ثمر کی خاطر باغبان بیج بوتا ہے لیکن پیڑ کا سائے سے دوست
اور دشمن سبھی استفادہ کرتے ہیں۔ اپوزیشن کے اتحاد نے بھی اس کی دشمن بی جے
پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اس سے بی جے پی کی بیجا خود اعتمادی کا خمار ٹوٹا
اور متحدہ قومی محاذ(این ڈی اے) کی ضرورت محسوس ہوئی ورنہ اس کی آخری
رسومات چار سال قبل ادا کی جاچکی تھیں۔ پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو آبِ
حیات کا گھونٹ ملا اور ان کا بیان اخبارات کی زینت بنا ورنہ تو بی جے پی کے
اسٹیج پر پرچار منتری یعنی پی ایم اور ڈرانے دھمکانے(ہڑکانے) والے ہڑکار
منتری(ایچ ایم) کے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ ۔ کلیان جی آنندجی
کی اس جوڑی کے راگ درباری پرپوری پارٹی تھرکتی تھی مگر اب احساس ہوا کہ یہ
دونوں نہ تو کلیان کرسکتے ہیں اور نہ اب عوام کو ان کی گھسی پٹی موسیقی میں
آنند آتا ہے۔ اس لیے جے پی نڈا کو ہارمونیم اور مختار عباس نقوی کو طبلہ
پکڑا کر میدان میں لایا گیا ۔ ان بیچاروں نے اپنے قوالوں کی خوشنودی کے لیے
ٹھیکا لگانا شروع کردیا۔ ان کےا وٹ پٹانگ بیانات بدحواسی و بوکھلاہٹ کی
چغلی کھاتے ہیں۔اس حالت زار پر غالب کایہ شعر صادق آتا ہے ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
عام طور پر مخالفت کی ابتداء تضحیک و استہزاء سے ہوتی ہے۔ پٹنہ اجلاس کے
ایک دن بعدرائے پور میں امیت شاہ نے اسے راہل گاندھی کے تاجپوشی کی کوشش
کہہ کر پہلا گولا داغا ۔ اس سے بات نہیں بنی تو جموں جاکر اسے فوٹوسیشن
قرار دے دیا اوراتحاد کےناکام ہونے کی پیشنگوئی کردی ۔ انہیں کیجریوال یا
ممتا بنرجی کے لڑ کر الگ ہوجا نے پر بغلیں بجانے کی توقع تھی مگر ایسا نہیں
ہوا۔ ایک ماہ کے اندر اس اتحاد میں شامل جماعتوں کی تعداد 15سے بڑھ کر 26
ہوگئی تو مخالفین پر فوٹو سیشن کا الزام لگانے والے شاہ جی کو دہلی میں این
ڈی اے کےفوٹو سیشن کااہتمام کرنا پڑاجس میں 26 کے مقابلے 38 جماعتیں شریک
ہورہی ہیں ۔ دہلی کے فوٹو سیشن میں وزیر اعظم مودی کو مختلف زاویوں نظر
آئیں گے اور انہیں کی گونج سنائی دے گی ۔ اس کے برعکس بنگلورو میں مختلف
جماعت کے رہنما بی جے پی مکت بھارت کی حکمتِ عملی بنائیں گے ۔نیا نام اور
منتظم طے ہوگا۔ مرکزی دفتر کا قیام اور مشترک پروگرام بنے گا۔ سیٹوں کی
تقسیم اور مشترکہ مہم کا منصوبہ بنے گا۔ ان دونوں اجلاس میں یہ بنیادی فرق
فوٹوسیشن اور فوٹو فنش کا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں پہلے بی جے پی ایجنڈا
سیٹ کرتی تھی اور دوسرے ردعمل کرتےتھے لیکن بی جے پی کا این ڈی اے کو زندہ
کرنا ہوا کے رخ بدلنےکااعلان ہے۔ فی الحال اپوزیشن کی جارحیت کے آگے بی جے
پی مدافعت پر مجبور ہوگئی ہے۔
امیت شاہ نےجموں میں راہل گاندھی پر دفع 370، رام مندر اور تین طلاق کی
مخالفت کاالزام لگا کر کہا کہ انہیں تنقید کی عادت ہوگئی۔ راہل گاندھی تو
رام مندر یا تین طلاق کی بات ہی نہیں کرتے وہ تواڈانی اورساورکرپر تنقید
کرتے ہیں ۔ چین کی درندازی، روز افزوں مہنگائی اور بیروزگاری پر سوال کرتے
ہیں جن کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اس لیے بہکی بہکی باتیں کرنا
امیت شاہ کی مجبوری ہے۔ کشتی کے دنگل میں جب گوگا پہلوان چِت ہوجاتا ہے تو
