یتیم چھوکرا

میں چھ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا ،باپ کا سا یہ سر سے اٹھتے ہی دنیا جہنم نظیر بن گئی۔ کم عمری میں ہی مجھے تنہا رہنے کے نقصانات کا اندازہ ہونے لگا نقصانات تو ایک طرف اتنی چھوٹی عمر میں اکیلے رہنا تپتے صحرا میں میلوں کی مسافت طے کرنے کے مترادف تھا۔محلے کے ایک شریف آدمی حاجی کریم بخش نے مجھ پر ترس کھایا اور مجھے علاقے کے وڈیرے چوہدری دلاور کے گھر میں کھانے پینے اور کپڑے جوتی کے بدلے میں گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے کیلئے ایک طرح کی کہنے کو ملازمت دلوا دی۔اور یوں میں چھ سال کی عمر میں ہی کام پر لگ گیا۔چوہدری دلاور ایک نیک اور خداترس انسان تھا اس نے مجھ سے کہا "تم جب تک جھوٹ نہیں بولتے چوری نہیں کرتے جو کچھ تمھیں کرنے کو کہا جائے اس کے خلاف ورزی نہیں کرتے تو یہاں تم ٹھہر سکتے ہو "میں نے چوہدری دلاور کی تینوں باتوں کو پلے باندھ لیا اور ان پر سختی سے عمل کرنے لگا۔چوہدری دلاور نے میری ذہانت دیکھتے ہوئے مجھے سکول میں داخل کرا دیا۔لیکن پہلے ہفتے میں سکول نہیں گیا اور بچوں کی طرح گھر پر رونے لگا۔چوہدری دلاور کی بیوی پروین بی بی ، جو کہ ایک نیک اور پارسا خاتون تھیں اس نے مجھے سکول جانے پر مائل کیا چوہدری دلاور اور اس کی بیوی مجھے اپنے بچوں کی طرح پالنے لگے اور میرا دھیان رکھنے لگے یوں میں ملازمت سے ترقی کرتے ہوئے سکول پہنچ گیا۔اسکول میں دوسرے لڑکے لڑکیوں نے جب ایک نیا شکار دیکھا تو مجھ پر چڑھ دوڑے۔ وہ میرے لمبے کان اور چھوٹی آنکھوں کا مذاق اڑاتے مجھے بہرہ اور یتیم چھوکرا،کہہ کر پکارتے اور یہ و ہ جملہ تھا جو مجھے زندگی میں سب سے برا لگتا تھا جب مجھے کوئی یتیم چھوکرا کہتا، تو مجھے ایسے لگتا کہ کسی نے میرے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا ہے ۔ان کے ستانے کی وجہ سے میں اس قدر تنگ دل ہوتا کہ میرا جی ان سے لڑنے کو چاہتا لیکن مجھے اپنے گھر پر رکھنے والے چوہدری دلاور کی بات یاد آ جاتی وہ کہتے ہوتے تھے "یاد رکھو کہ اڑنے اور مقابلہ کرنے کی نسبت لڑائی سے گریز کرنے کے لیے زیادہ بڑا آدمی بننا پڑتا ہے۔اس لیے میں اپنی خواہش کے باوجود ان کے ساتھ لڑنے سے پہلوتہی کرتا۔لیکن ایک روز ایک لڑکے نے اسکول کے صحن کے باہر سے گائے کا گوبر اٹھا کر میرے منہ پر پھینکا تو مجھے سخت غصہ آگیا اور میں نے اسے خوب جی بھر کر پیٹا۔پھر کیا تھا کہ آوارہ لڑکوں کے ایک گروہ نے مجھ پر یلغار کردی اور مجھے مار مار کر میرا بھرکس نکال دیا۔اور یوں سکول میں لڑکے میرے مزید دشمن ہوگئے۔ان کے طرح طرح کے ستانے کے باوجود میں سکول میں کبھی نہیں رویا تھا لیکن گھر آکر سارا گرد و غبار نکال لیا کرتا تھا۔جب پروین بی بی نے مجھے ان حالات میں دیکھا تو وہ بھانپ گئی اور ایک دن پروین بی بی نے مجھ سے کہا "دیکھو اگر تم ان لڑکوں میں، جو تمہارے دشمن ہیں دلچسپی لینے لگو، اور سوچو، کے تم ان کے لئے کیا کر سکتے ہو،تو وہ کبھی بھی تمہیں نہیں ستائیں گے نا یتیم چھوکرا کہیں گے "۔

