بالی ووڈ میں یوں تو ہر طرح کی فلمیں بنتی ہیں مگر ان کی
دو بڑی قسمیں ایکشن اور فیملی ڈرامہ ہیں ۔ مہاراشٹر کی سیاست میں پچھلا سال
ایکشن کا تھا ۔ ایکناتھ شندے کی غداری کے بعد مار دھاڑ، بھاگ دوڑ ،گالی
گلوچ اور الزام تراشی وغیرہ کا دور دورہ تھا لیکن این سی پی کی بغاوت کے
بعد ایک فیملی ڈرامہ شروع ہوگیا ہے۔ محبت ہو یا سیاست دونوں میں بغاوت تو
ہوتی ہے مگر اس کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ فیملی ڈرامہ میں رونا دھونا اور
ملنا بچھڑنا چھایا رہتا ہے۔ اجیت پوار کو نہ جانے کس جیوتشی نے اتوار کا
مہورت نکال کردے دیا ۔ انہوں نے اپنی تازہ حلف برداری کے لیے اسی دن کا
انتخاب کیا۔ تازہ اس لیے کہ پہلے چار مرتبہ وہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کا
حلف لے چکے ہیں ۔ ہر بار اس امید میں حلف برداری کی جاتی ہے کہ جلد ہی اچھے
دن آجائیں اور وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کا موقع مل جائے گا
مگر مودی جی کے اچھے دن کی مانند وہ آکر نہیں دیتےاور ’دل کے ارماں
آنسووں میں بہہ جاتے ہیں۔پہلے یہ باتیں دل کے اندر یا نجی محفلوں تک محدود
رہتی تھیں لیکن اب پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور عوامی جلسوں میں اس کا اظہار
ہونے لگا ہے۔
ہندی فلموں کے اندر والدین کی خواہش کے مطابق طے ہونے والی شادی میں بھی
تنازع پیدا کیا جاتا ہے تاکہ تین گھنٹوں تک ناظرین کو پیسے وصول کرنے کا
موقع دے کر آخر میں ہیپی اینڈ کردیا جائےلیکن ماں باپ کی مرضی کے خلاف
ہونے والی شادی میں اچانک گھر سے فرار لازمی ہوتا ہے چاہے اس کے لیے سورت
سے گوہاٹی جانا پڑے یا یہ دوڑ راج بھون تک محدود ہو۔ اتوار کی حلف برداری
کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ شکونی چاچا شرد پوار کو بھنک لگ گئی تھی۔ اس لیے
انہیں قلعہ بندی کے موقع سے محروم رکھنے کی خاطر چھٹی کے دن گورنر کو زحمت
دی گئی۔ ویسے گورنر حضرات کے پاس اواخر زندگی کی تعطیلات گزارنے کے سواکام
ہی کیا ہوتا ہے؟ ان کو تو اتوار اور پیر کے درمیان کا فرق بھی کم ہی معلوم
ہوتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز جب کسی سازش میں انہیں شامل کرتا ہے تو ایک
مصروفیت ان کے ہاتھ آجاتی ہے۔ وہ اس میں جوش و خروش کے ساتھ جٹ کر وقت
گزاری کرنے لگتے ہیں ۔ مہاراشٹر کے سابق گورنر بھگت سنگھ کوشیاری تو چونکہ
سیاست کی دنیا سے آئے تھے اس لیے ان کی مضحکہ خیز بیانات سے بھی عوام لطف
اندوز ہوتے تھے۔ اب وہ سلسلہ تورک گیا ہے مگر سازشوں جال ہنوز بنا جارہا ہے
اور اس میں اجیت پوار پھر ایک بار بصد شوق گرفتار ہو گئے ہیں۔
اجیت پوار نے حلف برداری کے بعد اپنی من پسند وزارت کے لیے ہاتھ پیر مارنے
لگے۔ یہ بات ان کے دوست اور دشمن سب جانتے تھے کہ وزارت داخلہ میں انہیں
کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ورنہ مہا وکاس اگاڑھی کی سرکار میں چاچا کے
آشیرواد سے وہ قلمدان حاصل کرنا مشکل نہیں تھا ۔ این سی پی کووہ اہم عہد ہ