گاما کو میدان میں آنا پڑتا ہے۔ شاہ کی شکست کے بعد مودی بھوپال میں آئے
۔ انہوں نے فرمایا اپوزیشن اتحاد سے پتہ چلتا ہے کہ سب گھپلے باز متحد ہونے
کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ وہاں این سی پی پر بدعنوانی کا
الزام لگانے والے مودی نے ایک ہفتہ بعد سارےگھپلے بازوں کی حلف برداری کروا
کر ثابت کردیا کہ کرپشن کے خلاف کارروائی کا کیا مطلب ہے؟اپنی ایک گھنٹہ ۵۵
منٹ کی طویل کئی بار پانی پینے والے نریندر مودی نے حزب اختلاف پر پانی پی
پی کر ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کا مضحکہ خیز بہتان لگایا ۔ وہ تو خیر بی
جے پی کارکنان کا اجتماع تھا اس لیے مروت ّ میں لوگ بیٹھے رہےاگر خطاب عام
ہوتا تو تقریر کے خاتمہ پر شاہ اور نڈا کے سوا سب جا چکے ہوتے۔ حزب اختلاف
کے جیل جانے کا تمسخر اڑانے والے مودی بھول گئے کہ ان کے وزیر داخلہ
بدعنوانی سے کہیں زیادہ سنگین الزامات میں جیل کی ہوا کھاچکے ہیں ۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں گاندھی خاندان ، ملائم ، لالو، شرد پوار،
کروناندھی اور چندر شیکھر راو کے بیٹے بیٹیوں کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر ان
کو اقتدار میں لانا ہے تو حزب اختلاف کو ووٹ دیا جائے۔مدھیہ پردیش کی جس
سرزمین پر مودی جی تقریر کررہے تھے وہاں بی جے پی نے جیوتردیتیہ سندھیا کو
مرکزی وزیر بنایا جو وجے راجے سندھیا کے پوتے ہیں ۔وجے راجے کی بیٹی
وسندھرا راجستھان میں بی جے پی کی وزیر اعلیٰ تھیں اور ان کا بھائی کانگریس
کے مرکزی وزیر تھا ۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی جنتا پارٹی
کے وزیر اعلیٰ ایس آر بومئی کے فرزند ہیں ۔ بی جے پی ارکان پارلیمان میں
کئی لوگوں کو وراثت میں ٹکٹ ملا ہے۔ اس کے علاوہ پشوپتی پاسوان اور چراغ
پاسوان رام ولاس پاسوان کے بھائی اور بیٹے ہیں۔ شردپوار کے بھتیجے بی جے پی
کے ساتھ آچکے ہیں۔ پرکاش سنگھ بادل اور بال ٹھاکرے کے بیٹوں کو بی جے پی
نے سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ امیت شاہ نے اپنے بیٹے جئے شاہ کو بی سی سی
آئی کا سربراہ بنا کر سونے کا انڈا دینے والی مرغی تھما دی ہے ۔وہ کئی
وزرائے اعلیٰ ا ور مرکزی وزراء سے زیادہ عیش کررہا ہے۔
وزیر اعظم کا بدعنوانی والا وار بیکار ہوگیا تو ڈر اور خوف کا دکھڑا لے
بیٹھے ۔ رائے پور کے اندر مودی نے کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی
کوششوں پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے پیچھے پڑیں گے، میری قبر کھودنے
کی دھمکی دیں گے لیکن انہیں پتہ نہیں ہے جو ڈر جائے وہ مودی نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر ڈر نہیں لگتا تو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی کہ
وہ مودی کونہ ڈرا سکیں گے،نہ ہلا سکیں گے۔ ڈرانے کا کام تو حزب اختلاف
کرسکتا مگر ہلانے کی ذمہ داری عوام کی ہے اور اس پر کسی کا اختیار نہیں ہے۔
انتخابی مہم کو اپنی ذاتی جنگ بنادینا خوف و دہشت کا شکار ہوجانا ہی ہے۔
وزیر اعظم کی حالت جب پتلی ہوتی ہے تو وہ ماضی میں بھی ذاتی ہمدردی کا کارڈ
کھیل چکے ہیں ۔ یہ حربہ پہلے گجرات کے اندر اور اڈانی کے مسئلہ پر گھرِجانے
کے بعد ایون میں کھیلا گیا۔ امسال فروری میں وزیر اعظم مودی نے ایوان ِ