میں نے پروین بی بی کی نصیحت کان لگا کر سنی اور اسے پلے باندھ لیا۔میں نے یکسر اپنے آپ کو بدلا اور محنت سے پڑھنے لگا اور جلد ہی جماعت میں اول آنے لگا۔اب میرے ساتھ کوئی حسد بھی نہیں کرتا تھا کیونکہ میں اپنے ہم جماعتوں کی ہر طرح سے مدد کرنے لگا تھا۔میں اکثر لڑکوں کو مضمون اور کہانیاں لکھنے میں مدد دیتا، کچھ لڑکوں کو ان کی پوری پوری تقا ریر لکھ کر دیتا ایک لڑکے کو اپنے گھر والوں کو یہ بتاتے ہوئے شرم آتی تھی کہ میں اس کی مدد کر رہا ہوں تو و? اپنی امی کو کہتا کہ میں کھیلنے جا رہا ہوں اور کھیلنے کے بہانے وہ چوہدری دلاور کی زمینوں پر آجاتا اور میں اسے پڑھائی میں مدد کرتا۔کسی کو بتائے بغیر میں ایک لڑکی کو ہر روز شام کے وقت الجبرا کے سوال سمجھاتا۔ہمارے پڑوس میں دو سن رسیدہ کسان مر گئے تھے۔ ایک عورت کو اس کا شوہر چھوڑ کر چلا گیا تھا،ہماری ہمسای بیوہ تھی ،ان چاروں خاندانوں میں، میں ہی واحد مرد تھا میں ان بیوا وں کی دو سال تک مدد کرتا رہا سکول سے آتے جاتے وقت، میں ان کی زمینوں پر ٹھہر جاتا، ان کیلئے لکڑیاں کا ٹتا ،ان کے جانور نہلاتا ، جانوروں کو پانی پلاتا اور انہیں چارہ ڈالتا۔وقت گزرتا گیا اور پرو ین بی بی کی کہی گئی نصیحت پر جو میں نے عمل کیا تھا اب وہ رنگ دکھانے لگی ۔اب مجھے برا بھلا کہنے کی بجائے دعائیں دی جانے لگی ہر شخص مجھے اپنا دوست سمجھتا اور اپنے دل کی باتیں میرے ساتھ کرنے لگا۔ تعلیم وتدریس ختم ہونے کے دوران ہی مجھے فوج میں ملازمت مل گئی اور میں فوج میں بھرتی ہو گیا اور گاؤں سے دور چلا گیا۔جنگ ختم ہونے کے بعد فوج کی ملازمت سے گھر واپس آیا تو گاؤں والوں نے میرا بڑا پرتپاک جذبات اور احساسات کے ساتھ استقبال کیا۔جب میں پہلے روز گھر پہنچا تو تین سو کے قریب کسان مجھ سے ملنے کیلئے آئے ان میں سے بعض تو اسی ،اسی ،نوے میل دور سے پیدل چل کر آئے تھے۔ان کا اور میرا تعلق حقیقت میں مخلصانہ بنیادوں پر قائم تھا کیونکہ میں ان کی مدد کرنے میں دلی خوشی محسوس کرتا تھا اگرچہ مجھے بہت پریشانیاں تھیں لیکن ان پریشانیوں کے باوجود میرے لئے سب سے زیادہ دلفریب بات یہ تھی کہ اب پچیس سال سے مجھے کسی نے "یتیم چھوکرا" نہیں کہا تھا "۔

Sajid Abbas Sabazwari
About the Author: Sajid Abbas Sabazwari Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.