اونٹ کو زیرے کی نسوار

بھارت کی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال غیر شادی شدہ افرادکو ہنشن دینے کا اعلان کر دیا ہے۔منوہر لال نے ایک تقریب میں شرکت کے دوران جہاں پر ایک ساٹھ سالہ بزرگ شہری نے ان سے پنشن کے مسئلے کا شکوہ کیا۔منوہر لال نے بوڑھے شہری کی شکایت سنی اور کہا کہ ہماری حکومت 45 سے 60 سال تک کے افراد (مرد و عورت) جو غیر شادی شدہ ہیں، ان کے لئے پنشن سکیم کا منصوبہ لا رہی ہے۔جس کے تحت ہر غیر شادی شدہ مرد و خواتین کو ہر ماہ 2750 روپے ملیں گے۔بشرطیکہ ان کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ اسی ہزار یا اس سے کم ہو۔پہلے سے پنشن لینے والے بزرگ شہریوں کی پنشن میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔

یورپ میں بزرگ شہریوں کی تعداد بتدریج بڑھتی جا رہی ہے اور یورپی یونین کے گیارہ مما لک ایسے ہیں کہ جہاں پنشن لینے والوں کی تعداد 30 فیصد سے زیادہ ہے جب کہ کل 27 ممالک میں یہ 24 فیصد کے قریب ہے۔ان ممالک کی خوبی یہ ہے کہ نہ صرف اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن دیتے ہیں بلکہ ہر بزرگ شہری پنشن کا حقدار ہوتا ہے۔آپ ذاتی کاروبار کرتے رہے ہیں مگر ایک خاص عمر میں آپ نے کاروبار بند کر دیا ہے ، تو بھی آپ پنشن وصول کرتے ہیں۔ان ممالک میں عوام کو نوازنیں کے اتنے انداز ہیں کہ آپ کام کریں یا نہ کریں آپ بھوکے نہیں سو سکتے۔ بچوں کا الاؤنس، بے روزگاروں کا الاؤنس، بزرگ شہریوں کی پنشن،سروائیور پنشن اور پتہ نہیں کونسی مراعات ان شہریوں کو دی جاتی ہیں اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ آپ جس ملک کے شہری ہیں وہ پابند ہے کہ آپ دنیا کے کسی گوشے میں ہوں وہ آپ کی پنشن وہاں پہنچائیں گے۔

یورپ میں جو لوگ آباد ہیں آپ ان سے ملیں تو عجیب باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک سیاسی آدمی جس نے یورپ کے ایک ملک میں سیاسی پناہ حاصل کر لی تھی مجھے یورپ کے ایک شہر میں ملا۔ ایک جگہ بیٹھ کر ہم نے چائے پی۔میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ بھائی یہاں کیا کام کرتے ہو۔ہنسنے لگا اور بولا، میرے چھ بچے ہیں بچوں کا الاؤنس اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ کام کی ضرورت نہیں پڑتی۔ہاں ان کے قوائد کے مطابق میں چھ ماہ سے زیادہ بے روزگار نہیں رہ سکتا۔میں چھ ماہ بعد رپورٹ کر دیتا ہوں کہ نوکری نہیں مل رہی۔ ڈیڑھ دو ماہ میں یہ خود ہی ڈھونڈھ کر مجھے کسی ملازمت پر بھیج دیتے ہیں۔ جہاں مجھے چار یا کچھ ماہ لازمی ملازمت کرنا ہوتی ہے۔ وہ مجبوراً کرتا ہوں پھر اگلے سات آٹھ ماہ فارغ، فراغت کے دنوں میں سوشل مل جاتی ہے، جو بہت کافی ہوتی ہے۔ اسی طرح زندگی مزے سے گزر رہی ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ہم ذاتی طور پر اور حکومتی سطح پر بھی یہاں کچھ غریب اور مستحق لوگوں کو زکوۃ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے برے حالات میں روٹی سے محتاج نہ ہوں مگر کوئی قدرے کھاتا پیتا شخص زکوۃ کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا کہ وہ غریبوں اور مستحق افراد کے لئے جائز ہے دوسروں کے لئے نہیں۔ وہاں یورپی ممالک میں زکوۃ سوشل کے نام سے ہوتی ہے۔ نام بدلنے سے اس کے خواص بھی بدل جاتے ہیں۔ ہمارے اچھے کھاتے پیتے لوگ وہاں پہنچ کر اس زکوۃ یا سوشل جو بھی آپ کہہ لیں کو بخوشی قبول کرتے اور اسی سے مزے کی زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کی زکوۃ تو معمولی رقم ہوتی ہے مگر وہاں کی سوشل تو بڑی رقم ہوتی ہے اور بڑی رقم کو چھوڑننا تو کفران نعمت ہوتا ہے ۔ یہی سمجھتے ہوئے ہم سوشل ہنس کر قبول کرتے اور اس سے اخراجات کرنا جائزجانتے ہیں۔اس رقم کے بارے جائز اور ناجائز کا سوچنا بھی وقت کا فقط ضیا ع سمجھا جاتا ہے کہ وہ مال مفت ہے اور کچھ بھی نہیں۔

