکول فضا،زہنی سکون اور ہر طرح کی خوبصورتی اپنے اندر سمیٹے ہوئے محسوس ہوا ہے وہاں کے سادہ طبیت لوگ چھوٹے چھوٹے کاروبار میں مصروف اس شہر کی رونق کو دوبالا کیئے ہوئے ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اس علاقے میں جہاں ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں ان میں بھی زراعت ہوتی دکھائی دی ہے کاغان شہر کے بعد بڑے بڑے پہاڑوں کے دامن جن پر سفید رنگ کی پڑی برف اپنا ایک الگ منظر پیش کر رہی تھی راستے میں بھی مختلف جہگوں پر برف کے بڑے ٹیلے روڈ کی خوبصورتی میں اضافہ کیئے ہوئے تھی ان علاقوں کا ٹمپریچر 10,11تھاناران کا سلسلہ شروع ہوتے ہی روڈ کے کے دونوں اطراف مقامی لوگ اپنے کھیتوں میں کام کرتے دکھائی دیئے ہیں پیاز، گوبھی اور اس طرح کی سبزیات کاشت ہوئی نظر آئیں ہیں لوگ اپنے ہاتھوں سے کھیتوں میں سے جڑی بوٹیاں تلف کرتے دکھائی دیئے ہیں ہم ناران شہر میں پہنچے جہاں پر سردی محسوس ہوئی وہاں سے صبح کا ناشتہ کیا ہے شہر میں چہل قدمی کی ناران شہر کے مخلتف خوبصورت مناظر کی عکس بندی کرتے ہوئے شہر سے نکلتے ہوئے آگے کی طرف بڑھنے لگے ناران سے نکلتے ہی برف کا سلسلہ زیادہ ہوتا گیا کچھ جہگوں پر برف کی وجہ سے راستے بھی بند دکھائی دیئے ہیں مقامی افارد نے برف کو کھود کر اس میں فریج کی شکل بنائی ہوئی ہے جس میں وہ کولڈ ڈرنکس رکھئے ہوئے ہیں جو سیاحوں کو فروخت کی جاتی ہیں اس کے بعدبڑوھوئی کے مقام پر تھوڑی دیر رکے شہر کے عین وسط میں ایک بڑے پتھر پر لکھے نام محمدﷺ نے پورے شہر کی رونق کو دوبالا کر رکھا ہے سیاح وہاں پر کوئی کام نہ کریں لیکن اس با برکت پتھر کا دیدار ضرور کرتے ہیں ہماری ٹیم کو بھی اس پتھر کے دیدار کا شرف حاصل ہوا ہے بڑوھوئی سے نکلتے ہی ہم نے اپنے مزید سفر کو بہت مختصر کرنے کا فیصلہ کیا اور صرف لالو دادؤدی سر جھیل کے مناظر ہی دیکھنے پر اکتفا کیا یہ جھیل جسکا تذکرہ یو ٹیوب پر ہی سنتے دیکھتے تھے وہاں پہنچ کر یہ محسوس ہوا کہ واقع یہ جھیل بہت خوبصورت ہے اس کے اندر نیلے رنگ کے پانی کی ٹھنڈک نے سیاھوں کو اپنی طرف کھینچنے پر مجبور کیا ہوا ہے وہاں پہنچ کر دلی سکون محسوس ہوتا ہے زہن پر سے ہر قسم کا بوجھ ہلکا محسوس ہوتا ہے وہاں پر کچھ وقت گزارنے کے بعد پھر واپسی کا سفر شروع کیا موسم کی صورتحال یہ تھی کہ واپسی پر راستے میں ہم نے دن کی کڑکتی دھوپ میں باہر بیٹھ کر کھانا اور چائے وغیرہ پہ پھر بھی ٹھنڈک لگ رہی تھی وپاسی پر ٹریفک کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ پورے ملک کے سیاح صرف اسی علاقے کی طرف آرہے ہیں اکثر جہگوں پر ٹریفک بلاک تھی لیکن ایک اہم بات اس ویران علاقے میں بھی جب ٹریفک بلاک ہوئی پولیس والے کہیں غا ئب سے وہاں پر پہنچ جاتے ہیں بدتمیزی سے نہیں بلکہ بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ ڈرائیورز حضرات سے گزارش کرتے ہوئے ٹریفک کھلوانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں مقامی افراد بھی ٹریفک کی روانی میں اپنا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں واپسی کا سفر جانے کیلیئے سفر سے بہت زیادہ کٹھن تھا پاکستان حقیقت میں ایک بہت خوبصورت ملک ہے خاص طور پر شمالی علاقہ جات پورے ملک کی دلکشی کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں کے پی کے پولیس میں پولیس میں حقیقی معنوں میں ریفامز نظر آئی ہیں مجال کہ وہاں کی پولیس کسی سیاح کو ناجائز تنگ کرے پولیس سیاحوں سے اس قدر دور کھڑی ہوتی ہے کہ وہ یہ محسوس بھی نہ کریں کہ پولیس ہمیں ڈسٹرب کر رہی ہے وہاں کی پولیس سیاحوں کو سلام بھی دیتی ہے اگر کسی وجہ سے کوئی پوچھ گچھ کرنی بھی ہو تو بڑے ادب سے پیش آتی ہے سیاحوں کے دلوں میں ایک اچھا امیج پیش کرتی ہے وہاں کی پولیس واقع ہی عوام دوست پولیس ہے بہر ھال ہماری ٹیم اس پورے سفر میں ایک اچھا میسج لے کر واپس لوٹی ہے اس طرح ہمارا سفر خیریت سے اپنے اختتام کو پہنچا ہے میں اپنی پوری ٹیم کی طرف سے عبدالخطیب چوھدری کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے لیئے اس بہترین سفر کو ممکن بنایا ہے ان کی کاوشوں کی بدولت ہمیں بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملا ہے اور سارے دوست دو دن تک اکٹھے مل بیٹھے ہیں
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 144895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.