حضرت ابو دجانہ رحمتہ ﷲ علیہ

ایک عظیم شخصیت، جن سے ہم نا وقف تھے۔۔

 
ان کا نام اسماک تھا، ابودجانہ کنیت، قبیلۂ ساعدہؓ سے ہیں ۔ انھوں نے ہجرت سے قبل اسلام قبول کیا۔ آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو عتبہ بن غزوان سے ان کی برادری قائم کی، تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ غزوہ احد میں آنحضرتﷺ نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر کہا اس کا حق کون ادا کرتا ہے؟ ابودجانہ بولے میں ادا کروں گا ، آنحضرتﷺ نے ان کو تلوار عنایت فرمائی، بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے دریافت کیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ مسلمان کو نہ مارنا اور کافر سے نہ بھاگنا۔ حضرت ابودجانہؓ نے حسب معمول سر پر سرخ پٹی باندھی اور تنتے اکڑتے صفوں کے درمیان آکر کھڑے ہوئے،آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ چال اگرچہ خدا کو ناپسند ہے لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں۔ معرکہ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اوربہت سے کافر قتل کئے اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن میدان سے نہ ہٹتے تھے۔
آنحضرتﷺ ان کی اس جانبازی سے نہایت خوش ہوئے مکان تشریف لائے تو حضرت فاطمہؓ سے فرمایا میری تلوار دھوڈالو، حضرت علیؓ نے بھی آکر یہی خواہش کی اورکہا کہ آج میں خوب لڑا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا! اگر تم خوب لڑے تو سہل بن حنیف اور ابو دجانہؓ بھی خوب لڑے ۔ غزوۂ بنو نضیر کا کل مال اور اسباب رسول اللہ ﷺ کا حصہ تھا،تاہم آپ نے چند مہاجرین اورانصار کو اس میں سے حصہ عنات فرمایا تھا، ابودجانہ کو بھی زمین دی تھی جو انہی کے نام سے مال ابن خرشہ مشہور تھی۔ غرض تمام معرکوں میں ان کی شرکت عیاں تھی، مصنف استیعاب لکھتے ہیں:لہ مقامات محمودۃ فی مغازی رسول اللہﷺ(غزوات نبویﷺ میں ان کو ممتاز درجہ حاصل ہے)۔ ابو دجانه نے احد میں پیغمبرؐ کے ساتھ بیعت کی کہ وہ موت کی حد تک جنگ کریں گے۔جنگ کے سخت ترین لمحوں میں جب مسلمان پیغمبرؐ کو تنہا چھوڑ جاتے تھے، وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے تھے اور خود کو آنحضورؐ کی ڈھال قرار دیتے اور پیغمبرؐ پر جھک جاتے تاکہ تیر ان کی پشت میں پیوست ہو جائیں اور پیغمبرؐ محفوظ رہیں۔ آپ نے عبد اللہ بن حمید اسدی کہ جس نے ابی بن خلف جمحی کے ساتھ پیغمبرؐ کو قتل کرنے کی قسم اٹھائی تھی اس کو ہلاک کیا۔ انہوں نے اس لڑائی میں دشمن کے چند دیگر نامور جنگجوؤں کو بھی قتل کیا اسی وجہ سے نبی مھتشم ﷺ نے انھیں دعا دی۔ کہا جاتا ہے کہ سورہ صف کی چوتھی آیت حضرت علیؑ، ابودجانہ انصاری اور دیگر افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت ابودجانہ کو امام علیؑ اور حضرت حمزہ جیسی عظیم شخصیات کے ہمراہ شجاع ، مومن اور کم نظیر مجاہد قرار دیتی ہے۔
إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِهِۦ صَفّٗا كَأَنَّهُم بُنۡيَٰنٞ مَّرۡصُوصٞ[۱۲۶] اللہ یقینا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جب جنگ یمامہ لڑی گئی تو.مسیلمہ کذاب کے باغ کا دروازہ کسی سے بھی نہیں کھل رہا تھا ۔ دیواریں اتنی اونچی تھی کہ کوئی اندر نہیں جا سکتا تھا ۔ حضرت ابودجانہ نے صحابہ سے کہا کہ مجھے اٹھا کر دیوار کے اندر پھینک دو ۔ لہذا آپ کو دیوار کے اوپر سے پھینک دیا گیا ۔ وہاں آپ کا پاؤں ٹوٹ گیا ۔ لیکن پھر بھی آپ ختم نبوت کے منکروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے ۔ آپ نے دروازہ کھولا اور مسلمانوں کو باغ میں داخل کروا دیا ۔مسلمان جب باغ کے اندر پہنچ گئے تو حضرت ابودجانہ پھر بھی جواں مردی سے لڑتے رہے اور مسلمہ کذاب کو مارنے کے لیے آگے بڑھے لیکن شہید کر دیئے گئے ۔

Zainab Nisar Bhatti
About the Author: Zainab Nisar Bhatti Read More Articles by Zainab Nisar Bhatti: 25 Articles with 13456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.