ہمارا ملک جب سے وجود میں آیا ہے آزادی کے پہلے ہی دن سے اندرونی سازشوں کے
زریعے ترقی کا سفر تو کیا طے کرتا پستی کی منزل کی طرف بڑھتا گیا اور آخر
کار 1971 میں اپنی اندرونی سازش کا شکار ہوکر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے
نام سے کرہ ارض میں وجود میں آیا. پاکستانی عوام یہ ہی سمجھی کہ شائد اب
پاکستان ان اندرونی سازشوں سے چھٹکارا حاصل کرلیگا مگر یہ اس قوم کی غلط
فہمی تھی۔ بنگلہ دیش بنے کہ بعد ان بیرونی سازشوں کو تو کُھلا میدان مل
گیا، اس کے بعد جمہوری اور ڈکٹیٹر حکمران اقتدار میں آتے گئے مگر ان سرکاری
محلاَت میں پسند نہ پسند کا کھیل بڑی آب و تاب سے جاری رہا۔
یہ 1999 کی دہائی کا زمانہ تھا جب 11سالہ طویل آمرانہ دور کے بعد جمہوریت
نے اِس ملک میں پھرنئے سرے سے جنم لیا. عوام کے ووٹوں سے کسی سیاسی پارٹی
کی حکومت نے عنانِ حکومت سنبھالا۔ سیاست اور جمہوریت کو اپنی مرضی و منشاء
کے تابع رکھنے والوں کیلئے یہ لمحہ شایدبہت ناگوار اور ناپسندہ تھا لہذا
کوشش کی گئی کہ کوئی حکومت بھی اپنی دستوری اور آئینی مدت پوری نہ کرپائے ۔
اِس مقصد کیلئے جنرل ضیاء کی طرف سے عطا کردہ آئین کی آٹھویں ترمیم کا بے
رحمانہ استعمال کیاجاتا رہا۔ 58-B2 کی تیز دھارتلوار کے ذریعے جمہوری
حکومتوں کامسلسل قتل ہوتا رہا ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ نظام کی ناکامی کا سارا
الزام بھی جمہوری حکومتوں کے سر تھوپا جاتا رہا۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کے
الزامات لگا کراُس دور میں ایک نہیں مسلسل 4 حکومتوں کو فارغ کیا گیا لیکن
کسی پر بھی کرپشن کا کوئی الزام ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ
اُنہیں بار بار منتخب کرواکے خود اپنے کہے کی تردید اورنفی بھی کردی گئی۔
کچھ سیاستدانوں کو اِن الزامات کی صحت وصداقت کے بناء ہی جیل کی سلاخوں کے
پیچھے ڈال دیا گیا پھر ضرورت پڑنے پر بڑے عزت و احترام کے ساتھ سیدھے جیل
سے وزارت کا حلف اُٹھانے کیلئے ایوان صدر بھی لایا جاتارہا۔میاں صاحب اُن
دنوں چونکہ سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے تھے شاید اِس لئے وہ اِن چالوں کو
سمجھ نہیں سکے۔ اُنہیں اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ کراُن کے احکامات کی
تعمیل اور بجا آوری کرتے رہے۔انہیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ جو گیم وہ آج
کسی کیخلاف کھیل رہے ہیںکل خود بھی اُس کا شکار ہوسکتے ہیں پھر لوگوں نے
دیکھا کہ ہوا بھی یونہی ۔چند سالوں میں ساری حقیقت میاں صاحب پر واضح
ہوگئی۔
1993میں جب اُن کی پہلی حکومت معزول کی گئی تو اُس وقت کی عدلیہ اگرچہ میاں
صاحب کی تائید و حمایت میں کھڑی بھی ہوگئی صد ر مملکت اسحاق خان مرحوم ابھی
کہاں ہمت ہار نے والے تھے ،اُن کے ترکش میں پڑے بہت سے تیر ابھی چلنا باقی
تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگی وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کیخلاف اپنے ہی
ساتھیوں نے منظور وٹو کے ساتھ ملکراچانک عدم اعتماد کی تحریک لاکر سارا
نقشہ ہی بدل ڈالا پھرایک طرف باربار منظور وٹو کے ہاتھوں پنجاب اسمبلی کا
توڑے جانا اوردوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کا اُسے بحال کرتے جانا،طاقتور
اور کمزور حلقوں کے بیچ محاذ آرائی کا یہ افسوسناک دور بھی ہماری تاریخ کے
صفحات پر آج بھی موجود ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے
یا کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کیخلاف
لانگ مارچ کا اعلان کردیا جس کی بھرپور مد د اور کمک کیلئے منظور وٹو پہلے
سے تیار بیٹھے تھے۔نتیجتاً ڈکٹیشن نہ لینے کامسمّم ارادہ کرنے والے میاں
صاحب نہ صرف ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہوئے بلکہ اپنے ہاتھوں سے استعفیٰ لکھ کر
3 ماہ کے نگراں دور کے وزیراعظم کیلئے معین قریشی کے نام پر بھی رضا مندی
ظاہر کردی۔
پاکستانی سیاست ایسے افسوسناک اور اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔حقائق
عوام کی نظروں سے خواہ کتنے ہی چھپائے جائیں یا معاملات کتنے ہی خفیہ رکھے
جائیں لیکن وہ تاریخ کے صفحات پر درج ہوہی جاتے ہیں۔کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ
ایک دن عیاں ہوہی جاتا ہے۔ یہاں کب کون کسی کا منظور نظر بن جائے اور کب
کسی کی نظروں سے اِس طرح گرجائے کہ اُسے سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے اور وہ
صحافیوں سے اپنی بے بسی کا اظہار یوں کرتا پھرے کہ ہنسنا تو دور کی بات ہے
ہمیں تو کھل کر رونے بھی نہیں دیا جاتا.