بالا میں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے کہا تھا ’’ملک دیکھ رہا ہے کہ ایک
اکیلا شخص اتنوں پر بھاری پڑ رہا ہے۔ میں ملک کے لئے جیتا ہوں۔ میں ملک کے
لئے کچھ کرنےکی خاطر نکلا ہوں۔ ‘‘ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران ’مودی-اڈانی
بھائی بھائی‘ کا نعرہ یہ اعلان تھا کہ وہ ملک کے لیے نہیں بلکہ دو سرمایہ
داروں کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں ۔
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اس وقت کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے تقریر
میں بے روزگاری، مہنگائی، اڈانی بحران، نجکاری جیسے کسی موضوع پر جواب نہیں
دیا۔ وہ صرف اپنی شان میں قصیدے پڑھنے میں مصروف رہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ایک
آدمی ملک کو بچا سکتا ہے اور وہ سب پر بھاری پڑ رہے ہیں، صرف اور صرف ان کے
تکبر کا اظہار ہے۔ کانگریس نےیا دلایا کہ ’’ کورنا کے دور میں گنگا کے ساحل
پر لگے لاشوں کے انبار کو، آکسیجن کی کمی سے تڑپ کر مرنے والے لوگوں کو،
700 سے زیادہ کسانوں کی شہادت کو ملک نہیں بھولا ہے ۔ اب ایسے بھار (بوجھ)
سے ملک کو آزادی چاہئے۔‘‘ قدرت نے 6؍ ماہ کے اندر بی جے پی کو این ڈی اے کا
اجلاس بلانے پر مجبور کرکے ’ایک اکیلا کتنوں پر بھاری ‘ والی رعونت کو چکنا
چور کردیا۔حزب اختلاف کے اتحادی اجلاس سے ایک دن قبل بی جے پی کے صدر جے پی
نڈا نے اسے سیاسی خودغرضی کی کھوکھلی بنیاد پر بنایا گیا ’بھان متی کا کنبہ
‘ قرار دیا۔
بھان متی کے کنبے کی سب سے بڑی مثال تو مہاراشٹر کی صوبائی حکومت ہے۔ اس
میں دولت و اقتدار کی خاطر اپنی مادرِ تنظیم شیوسینا سے غداری کرنے والے
ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ اور اپنے چاچا کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے اجیت
پوار نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے بغل میں بی جے پی کا نائب وزیر اعلیٰ
فڈنویس دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک ہندوتوا نواز اور دوسرے سخت مخالف کو
جیل جانے کے خوف اور مزید دولت کی ہوس نے یکجا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ
پشوپتی پاسوان اور چراغ پاسوان بھی موجود ہیں۔ یہ چاچا بھتیجا بھی ایک
دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں لیکن اقتدار کی لالچ انہیں بی جے پی کی پناہ میں
لے آئی ہے۔نڈا بھول گئے کہ اگر 26 جماعتوں کا اتحاد بھان متی کا چھوٹا تو
38 جماعتوں کا جمع ہونا اس سے بڑا کنبہ ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بیس
لاکھ کروڈ کی بدعنوانی چھپانے کے لیے حزب اختلاف کا اتحاد قائم ہورہا ہے
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے اجیت پوار جیسے لوگ بی
جے پی کی واشنگ مشین میں غوطہ زن ہیں۔ مختار عباس نقوی کے مطابق شکست کے ڈر
سے پست حوصلہ حزب اختلاف متحد ہورہا حالانکہ یہ تو این ڈی اے کی کیفیت ہے۔
نقوی نے کہا کانگریس اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دیتی حالانکہ شیوسینا جیسی
ہندوتوا نواز پارٹی میں انتشار اور اپنا دل کو توڑ کر ماں بیٹی کو لڑانے کا
کام تو بی جے پی نے کیاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ این ڈی اے کے اجلاس نے حزب
اختلاف کے اتحاد کو چار چاند لگا دئیے۔ |