عرصہ 35 سال سے حیدرآباد کی عوام ہر جماعت کے در سجدہ ریز ہوئے مگر ان جماعتوں اور ان کے عہدیداران نے کبھی ان کو سیریس نہیں لیا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ پر حیدرآباد یونیورسٹی و پروفیشنل کالج کے قیام لیے اپنی عرضدات ہر جگہ پہنچائی کس طرح سے حیدرآباد میں یونیورسٹی اور پروفیشنل کالج کا قیام عمل میں آئے مگر کبھی بھی پیپلز پارٹی اور متحدہ جماعتوں نے اپنی دلچسپی نہیں دیکھائی دیگر حیدرآباد کی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے ہمیشہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا حیدرآباد میں یہ تعلیمی درسگاہ نہ ہونے سے ہزاروں بچے اور بچیاں بارہویں جماعت پاس کرنے کہ بعد اپنی تعلیمی آگے جارہی نہیں کرسکتی ہیں. ہر سال ہزاروں بچے اور بچیاں اپنے تعلیمی کئیریر کو خیرآباد کہہ رہی ہیں . کتنے بچے اور بچیاں اپنے قیمتی سال پر نوحہ پڑھتی ہوئینگی بات بھی قبل ذکر ہے کہ سندھ کے دوسرے بڑے اور تاریخی شہر حیدرآباد سے ایم کیوایم تین دہائیوں سے مسلسل انتخابات جیت کر صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ شہر میں اسی جماعت کا میئر منتخب ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ حیدآباد میں اعلی تعلیم کی درسگاہ بنانے میں ناکام رہی ۔ ایم کیوایم نے اپنے انتخابی منشور میں ہمیشہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کی تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اس کو اپنی سیاست کا محور بھی بنایا تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔
تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کو جتنے اختیارات اور وسائل مہیا کیے گئے اس میں ایک عالمی سطح کی بہترین جامعہ کا قیام کوئی مشکل کام نہیں تھا ، حیدرآباد کے شہری بالعموم اور طلبہ و طالبات با لخصوص کا ماننا ہے کہ ایم کیو ایم نے کبھی سنجیدگی سے حیدرآباد میں جامعہ کی تعمیر کی جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھایا۔ 23 فروری 2013 کو گورنمنٹ کالج حیدراآباد میں ایک پر وقار تقریب منقعد کی گئی جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف تھے۔ راجہ پرویز اشرف نے خود بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔ تالیوں کی گونج میں راجہ پرویز اشرف نے کالج کی تعمیروترقی کے لیے کروڑوں روپے کا اعلان کیا اور اچانک ہی ہال کے آخر ی حصے میں موجود طلباء نے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ شور کے باعث راجہ پرویز اشرف طلباء کے مطالبے کو سن نہیں سکے ۔ انہوں نے اسٹیج پر موجود پرنسپل صاحب سے استفسار کیا ، پرنسپل نے وزیر اعظم کو بتایا کہ طلبہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے جوں ہی یونیورسٹی کا اعلان کرنے کے لیے ڈائس کے جانب بڑھے تو اس وقت کے صوبائی وزیرتعلیم پیر مظہرالحق نے ڈائس پر جا کر وزیراعظم کے کان میں کچھ کہا ۔ جس کے بعد راجہ پرویز اشرف خاموشی سے اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئے ۔ یوں حیدرآباد کے شہریوں اور طلبہ کے دیرینہ مطالبہ پھر سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ حیدرآباد میں یونیورسٹی بنانے کے نام پر سیاست ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی خوب کی۔ گزشتہ عام انتخابات سے قبل وزیراعظم میاں نواز شریف نے 27 مارچ 2017 کو حیدرآباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حیدرآباد ایئرپورٹ کی بحالی ، میئر حیدرآباد کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے 100 کروڑ روپے اور میٹرو بس منصوبے کے ساتھ ہی حیدرآباد شہر میں وفاقی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ۔ وہ تقریر بھی تاریخ کے صفحوں میں کہیں گم ہو گئی ۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں معیاری یونیورسٹی بنانے کا اعلان میاں نواز شریف نے اپنی اس وقت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کہنے پر کیا ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جس طرح 2017 میں ایم کیوایم پاکستان مسلم لیگ ن کی ضرورت تھی بلکل اسی طرح آج عمران خان کی ضرورت ہے کیوں کہ ایم کیو ایم پاکستان پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی کابینہ کا حصہ ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے حیدرآباد میں وفاقی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا لیکن پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت خوش نہیں ، صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد ہمارا شہر ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ یونیورسٹی کہاں بنانی ہے۔ وزیراعظم کے بیانات سے کچھ نہیں ہوتا کیوں کہ یونیورسٹی بنانے کیلئے سندھ اسمبلی سے رجوع ضروری ہے جس کی منظوری کے بغیر جامعہ و میڈیکل کالج کی تعمیر نہیں ہو سکتی ، وزیراعظم اس قانونی شق سے لاعلم ہیں ۔ ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے رہنما حیدر آباد کی اعلی تعلیمی درسگاہ کے قیام میں تاخیر کو یہاں کے باسیوں کے لیے ناکردہ جرم کی سزا کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جامعہ حیدرآباد کے معاملے پر سیاست اوراس کے قیام میں رکاوٹیں ڈالنا قابل مذمت ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ طاقتور سیاستدانوں اور زمینداروں کے بچے تو پیسے کے زور پر اندرون اور بیرون ملک کے بہترین تعلیمی اداروں سے اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن غریب اور متوسط آمدن کے سفید پوش لوگوں کے بچوں کو اعلی تعلیم سے محروم کر کے ہزاروں طلباء و طالبات کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہاہے ۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس غیر سیاسی معاملے پر سیاست کب ختم ہوگی؟
|