پوری دنیا جانتی کہ ان کے ملک کے بزرگ شہری ان کے ملک کا اثاثہ ہیں اور اس عمر میں وہ حکومت کی خصوصی توجہ کے محتاج ہیں۔سرکاری ملازموں کی پنشن دراصل اس کی جوانی کی محنت اور اس کی خدمات کے صلے میں پوری دنیا دیتی ہے کہ اس کے خدمتگار زندگی کے آخری مرحلے پر پریشانی کا شکار نہ ہوں۔لیکن یہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں ایسے لوگوں کی حکومت ہو جن کی کچھ سوچ ہوں جو حالات کو سمجھتے ہوں اور جنہیں خلق خدا کا احساس ہو۔ پنجاب کی نگران حکومت ان لوگوں پر مشتمل ہے کہ جنہیں ذاتی نمود کی تو بہت فکر ہے لیکن احساس نام سے وہ نا آشنا ہیں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ پنجاب کے یہ سارے نگران دور کے منسٹر نہ تو شکل کے اچھے ہیں اور نہ عقل کے۔انہیں منسٹر بنانے والوں کا معیار بڑا پست تھا۔ یہ سوائے وفاداری نباہنے کے کوئی دوسری بات نہیں جانتے۔ عام آدمی سے بات کرنے کا انہیں سلیقہ ہی نہیں۔ ایک چیز کامن سنس بھی ہوتی ہے اس سے بھی یہ عاری ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں اور مرکز میں ماسوائے پنجاب کے تنخواہوں میں اضافہ تیس اور پینتیس فیصد ہوا اور پنشن میں اضافہ ساڑھے سترہ فیصد مگر پنجاب پر خاص نظر کرم کی گئی۔ یہاں تنخواہ تیس فیصد اور پنشن فقط پانچ فیصد۔یہ پنجاب کے تمام ملازموں اور خصوصاًریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ پنجاب کے یہ نگران کم عقل اور بخیل ہی نہیں بلکہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ جب بھی ایک جیسے افراد سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ بے چینی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب بھر کا ملازمین پچھلے کئی دن سے سراپا احتجاج ہیں۔

ہر بجٹ پر لیڈر حضرات بجٹ پر تبصرہ کرتے ہیں ۔گنے چنے فقرے جو ہر لیڈر ہر سال دھراتا ہے۔ اس تبصرے میں سب سے مقبول فقرہ ’’موجودہ بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس قدر مہنگائی میں ساڑھے سترہ فیصد پنشن میں اضافہ تو پنشن والوں کے اونٹ کے منہ میں واقعی زیرے والی بات ہے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ پنجاب کے پنشنروں کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ڈالا گیا بلکہ زیرہ ان کے ناک کے پاس سے گزار دیا گیا ہے۔ ایسا نسوار نما عمل تو آج خیبر پختون خواہ والے بھی قبول نہیں کرتے ، پنجاب والے کیسے کریں گے۔ عام آدمی کے خیال میں موجودہ نگران سیٹ اپ کی حیثیت مسلم لیٰگ (ن) کی بی ٹیم سے زیادہ کچھ نہیں ۔اس لئے اس استحصال اور زیادتی کا ذمہ دار مسلم لیگ ہی کو سمجھتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف اس معاملے میں مداخلت کریں اور پنجاب میں اس حوالے سے جو ان کی ساکھ پر دباؤ ہے اسے ختم کروائیں۔ اسی میں ان کی بہتری ہے۔دعا ہے کہ جب تک میرا کالم آپ تک پہنچے، یہ مسئلہ حل ہو چکا ہو۔


تنویر صادق


 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444558 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More