پیکر حلم و حیا ،مخزن صدق وصفا ،سراپا عجز و انکسار ، معدن شفقت و پیار ، زبدۃ المصلحین ، نشان راہ حق ، پاسبان اہل حق، ماہتاب علم و حکمت ، مبلغ شریعت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اس فانی دنیا میں واقعہ فیل کے ۱۳ سال بعد تشریف لائے۔ آپ کا نام عمر، کنیت ابو حفص اور لقب فاروقِ اعظم ہے، آپ کا شجرہ نسب آٹھویں پشت میں نبی مھتشم سرکارِ دو عالم ﷺ کے خاندانی شجرہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کا رنگ سرخی مائل سفید تھا، آجری عمر میں سر کے بال جھڑ گئے، طویل القامت اور موٹے بدن کے آدمی تھے، گال اندر کو دھنسے ہوئے اور مونچھوں کے کنارے کا حصہ بہت لمبا تھا۔ عمر وہ ہیں کہ جن کے متعلق نبی محترم ﷺ نے فرمایا :"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے.جب شیطان تمھیں کسی راستے میں چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ تو تمھارے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے ہو لیتا ہے"[صحیح بخاری ] ۔ عمر رضی اللہ عنہ وہ ہیں کہ جنہوں نے روم اور ایران کو شکست دی، بیت المقدس کو یہودیوں سے بچانے والا عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ راتوں کو خبر گیری کرنے والا عمر رضی اللہ عنہ ہے، زمین جس کے خوف سے تھرتھرانے لگے، لوگ جس کے در سے گھروں میں بند ہو جائیں، دشمن جس کی ہیبت سے کانپ اٹھے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عظیم انسان ،عبقری شخصیت،بے مثال حکمران اور قائد،پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ کے جاں نثار صحابی ؓ،امیر المؤمنین ،خلیفہ ثانی،عدل وانصاف ،حق گوئی وبے باکی کے پیکر مجسم حضرت عمر فاروقؓ کی حیات اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت رہی ہے۔ حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘ اور عمر وہ جن کے متعلق خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے
|