شو مئی قسمت سے کل قاسم کے ابو بھی اُنہی اداروں کے منظور نظر بنے ہوئے تھے
جن کے کبھی خود میاں صاحب ہوا کرتے تھے۔ وطن سے بے لوث محبت اور دفاعی
قوتوں سے عہد وفانبھانے کے دعوے جس طرح آج قاسم کے ابو صاحب کررہے تھے کبھی
میاں محمد نواز شریف بھی کیا کرتے تھے۔ اپنے مخالفوں کیلئے نظروں میں
انتہائی نفرت اور لہجہ میں شدید تلخی بھی بالکل اُسی طرح ہے جیسے کبھی میاں
صاحب کے انداز تکلم میں ہوا کرتی تھی۔ حالات کی سختی اور زمانے کی سنگینی
نے میاں صاحب کو بہت عاجز ، کمزور اور کم گو بنادیا ہے لیکن قاسم کے ابو
کاجوش اور جذبہ ابھی تازہ تازہ تھا۔ انہیں ابھی اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہی خوشامدی ٹولہ جو میاں اور بی بی شہید
کو اقتدار سے محروم کروانے کے لیے ہر اوّل دستہ اپنی خدمات دینے کے لیے
تیار رہتا ہے وہی قاسم کے ابو کے ساتھ ان کے قصیدے پڑھتا رہا قاسم کے ابو
ان خوشامدی ڈبو، اینگرو، جیسے چپڑ کناتی مشیروں کے نرغے میں وہ فی الحال
اپنے سرپرستوں کی محبت اور شفقت کے نشے میں مست اور چور تھے۔
بڑوں کی بھرپور تائید و حمایت کے جھولے وہ بڑی مسرت اور شادمانی سے ڈبو ،
شیدے ، آستین کے سنپولوں کی گود میں جھول رہے تھے ۔زمانے کے عطا کردہ
مسحورکن لمحات اور احساسات سے سرشار ہوکر وہ اقتدار و اختیارات کی ندی میں
خوب ڈبکیاں لگا رہے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ان سنپولوں کہ علاوہ اُنہیں اِسکے
سوا کچھ دکھائی اور سجھائی بھی نہیں دے رہا تھا ۔ ان ڈبو نما بقراطوں نے ان
کو اس ٹریک پر لے آئے جہاں ان کی طاقت کو اپنے آنے والے کل کے لیے اپنا
مستقبل وابستہ کررہے تھے.