انیل دیشمکھ کو سونپ دینا پڑا ۔ یہ مودی راج کا کمال ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی
سرکار کے دوران گلے تک بدعنوانی میں غرق اجیت پوار تو جیل جانے سے محفوظ و
مامون رہے مگر بے قصور انیل دیشمکھ کو اور ان کے بعد بدعنوانی کے خلاف لڑنے
والے نواب ملک کو ’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘ کا نعرہ لگانے والوں نے
جیل بھیج دیا۔ ان میں ایک ضمانت پر رہا ہوگیا ہے اور دوسرا ہنوز اسپتال میں
نظر بند ہے۔ اجیت پوار کو نظم و نسق جیسے جھنجھٹ کے کاموں میں دلچسپی نہیں
ہے اس لیے ان کی پہلی پسند وزارتِ خزانہ ہے۔ وہ اپنی دریا دلی کے لیے خاصے
مشہور ہیں ۔ اجیت پوار ’ خوب کھاوں گا اور جی بھر کے کھانے دوں گا ‘ کے
نعرے پر عمل کرتے ہیں لیکن خزانہ صرف اپنے خاص خاص لوگوں پر ہی لٹاتے ہیں۔
ایکناتھ شندے کی بغاوت کا ایک جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ اجیت پوار صرف
اپنے حامیوں کو سرکاری خزانے سے نوازتے تھے۔ اس کی وجہ سے دیگر سیاسی
جماعتوں کے لوگ محروم رہ جاتےتھے اور اپنے حلقۂ انتخاب میں عوامی فلاح و
بہبود کا کام نہیں کرپاتے تھے۔ ویسے عوام میں کسے دلچسپی ہے اصل بات یہ ہے
کہ اپنی جیب نہیں بھرپاتے تھے لیکن یہ اعتراف کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔
ایکناتھ شندے اور ان کے حامی اجیت پوار کو وزیر خزانہ بنائے جانے کے مخالف
اسی لیے تھے کہ وہ انہیں بھگتنا پڑا تھا۔ اجیت پوار ان لوگوں میں سے نہیں
ہیں جن کو دبایا جاسکے اس لیے وہ کالو بالو کا تماشہ کرنے والے شندے اور
فڈنویس کو چھوڑ کر سیدھے دہلی پہنچ گئے اور امیت شاہ کو رام کرلیا۔ ایکناتھ
شندے کی ناراضی سے متعلق سنجے راوت نے ایک بیان میں کہا ہے چونکہ ان کی
ضرورت ختم ہوگئی ہے اس لیے بی جے پی نے کہہ دیا ہے رہنا ہے تو رہو ورنہ
راستہ ناپو۔ ایکناتھ شندے کو استعمال کرنے کے بعد کوڑے دان میں ڈالنے کی
تیاری چل رہی ہے لیکن اگر بی جے پی اگلا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیت جائے
تو یہی سلوک اجیت پوار کے ساتھ بھی ہوگا۔ موجودہ دور کے ابن الوقت سیاستداں
چونکہ قریبی فائدے کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس لیے دوسروں کے انجام سے عبرت
نہیں ۔
انتظارِ بسیار کے بعد امسال مئی میں ایکناتھ شندے اور ان کے ساتھ پارٹی سے
نکلنے والے 16؍ارکان کی رکنیت سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت عظمیٰ
نے اسپیکر راہل نارویکر کو سونپ دیا۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے اس پر چپیّ سادھے
ہوئے ہیں۔ اس کے خلاف ادھو ٹھاکرے کے ساتھی پربھو نے سپریم کورٹ سے رجوع
کیا تو اس نے دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سے بھی کھلبلی
مچ گئی ہے۔ اس طرح بی جے پی کے پاس ایکناتھ شندے سے گلو خلاصی کا ایک نادر
موقع ہاتھ آگیا ہے۔ وہ اپنی پارٹی اسپیکر کے ذریعہ ایکناتھ شندے کو گھر