قاسم کے ابو کی ملک گیر مقبولیت کو ان سنپولوں نے نشے میں دھت ہو کر کسی کو
خاطر میں بھی نہیں لارہے تھے. ڈبو اور شیدے وغیرہ اپنی ترجمانی میں حزب
اختلاف کو دھوبی پٹکا لگانے کے بیانیہ الاپ رہے تھے . اس دفعہ کسی کو این
آر او نہیں دیا جائیگا اور سب کو جیلوں کی سیر کروانگا "جیسے دلفریب جملے
ڈبو ، اینگرو وغیرہ جیسے ترجمان اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے سے زیادہ خود کو
قاسم کے ابو کی جگہ وزیراعظم بن جانے کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن شاید
اُنہیں پتا نہیں کہ کیا ہونے والا ہے جب دو تہائی اکثریت رکھنے والے حکمراں
بھی جب نظروں سے گرجاتے ہیں تودور دور تک اُن کاپتا نہیں ہوتا۔ یہ بے چارے
تو صرف7 ووٹوں کی اکثریت سے نوازے گئے تھے. اور پھر یہ ہی 7 ووٹ کب کسی
غیبی اشارے کے ساتھ ہی چھوڑ کر رفو چکر ہوئے کسی کو معلوم نہیں کہ یہ اچانک
کیوں اور کیسے ہوا ابھی تو نیا نیا معاملہ تھا اِس لئے ڈبو، اینگرو وغیرہ
نے تو ہاتھ ہولا رکھا تھا ۔ انہوں نے قاسم کے ابو کے ساتھ وہ کیا جو دشمن
بھی دس دفعہ کرنے سے پہلے سوچے گا۔
اور پھر سانحہ 9 مئی میں ان ڈبو ٹولہ اور ان کے رفقاء نے وہ کردار ادا نہیں
کیا جو انہیں اپنے کارکنان اور لیڈر کے اندر ہونے پر کارکنان کو ٹھنڈا کرنا
تھا. تحمل مزاجی اور صبر سے کارکنان کو قابو میں رکھنا تھا مگر ادھر تو کچھ
اور ہی چل رہا تھا کہ قاسم کے ابو پر کبھی فرد جرم عائد کروانے کے لیے
میدان بنانا جب وہ نہ بنا تو 9 مئی واقعات پر قاسم کے ابو کو نااہل اور
تنظیم سے ہمیشہ کے لیے سیاست کے میدان سے پویلین میں بھیج دی جائے مزاج اور
تیور بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ملک کے معاشی و اقتصادی حالات اتنے کٹھن
اوردشوار تھے کہ خان صاحب پہلے اُنہی سے نمٹ اچھی طرح نمٹ جاتے تو بڑی بات
تھی ۔ اس ملک میں حساس معاملات کو چھیڑنا تو دور کی بات ہے۔ اور پھر خان
صاحب کی قابلیت اور لیاقت کیا جوہر اور کرشمہ دکھاتی ہے۔
اور پھر وہی ہوا، یہ قوم کا المیہ ہے کہ ایک مضبوط ، ترقی یافتہ اور مستحکم
پاکستان کی اُس کی حسرت کبھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔دوسروں کا دست
نگر، مجبور اورلاچار پاکستان شاید اُس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ۔مایوسیوں
اور ناامیدیوں کے بادل اُس کے سر سے شاید کبھی چھٹیں گے ہی نہیں۔لگتا ہے کہ
روشن اور خوشحال مستقبل کے خواب ہمیشہ تشنۂ تعبیر ہی رہیں گے۔دنیا کی
ساتویں ایٹمی قوت بن جانے اور پاک چائنہ کوریڈور کی تعمیر کے باوجود ہمیں
اپنے دیوالیہ ہوجانے کا خوف اور ڈر ہمیشہ ہی لگا رہے گا۔70سالوں سے ہم یہی
دیکھتے آئے ہیں۔جب کبھی بھی حالات سازگار ہونے لگتے ہیں ، کوئی ناگہانی
مصیبت اورآفت دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم پر مسلط کردی جاتی ہے۔
بڑی عالمی طاقتیں تو ہماری دشمن ہیں ہی لیکن ہم خود بھی اپنے دشمن بنے ہوئے
ہیں۔ہم بہت جلد اپنے جمہوری حکمرانوں سے بددل اور بیزار ہوجاتے ہیں جنہیں
ہم بڑی محبت اور چاہ کے ساتھ اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے لاتے ہیںلیکن غیر
جمہوری حکمرانوں کو بلا چوں و چرا دس دس سال تک برداشت کرتے رہتے
ہیں۔جمہوریت اورسیاست کی اِس کمزوری اور ناپائداری کے سبب ہماری پالیسیاں
بھی عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہیں۔ہمارا کوئی منصوبہ اور پراجیکٹ پایۂ
تکمیل کو نہیں پہنچ پاتایا پھراُس کے مکمل ہونے میں اتنی تاخیر ہوجاتی ہے
کہ اُس کی تمام تر اہمیت و افادیت بے مقصد اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔یہی
وجہ ہے کہ یہاں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار توکجا خود اپنے لوگ بھی سرمایہ
کاری سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک شخص آتا ہے جو موٹر ویز اور بڑی
بڑی شاہراہوں کو ملک کی ترقی کیلئے ضروری اور اہم قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا
شخص اِسے غیر ضروری او ر فضول کہہ کر یکسر مسترد کردیتا ہے۔ہمارے قیمتی 25
سال اِسی کشمکش میں گزر جاتے ہیں اور ہمیں شاہراہوں کی اہمیت اُس وقت سمجھ
میں آتی ہے جب کوئی دوسرا ملک ہمیں" سی پیک" کی اہمیت و افادیت سے آگاہ
کرتا ہے۔ ہمارا اپنا کوئی ذہن اور وژن نہیں ۔ ہم یونہی دوسروں کے رحم وکرم
پر اپنی زندگیاں گزارتے رہیں گے۔یہی اِس ملک وقوم کا نوحہ ہے جسے ہم ہرچار
پانچ سال بعداپنے آپ کو سناسناکر چپ چاپ رو لیتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر اُسے
ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
|