بھیج کر اس بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کر سکتی ہے۔اپنی من پسند وزارت کو حاصل
کرنے کے ایک ہفتہ بعد اجیت پوار اپنی چاچی سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اس
پر لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ وہ بیمار ہیں اس لیے عیادت کی
خاطر گئے تھے اور خاندانی رشتوں کے درمیان سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا
چاہیے۔
یہ معاملہ ابھی رفع دفع بھی نہیں ہوا تھا کہ اگلے دن اجیت پوار اپنی پارٹی
کے تمام ساتھی وزراء کے ساتھ شرد پوار کے دفتر بن بلائے پہنچ گئے اور ان کے
پیر چھو کر آشیرواد حاصل کیا۔ شرد پوار خاموشی سے ان کی چکنی چپڑی باتیں
سنتے رہے اور ایک لفظ نہیں کہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی چیز
اجیت پوار کو اپنے چاچا کے چرنوں میں لے گئی ۔ اس دوران پچھلے اتوار کو اگر
اجیت پوار کا عوامی جلسہ نہ ہوا ہوتا تو وہی نورا کشتی والی سازشی تھیوری
چل پڑتی کہ شردپوار نے اپنی مرضی سے اجیت پوار کو بی جے پی میں بھیجا ہے
۔ممبئی میں باندرہ کے اندر منعقد ہونے والے خطاب عام میں اجیت پوار نے اپنے
چاچا کو جو کھری کھوٹی سنائی ویسا تو کوئی اپنے دشمن سے بھی نہیں کہتا۔ اس
لیے وہ امکان تو خارج ہوگیا۔ اب یہی وجہ رہ گئی چونکہ مطلوبہ تعداد میں
ارکان اسمبلی ساتھ نہیں آسکے۔ 36کے بجائے 29 ہی آئے اس لیے فی ا؛حال جو
شندے کے ساتھ ہورہا وہی کل ان کے ساتھ بھی ہوگا اس لیے کچھ اور ارکان کو
رجھا کر ساتھ لانے کی یہ ایک سعی تھی ۔ بظاہریہ توکامیاب نہیں ہوگی مگر اب
اجیت پوار کے ساتھیوں کی گھر واپسی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔اجیت پوار کی
گہار اور شرد پوار کے انکار پر’ میں سندر ہوں‘ نامی فلم کا یہ نغمہ صادق
آتا ہے؎
مجھ کو ٹھنڈ لگ رہی ہے مجھ سے دور تو نہ جا
آگ دل میں لگی ہے میرے پاس تو نہ آ
اجیت پوار کو سرکار کے گرنے کا ڈر ستا رہا ہے۔ ان کا دل بیٹھ رہا ہےاور پیر
ٹھنڈے ہورہے ہیں۔ اس لیے وہ چاچا کے چرن چھو رہے ہیں جبکہ شرد پوار کے دل
میں اپوزیشن اتحاد کی آگ لگی ہوئی ہے۔ انہیں محسوس ہوگیا ہے کہ 2024کے
اندر انڈیا کے اقتدار میں آنے کا امکان روشن ہوگیا ہے اس لیے وہ اجیت پوار
سے دوری بنا رہے ہیں۔ اسٹیج کے اوپر تو اس کالو بالو کے تماشے سے عوام کو
بہلایا جارہا ہے مگر پردے کے پیچھے ہاوسنگ منسٹر کے طور اپنی مدت کار کے
خاتمہ پر دیویندر فڈنویس نے اڈانی کے دھاراوی پروجکٹ کو منظوری دے کر بڑا
ہاتھ مارلیا۔ اس فیصلے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یاتو انہیں یقین نہیں تھا کہ
ان کے بعدقلمدان سنبھالنے والے وزیر مکانات اس پروجکٹ کو منظوری دیں گے یا
وہ اس سے ملنے والی ملائی میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وجہ جو بھی
ہو پردے پیچھے ایک بڑا کھیلا ہوگیا۔ عوام کو بہلانے پھسلانے کے لیے بہت
سارے تماشے ہیں مثلاً یونیفارم سیول کوڈ وغیرہ وغیرہ ۔ عام لوگوں کا پر تو
غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
|